امریکہ بہادر کو مولانا فضل الرحمٰن کی اس بات پر بہت غصہ آیا ہے کہ اگر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا یا اسامہ کو اس کے ہاتھوں کوئی گزند پہنچا تو پاکستان میں امریکی باشندے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ جمعیۃ علمائے اسلام کی امریکہ مخالف ریلی کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمٰن کا یہ اعلان جب میں نے لندن کے اخبارات میں پڑھا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ بات طبع نازک پر گراں گزرے گی مگر اس کا ردعمل اس سطح پر ہوگا اس کا اندازہ نہیں تھا۔ امریکی سفارت کار جس طرح متحرک ہوئے اور برطانیہ نے جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کو ویزا دینے میں لیت و لعل سے کام لیا اس کے بعد اس مسئلہ میں امریکہ کے احساسات و جذبات کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد ہے اور اس سے امریکہ کو خطرہ ہے اس لیے طالبان اسامہ کو امریکہ کے حوالہ کردیں ورنہ اسامہ کے خلاف سخت کارروائی کی زدمیں وہ بھی آئیں گے۔ اس کے جواب میں جمعیۃ علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے رہنماؤں مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق نے جو مضبوط موقف اختیار کیا ہے وہ فی الواقع قابل ستائش ہے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے قافلہ سے اس کے تاریخی پس منظر میں اسی ردعمل اور موقف کی توقع کی جا سکتی تھی۔
راقم الحروف ان دنوں خلافت عثمانیہ کے آخری دور کی تاریخ کا مطالعہ کر رہا ہے کہ ملت اسلامیہ کے اس سیاسی مرکز کو ختم کرنے اور امت مسلمہ کی وحدت کا شیرازہ بکھیرنے میں کس کس نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید کی ذاتی ڈائری کا عربی ترجمہ اس وقت میرے سامنے ہے جو ۱۸۷۲ء سے ۱۹۰۹ء تک خلیفۃ المسلمین رہے جبکہ ترکی کے علاوہ مصر، عراق، شام، فلسطین، اردن، حجا ز مقدس، الجزائر، لیبیا ، اور تیونس سمیت بیشتر عرب علاقے خلافت عثمانیہ کا حصہ رہ چکے تھے اور اس وقت بھی ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب خطے سلطان عبد الحمید کی قلمرو میں شامل تھے۔ اس ڈائری کے اہم حصے تو کسی اور موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے البتہ اس کے مندرجات سے اس منظم منصوبہ بندی اور مسلسل تگ و دو کا ایک خاکہ ضرور سامنے آجاتا ہے جو خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے، تیل کے متوقع چشموں کا کنٹرول حاصل کرنے، خلیج میں فوجی بالادستی قائم کرنے، اور اسرائیل کے نام سے یہودیوں کو فلسطین پر مسلط کر کے ان کی ریاست قائم کرانے کے لیے مغربی قوتوں نے کی۔ اور اس سے خلیج کی کشمکش کا اصل منظر سامنے آجاتا ہے کہ مغربی ملکوں کے لیے یہ خطہ کس قدر اہم ہے اور وہ اس کے لیے اخلاق و دیانت کے تمام تر اصولوں کی قربانی دینے کے لیے بلاوجہ تیار نہیں ہوئے۔
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن کا قصہ محض ایک بہانہ ہے اور امریکہ کے نزدیک اصل مسئلہ طالبان کا ہے جنہیں وہ اسامہ کی آڑ میں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ برمنگھم کی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیۃ کے ایک ذمہ دار عہدے دار نے یہ کہہ بھی دیا کہ اسامہ بن لادن کی بات تو صرف ڈرامہ ہے اصل قصہ طالبان کا ہے۔ مگر ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ یہ موقف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جس کے سامنے تاریخ کا پس منظر نہیں ہے اور جو خلیج میں یہودیوں اور مغربی ممالک کے مفادات کی گہرائی اور گیرائی سے بے خبر ہے۔ ہمارے نزدیک اسامہ اور طالبان دونوں اصل مسئلے ہیں جو اتفاق سے اس طرح لازم و ملزوم ہوگئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا اب کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اسامہ خلیج عرب میں یہودیوں اور مغربی ممالک کے مفادات اور ان مفادات کی آڑ میں عرب ممالک پر مغربی ملکوں کے عسکری تسلط کے خلاف صدائے احتجاج کا نام ہے۔ کیونکہ جب اسامہ یہ کہتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری خلیج عرب سے اپنی فوجیں نکال لیں اور عرب ممالک کو آزادی اور خودمختاری کی فضا میں اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع دیں تو اس کی تکلیف براہ راست وائٹ ہاؤس کو ہوتی ہے۔ اور ہونی بھی چاہیے کہ مفادات اور لوٹ کھسوٹ کا جو نیٹ ورک ایک صدی کی مسلسل محنت کے ساتھ خلیج عرب میں مغربی حکومتوں نے قائم کیا ہے اس کو بکھرتے دیکھنا وائٹ ہاؤس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے اسامہ بن لادن دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار پایا ہے کہ وہ خلیج عرب میں مغربی ملکوں کے نیٹ ورک کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ ایسا خطرہ جو ہر وقت مغربی حکمرانوں کے اعصاب پر سوار رہتا ہے اور جس کے ہوتے ہوئے خلیج میں اپنے مفادات کی دوڑ کو اطمینان کے ساتھ جاری رکھنا مغربی حکمرانوں کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ اسامہ محض ایک بہانہ ہے درست سوچ نہیں ہے۔
اسی طرح طالبان بھی امریکہ اور مغربی ملکوں کے نزدیک اصل مسئلہ کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ دنیا کے کسی خطے میں خالص اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ اور ان پر بے لچک عملدرآمد امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک کے نزدیک اب قابل قبول نہیں رہا تھا کیونکہ وہ اپنے زعم میں عالمی سطح پر ایک ایسا تانا بانا بن چکے تھے کہ اگر کہیں اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ ہو بھی تو وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرتے ہوئے موجودہ عالمی نظام کے نیٹ ورک کے اندر ہو تاکہ مروجہ ورلڈ سسٹم کے لیے وہ چیلنج نہ بن سکے۔ مگر طالبان نے اس طلسم کو توڑ دیا ہے اور وہ اس عالمی نظام کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہے، اس لیے امریکہ اس مسئلہ کو بھی ثانوی حیثیت نہیں دے سکتا۔البتہ یہ بات امریکہ کے حق میں جا رہی ہے کہ اس کے دونوں بڑے دشمن اکٹھے ایک ہی نشانے کی زد میں نہیں اور وہ ایک تیر سے بیک وقت دونوں شکار کھیل سکتا ہے۔
آج سے پون صدی قبل جب خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور عرب دنیا کو کئی حصوں میں بانٹ کر اس بندر بانٹ میں یہودیوں کے لیے اسرائیل کے نام سے الگ علاقہ مخصوص کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد جاری تھا تو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اسی پاداش میں مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے باغی گورنر شریف مکہ حسین نے انہیں گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالہ کر دیا تھا اور وہ کم و بیش چار سال مالٹا کے جزیرہ میں نظربند رہے تھے۔ چنانچہ میرے جیسے نظریاتی کارکن کے لیے یہ بات بے حد اطمینان کی ہے کہ آج اسی منصوبے کے فائنل حصے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے تو شیخ الہندؒ ہی کے قافلہ سے تعلق رکھنے والے دو لیڈر اس منصوبہ کو چیلنج کرنے کے لیے میدان میں کھڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحقؒ دو یا تین واسطوں سے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد ہیں اور انہی کے فکری و علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں ان کے اعلانات کو اسامہ بن لادن یا طالبان کی حمایت نہیں کہتا بلکہ شیخ الہندؒ کی جدوجہد کا تسلسل سمجھتا ہوں۔
آج ہم اگر اسامہ یا طالبان کے حق میں بات کرتے ہیں تو ان پر ہمارا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ ہم تو اپنا بھولا ہوا سبق یاد کر رہے ہیں اور اپنے ماضی کے ساتھ رشتہ جوڑ کر اپنے حال کو تابناک اور مستقبل کو روشن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں اگر کوئی احسان ہے تو وہ ہم پر طالبان اور اسامہ بن لادن کا ہے کہ انہوں نے ہمیں ہمارا ماضی یاد دلا دیا ہے اور بھیڑوں کے گلے میں پلنے والے شیر کے بچے کو چشمے پر لے جا کر صاف پانی کے آئینے میں اس کا چہرہ دکھا دیا ہے۔ امریکہ بھی شیخ الہندؒ کے گروہ سے بے خبر نہیں ہے اور وہ اپنے پرانے ’’دوستوں‘‘ کو خوب پہچانتا ہے اس لیے مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق کے اعلانات پر اس کی بے چینی بلاوجہ نہیں ہے۔ البتہ ایک حسرت دل میں ابھی باقی ہے کہ اگر سعودی عرب کا اسامہ بن لادن اور قندھار کے طالبان یکجا ہو سکتے ہیں تو اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا فضل الرحمٰن کے یکجا ہونے میں آخر کیا رکاوٹ باقی رہ گئی ہے؟