میں اس وقت متحدہ عرب امارات میں ہوں اور شارجہ میں بیٹھا یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں۔ یکم جنوری ۲۰۰۴ء کو میر پور ڈھاکہ کے مدرسہ دارالرشاد میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں مجھے ’’نئی صدی میں علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر گزارشات پیش کر نے کی دعوت دی گئی اور مدرسہ کے مہتمم مولانا محمد سلمان ندوی کا اصرار ہے کہ میں اس کے لیے ضرور حاضری دوں۔ مدرسہ میں اسباق کے دوران مجبوری کی اکا دکا چھٹیوں کے علاوہ زیادہ غیر حاضری کا عادی نہیں ہوں لیکن مولانا سلمان صاحب کے ساتھ لندن سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا بھی اصرار شامل تھا جو خود بھی ڈھاکہ آرہے ہیں اس لیے انکار کرنا میرے لیے مشکل ہو گیا اور میں نے ڈھاکہ کے سفر کا پروگرام بنا لیا۔
سیمینار کے دعوت نامے پر اسلام آباد میں بنگلہ دیش کے سفارت خانے نے مجھے ویزا دے دیا مگر جب سفر کا شیڈول طے کرنے کے لیے ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ڈھاکہ کے لیے پی آئی اے کی کوئی فلائیٹ نہیں ہے۔ کراچی سے بنگلہ دیش کی قومی ایئر لائن بیمان کی ہفتہ میں دو تین فلائیٹس ہیں لیکن چونکہ دسمبر کے آخری ہفتہ کے دوران ڈھاکہ میں تبلیغی اجتماع ہو رہا ہے اس لیے بہت رش ہے اور سیٹ کا ملنا مشکل ہے، البتہ الامارات سے براستہ دبئی سفر ہو سکتا ہے جو قدرے مہنگا ہے مگر اس میں دبئی میں ایک دو روز رکنے کاچانس موجود ہے۔ چنانچہ میں نے ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کا پروگرام بنا لیا اور ۲۹ دسمبر پیر کو صبح سوا تین بجے لاہور سے دبئی جانے والی ’’الامارات‘‘ کی فلائیٹ سے سیٹ بک کرا لی جس کے ساتھ ہی ۳۱ دسمبر کو دبئی سے ڈھاکہ کے لیے سیٹ ملی اور اس طرح مجھے دبئی میں دوستوں سے ملاقات کے لیے دو روز میسر آگئے۔ دبئی میں اس سے پہلے کئی بار آچکا ہوں یہاں ہمارے دوستوں کا ایک اچھا حلقہ موجودہے۔ محمد فاروق شیخ صاحب گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں، جمعیت علماء اسلام کے دور کے سرگرم ساتھیوں میں سے ہیں،کافی عرصہ سے شارجہ میں مقیم ہیں، ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اور اس سفر میں میرے میزبان وہی ہیں۔ انہیں فون پر اطلاع دے دی کہ ۲۹ دسمبر کو صبح دبئی پہنچ رہا ہوں اور دو روز دبئی میں قیام رہے گا لیکن میرے پاس دبئی کا ویزہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ آپ آجائیں کوئی صورت نکالنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ پیر کو صبح چھ بجے کے لگ بھگ دبئی ایئر پورٹ پر اترا تو ’’الامارات‘‘ کے عملہ سے رابطہ کرنے پر معلومات حاصل ہوئیں کہ اگر ہوٹل کے قیام کا خرچہ اور ویزہ کی فیس ادا کردوں تو ٹرانزٹ ویزہ مل سکتا ہے۔ یہ فیس مجموعی طور پر ۱۷۰ ڈالر بنتی تھی جو میں نے ادا کر دی اور ایئر لائن کے کاؤنٹر نے مجھے ٹرانزٹ ویزے کے لیے کاغذات بنا دیے جس پر چار دن کے لیے امیگریشن کاؤنٹر نے دبئی میں عارضی قیا م کا ویزہ دے دیا۔ کم و بیش ایک گھنٹے کی اس نوعیت کی مصروفیت کے بعد ایئر پورٹ سے باہر آیا تو محمد فاروق شیخ اور ہمارے گکھڑ کے پرانے ساتھی حافظ بشیر احمد چیمہ استقبال کے لیے موجود تھے، انہوں نے اپنے طور پر ویزے کے لیے رابطے قائم کر رکھے تھے مگر اس کی نوبت نہ آئی اور مجھے اس سے قبل ہی ویزا مل گیا۔
ایئر پورٹ سے سیدھا شارجہ پہنچا اور اپنے میزبان سے کہا کہ چائے کا ایک کپ پی کر سو جاؤں گا اور جو پروگرام یا ملاقات بھی ہو وہ ظہر کے بعد ہو گی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ان احباب نے ابوظہبی جانے کا پروگرام طے کر رکھا تھا جس کے لیے قاری عبید الرحمن قریشی صاحب زیادہ سرگرم تھے جو شارجہ میں مرکز ہاشمیہ کے نام سے قرآن کریم کی تعلیم کی ایک درسگاہ چلا رہے ہیں اور ان کا شمار جمعیت طلبہ اسلام کے پرانے سرگرم ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ دبئی سے روانگی سے قبل حضرت مولانا محمد اسحاق مدنی کے ہاں حاضری دی جو آزاد کشمیر کے بزرگ علماء کرام میں سے ہیں، ایک عرصہ سے دبئی میں قیام پذیر ہیں اور دینی و اصلاحی خدمات کے ساتھ تحقیقی و تصنیفی سرگرمیوں میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ میرا یہ سفر اچانک تھا اس لیے بہت سے دوستوں کے لیے تعجب کا باعث ہوا، حضرت مولانامحمد اسحاق خان مدنی نے بھی تعجب کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا۔
مغرب کے وقت ہم ابوظہبی پہنچے جو متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت ہے اور دوسری عرب امارات کی طرح وہاں بھی بہت سے پاکستانی علماء کرام امامت اور قرآن کریم کی تدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ اب صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی اور پاکستان کے حفاظ و قراء اور علماء کرام کے لیے متحدہ عرب امارات کے ویزے کا حصول اور یہاں امامت و تدریس کے لیے مناسب ملازمت کی دستیابی آسان مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان حضرات کے بقول اب ان مقاصد کے لیے عرب ممالک خصوصاً مصر وشام کے حضرات کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کی وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مصر اور دوسرے عرب ممالک کی حکومتوں اور ان کے مذہبی امور کے محکموں کا متحدہ عرب امارات کی حکومت سے براہ راست رابطہ رہتا ہے اور متحدہ عرب امارات کی مختلف ریاستوں میں دینی خدمات کے لیے مواقع کی تلاش اور ان کے لیے ضرورت کے مطابق افراد کی فراہمی دونوں ملکوں کے درمیان محکمانہ تعاون اور مشاورت کے تحت ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان کی وزارت مذہبی امور کا ایسے معاملات میں متحدہ عرب امارات کی حکومت سے نہ کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی اسے کوئی دلچسپی ہے بلکہ پاکستان سے اس شعبہ میں آنے والوں کو یہ سارے مراحل ذاتی کوشش اور تعلقات کی بنا پر طے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستانی آئمہ، مدرسین، حفاظ اور علماء کی اچھی خاصی تعداد متحدہ عرب امارات کی مختلف ریاستوں میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ ابو ظہبی میں متعدد علماء اور احباب سے ملاقات ہو گئی۔ شام کے کھانے میں علماء کرام کی ایک غیر رسمی نشست ہوئی جس میں ان دوستوں نے مجھ سے پاکستان کے حالات کے بارے میں دریافت کیا اور میں نے ان سے متحدہ عرب امارات کے بارے میں مختلف حوالوں سے سوالات کیے اور اس غیر رسمی تبادلہ خیالات کے بعد ہم رات دو بجے واپس شارجہ پہنچ گئے۔
۳۰ دسمبر منگل کو دبئی کے ایک علمی ادارہ ’’مرکز جمعۃ الماجد للتراث والثقافۃ‘‘ میں حاضری کا پروگرام تھا، میں اس سے قبل یہ مرکز دیکھ چکا ہوں اس لیے اس مرکز میں خواہ تھوڑی دیر کے لیے حاضری ہو اس کے بغیر دبئی کے سفر کو نا مکمل سمجھتا ہوں، بلکہ میری خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان سے کوئی بھی عالم دین دبئی آئیں تو اس مرکز میں تھوڑی دیر کے لیے ضرور حاضری دیں۔
جہلم سے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام کے مہتمم مولانا قاری خبیب احمد عمر ان دنوں دبئی آئے ہوئے ہیں، وہ حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے فرزند و جانشین ہیں اور میرے بہنوئی ہیں، میری چھوٹی ہمشیرہ ان کے ہاں ہیں جو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے شعبہ بنات کی انچارج ہیں اور ایک عرصہ سے بخاری شریف اور دورۂ حدیث کے دیگر اسبا ق پڑھا رہی ہیں۔ قاری صاحب سے رابطہ ہوا تو میں نے اس خیال سے بھی مرکز جمعۃ الماجد جانے کا پروگرام بنا لیا کہ اس بہانے قاری خبیب احمد عمر صاحب اس مرکز کو دیکھ لیں گے۔ چنانچہ ہم دونوں جناب محمد فاروق شیخ، حافظ بشیر احمد چیمہ اور مولانا قاری لطف الرحمن آف مردان کے ہمراہ تھوڑی دیر کے لیے مرکز جمعۃ الماجد میں حاضر ہوئے اور وہاں کی علمی سرگرمیاں دیکھ کر ایک بار پھر دلی خوشی کا حظ اٹھایا۔
الشیخ جمعۃ الماجد متحدہ عرب امارات کے بڑے تاجروں میں سے ہیں، ان کی تجارت کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے لیکن جس بات نے انہیں عرب شیوخ سے ممتاز کر دیا ہے وہ ان کا علمی ذوق ہے۔ انہوں نے اسلامی اور عرب تہذیب وثقافت کے علمی ورثہ کی حفاظت کے لیے اپنے تمام وسائل کو وقف کر رکھا ہے اور خود اپنی نگرانی میں اس مرکز کے کام کو مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں۔ مرکز جمعۃ الماجد کے مختلف شعبوں میں سے ہم صرف تھوڑے سے وقفے میں صرف لائبریری کا کچھ حصہ دیکھ سکے، لائبریری کا ایک بڑا حصہ تو روایتی ہے جس میں مختلف علوم و فنون پر لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے جسے نہ صرف حفاظت و ترتیب کے ساتھ خوبصورت انداز میں سجایا گیا ہے بلکہ ان کی فہرستیں جدید انداز میں مرتب کی گئی ہیں اور اہل علم و تحقیق کے لیے اس ذخیرہ سے استفادہ کی سہولتیں اور مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اس شعبہ میں نئی کتابیں خریدنے کے ساتھ ساتھ متعدد اہل علم کی لائبریریاں بھی خریدی گئی ہیں اور جس صاحب علم کی لائبریری کو بھی خریدا گیا ہے اسے انہیں کے نام سے الگ طور پر لائبریری کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب تک مختلف عرب ممالک سے ایک سو چودہ لائبریریاں خرید کر اس ذخیرہ میں شامل کی جا چکی ہیں اور مرکز کو جب بھی کسی لائبریری کی دستیابی کی کہیں اطلاع ملتی ہے وہ اسے کسی بھی قیمت پر خریدنے پر تیار ہوتا ہے۔ لائبریری کا دوسرا حصہ مخطوطات کا ہے جس میں نادر ونایاب قلمی کتابوں اور مخطوطات کے حصول، ان کی حفاظت اور انہیں تحقیقی ریسرچ کے لیے اصحاب علم و تحقیق کے لیے مہیا کرنے کا مکمل نظم موجود ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ تحقیق و مطالعہ کے کام میں مصروف کو ئی اسکالر دنیا کے کسی بھی حصے سے کسی کتاب کے حصول کے لیے رابطہ کرے تو اس کی راہنمائی کی جاتی ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ کتاب دنیا کے فلاں حصے میں موجود ہے اور اس تک رسائی کی کون سی صورت قابل عمل ہے۔ اور اگر اس کے باوجود وہ رسائی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو مرکز اپنے خرچ پر وہ کتاب حاصل کرتا ہے اور اس کی فوٹو کاپی، مائیکرو فلم یا سی ڈی واجبی خرچ پر متعلقہ سکالر کو مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔مرکز جمعۃ الماجد میں حاضری اگرچہ بالکل مختصر وقت کے لیے تھی لیکن اس علمی و تحقیقی ماحول کا نقشہ ذہن میں تادیر زندہ رہے گا جو دوبارہ یہاں زیادہ دیر کے لیے حاضری کے شوق کو مہمیز کرتا رہے گا۔
آج رات کو بعد از نماز عشاء شارجہ کے قریب مرکز ہاشمیہ میں’’قرآن کریم کی تعلیم اور والدین کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر قاری عبید الرحمن قریشی صاحب نے ایک مخصوص نشست سے خطاب کا پروگرام بنا رکھا ہے، اس سے فارغ ہو کر سیدھا ایئرپورٹ جانا ہو گا کیونکہ ڈیڑھ بجے ڈھاکہ کے لیے فلائیٹ ہے۔ اس لیے قارئین کے لیے اپنے اس دورہ دبئی کے تاثرات کا باقی حصہ وہاں پہنچنے کے بعد ہی قلمبند کر سکوں گا، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔