’’پانچویں فقہی کانفرنس‘‘کے حوالے سے چند گزارشات

   
۹ جنوری ۲۰۰۵ء

۱۱ و ۱۲ دسمبر ۲۰۰۴ء کو پشاور میں منعقد ہونے والی ’’پانچویں فقہی کانفرنس‘‘ کی رپورٹ اس وقت میرے سامنے ہے۔ یہ کانفرنس المرکز الاسلامی بنوں کے زیر اہتمام اوقاف ہال پشاور میں منعقد ہوئی جس میں ’’جدید سائنسی انکشافات اور متعلقہ فقہی مسائل‘‘ کے موضوع پر ممتاز ارباب علم ودانش نے مقالات پڑھے اور ان کے علاوہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ جناب محمد اکرم درانی کے فکر انگیز خطابات ہوئے۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت تھی اور حاضری کے لیے تیار بھی تھا مگر عین وقت پر طبیعت ناساز ہوجانے کی وجہ سے اس سعادت سے محروم رہا۔ یہ سوء اتفاق کی بات ہے کہ المرکز الاسلامی بنوں کے سربراہ اور فقہی کانفرنس کے منتظم مولانا نصیب علی شاہ ایم این اے نے اب تک ہونے والی ہر فقہی کانفرنس میں مجھے شرکت کی دعوت دی مگر میں کسی کانفرنس میں بھی شریک نہ ہوسکا البتہ ہماری طرف سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ہمارے رفیق کار پروفیسر حافظ منیر احمد نے بعض کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔

مولانا نصیب علی شاہ ملک بھر کے دینی اور علمی حلقوں کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ ان سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں اور اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ آج کے علمی حلقوں میں زیر بحث ہے اس کے حوالہ سے پیش رفت میں مصروف ہیں۔ وہ یہ کہ علماء دین اور مفتیان کرام کو روایتی موضوعات اور دائرہ کارسے ہٹ کر ان مسائل کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جو سائنس، ٹیکنالوجی اوراس کے جلو میں آنے والے مغربی فلسفہ نے انسانی معاشرت کے لیے پیدا کر دیے ہیں اور جن کا کوئی واضح حل سامنے نہ آنے کی وجہ سے نئی نسل مختلف النوع شکوک و شبہات کا شکار ہو رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور مغربی فلسفہ و ثقافت کے فروغ نے مسلم معاشرہ کو بے شمار مسائل سے دوچار کر دیا ہے، بہت سے معاملات میں انسانی معاشرہ کو اس سے سہولتیں حاصل ہوئی ہیں اور زندگی کے متعدد پہلو آسانیوں سے بہرہ ور ہوئے ہیں لیکن اعتقادی اور اخلاقی طورپر بہت سی الجھنوں نے بھی جنم لیا ہے اور عقلی اعتراضات اور شکوک و شبہات کے ایک نئے جال نے ذہنوں کے گرد حصار قائم کر لیا ہے۔ عقائد اور ان کی تعبیر وتشریح کے حوالہ سے کئی نئے سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، فقہی احکام و مسائل کے کئی نئے رخ سامنے آئے ہیں اور معاملات و اخلاقیات کے روایتی ڈھانچے بھی مسلسل زلزلوں کی زد میں دکھائی دے رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل کراچی میں ہمارے بعض اکابر نے جدید فقہی مسائل کے جائزہ کے لیے ’’مجلس علمی‘‘ قائم کی تھی اور ایک تحقیقی مجلس وجود میں آئی تھی جس میں فقیہ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اور حضرت مولانا محمد طاسینؒ جیسے بزرگ ان مسائل کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور عملی زندگی میں پیش آنے والے جدید مسائل کا فقہی حل پیش کر کے امت کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ مگر اب اس مجلس کی کوئی سرگرمی سامنے نہیں آرہی البتہ بھارت میں حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی قائم کردہ فقہ اکیڈیمی اور مجلس فقہی نے بہت کام کیا ہے اور جو علمی و تحقیقی کام ہمارے ہاں پاکستان میں ہونا چاہئے تھا اللہ تعالیٰ نے وہ کام بھارت کے علماء سے لیا ہے جس کا تسلسل جاری ہے اور بھارت کے متعدد اداروں کی علمی و تحقیقی پیش رفت پورے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے علمی و فکری رہنمائی اور جدید مسائل کے حل کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔

اس پس منظر میں مولانا نصیب علی شاہ الہاشمی اور المرکز الاسلامی بنوں کی یہ کاوش دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے کہ جو کام کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے کرنے کا تھا وہ دور دراز کے ایک پسماندہ شہر بنوں میں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور مسلسل پیش رفت اور کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین یارب العالمین۔ مگر المرکز الاسلامی بنوں کے اس وقیع کام کی افادیت و اہمیت اور اثرانگیزی کے تمام تر اعترافات کے باوجود دو حوالوں سے اپنے تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں، اس خیال سے کہ اگر حالات و ظروف اجازت دیں تو مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی انہیں اپنے پروگرام کا حصہ بنا لیں یا کسی اور صاحب عزم و ہمت کے دل میں یہ بات آجائے تو وہ اس کام کا بیڑہ اٹھالیں:

  1. ایک بات یہ ہے کہ جدید مسائل کا تعلق صرف فقہی حدود اور دائرہ کارسے نہیں ہے بلکہ مغربی فلسفہ و نظام اور سائنس و ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ مسائل میں سے بیشتر کا تعلق فکر و عقیدہ کے امور سے ہے اور نئی نسل کے ذہنوں میں فکری اعتراضات اور اعتقادی شبہات نے جو دھماچوکڑی مچا رکھی ہے اس نے فکری ارتداد کی سرحدات کو نئی پود کے ذہنوں کے بہت قریب کر دیا ہے۔ کسی دوست نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے مقالہ ’’ردۃً ولا ابابکر لہا‘‘ (وہ ارتداد جس کے لیے کوئی ابوبکر موجود نہیں ہے) کامطالعہ کیا ہے تو وہ اس گزارش کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ پائے گا ورنہ ہر صاحب علم کے لیے میرا مشورہ ہوتا ہے کہ وہ آج کی فکری کشمکش کو سمجھنے کے لیے اس مقالہ کا ضرور مطالعہ کرے۔ کیونکہ مغربی فلسفہ و ثقافت نے جو اعتقادی اور فکری مسائل کھڑے کر دیے ہیں ان کے بارے میں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو شعوری طور پر مطمئن کیے بغیر ان سے اسلامی احکام و قوانین پر پوری طرح عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ہی کے حوالہ سے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ برطانیہ میں مسلمان بچوں کے لیے شام کا ایک مکتب دیکھ کر انہوں نے فرمایا کہ انہیں نماز روزے کے مسائل ضرور رٹاؤ مگر اس کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک ان کے دل ودماغ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور دین کی اہمیت نہیں ہوگی، اس لیے پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں بتاؤ اور آخرت کا تصور ان کے ذہنوں میں پختہ کرو پھر نماز روزے کے مسائل کی تعلیم دو، ورنہ خالی مسائل رٹنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تبلیغی جماعت کے دوست اسی ذہن کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو عام ذہنی سطح کے لیے مفید اور مؤثر ہے لیکن ذہن و فکر کی وہ سطح جو شعور اور استدلال اور منطق و برہان کے ذریعے بات سمجھنے کی عادی ہے اس کے لیے یہ کافی نہیں ہے اور اسے بہرحال عقل و شعور اور منطق و استدلال کے ساتھ ہی مخاطب کرنا ہوگا۔

    میں ایک عرصہ سے چیخ و پکار میں مصروف ہوں کہ انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ اور اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر مسلمانوں کے علمی و دینی مراکز کی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے اور اس حوالہ سے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا ازالہ ضروری ہے جو سطحی اور سرسری تبصرہ سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے اسی درجہ کی علمی محنت اور تحقیقی کاوش کی ضرورت ہے جس طرح کی محنت پاکستان میں فقہی مسائل کے لیے المرکز الاسلامی بنوں کر رہا ہے۔ جب تک ذہنوں سے شکوک و شبہات کے کانٹے نہیں نکلیں گے اور جب تک علمی اور منطقی استدلال کے ساتھ مغرب کے فلسفہ پر اسلام کی برتری کا عمومی سطح پر اظہار نہیں ہوگا مغربی ثقافت کی یلغار کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

  2. اس سلسلہ میں میرے ذہن میں پائی جانے والی دوسری الجھن یہ ہے کہ ہم نے کم و بیش حتمی طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ علم و تحقیق کا ہر کام ہم نے دیوبندیت ہی کے حوالے سے کرنا ہے اور مسلکی دائرہ سے باہر دیکھنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کرنی۔ میرے نزدیک یہ طریقہ کار درست نہیں ہے اور پاکستان کے معروضی حالات اور زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس حوالہ سے میرے ذہن کی سوئی تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات پر اٹکی ہوئی ہے اور اس سے آگے چلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات و حقائق اور تیزی سے بڑھتی ہوئی فکری اور تہذیبی کشمکش کو سامنے رکھتے ہوئے ملی نوعیت کے علمی و تحقیقی کام کے لیے وہی طریق کار زیادہ موزوں ہے جو اب سے نصف صدی قبل ہمارے اکابر نے اختیار کیا تھا اور الگ الگ مسلکی دائروں میں کام کے ساتھ ساتھ اس کے اجتماعی اظہار کے لیے مشترکہ کاوش کو بھی ضروری خیال کیا تھا۔

    میں مسلکی دائروں میں علمی و تحقیقی کام کی ضرورت و افادیت کا قائل ہوں اور اس میں مزید ترقی اور پیش رفت کا خواہاں ہوں مگر اس کے ساتھ ہمیں کسی ایسے غیر سیاسی اور غیر سرکاری علمی فورم کی بھی اشد ضرورت ہے جہاں مشترکہ ملی مسائل پر مختلف مکاتب فکر کے جید علماء مل بیٹھ کر بحث و مباحثہ کر سکیں اور کسی مسئلہ پر اگر وہ ۲۲ دستوری نکات کی طرح حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں تو قوم کے سامنے اس کا مشترکہ طور پر اظہار بھی کریں۔

بہرحال ان گزارشات کے ساتھ میں المرکز الاسلامی بنوں اور برادرم مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی کی اس وقیع کاوش پر مسرت و اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے انہیں مسلسل پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس محنت کی کامیابی، قبولیت اور ثمرات کے لیے بارگاہ ایزدی میں تہہ دل سے دعاگو ہوں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter