جے ٹی آر میڈیا ہاؤس کے مفتی عبد المنعم فائز کا انٹرویو

   
جامعۃ الرشید کراچی
۳ نومبر ۲۰۲۴ء

(جامعۃ الرشید کراچی کے دورہ کے موقع پر ۳ نومبر ۲۰۲۴ء کو جے ٹی آر میڈیا ہاؤس میں مولانا مفتی عبد المنعم فائز کا انٹرویو مولانا راشدی کی نظرثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)

مفتی عبد المنعم فائز: آج ہمارے ساتھ جو شخصیت تشریف فرما ہیں ان کو ہم بچپن سے سنتے ہیں، ان کو پڑھتے ہیں، ان کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، اور ان سے دین کی تعبیر و تشریح سمجھتے ہیں۔ میری مراد مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ہیں۔ ہم ان کو آج کے اس پروگرام میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

مولانا راشدی: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

سوال: حضرت! جو ہم نے آپ کو بچپن سے سنا، پڑھا، آپ کی بہت ساری تحریریں اب بھی روزانہ کی بنیاد پر ہماری نظر سے گزرتی ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا لکھنے سے ایک شغف و تعلق ہے، کتابوں کے ساتھ ممارست ہے یعنی آپ نے ما شاء اللہ مطالعہ بہت زیادہ کیا ہے، تو جب نئی جنریشن سے درسگاہ میں ہمارا واسطہ پڑتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان نسل نصاب سے خارج کتاب کو پڑھ نہیں سکتی۔ ہم طلبہ کو کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر کتابیں اٹھائیں اور پڑھیں جمعرات جمعہ کو بھی، تو ہمارے سر میں درد ہوتا ہے، تو آپ کو جو مطالعہ کی عادت ہے وہ کب سے لگی، کیسے لگی، اس کا شوق کیسے پیدا ہوا؟

جواب: شکریہ جزاک اللہ خیرا۔ میرا تو بچپن سے ہی کتابوں سے واسطہ ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز برصغیر کے بڑے علماء میں سے ہیں، ان کی تین درجن کے لگ بھگ بڑی علمی و تحقیقی کتابیں ہیں۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے، پڑھا کرتے تھے، ان کے اردگرد کتابیں پھیلی ہوئی ہوتی تھیں، ہم بچے تھے تو ہمارا ہوش سنبھالتے ہی کتاب سے تعارف ہوا اور ہم کتاب سے مانوس ہو گئے۔ پھر ایک مرحلہ آیا کہ جب ہم کتابوں کے نام وغیرہ پڑھنے کے قابل ہوئے تو والد صاحبؒ ہم سے مدد لیا کرتے تھے کہ کوئی حوالہ ضرورت ہوتا تو اس پر خود جانے کی بجائے ہم دو بڑے بہن بھائی، بڑی ہمشیرہ اور میں، ہمیں فرماتے کہ فلاں کتاب کی فلاں جلد تلاش کر کے لاؤ، مثلاً تہذیب التہذیب، مجمع الزوائد وغیرہ، ان کتابوں سے اس وقت سے متعارف ہم ہیں۔ ہم جاتے تھے، کتاب تلاش کر کے لاتے تھے، ہم بہن بھائیوں کا مقابلہ ہوتا تھا کہ کون پہلے لاتا ہے۔ کئی سال ہمارا یہ ماحول چلتا رہا۔ کتابوں کے نام، کتابوں کی جلدیں، فلاں کتاب کہاں پڑی ہو گی، یہ ہمارا کتاب سے ابتدائی تعارف تھا۔

گکھڑ میں ایک بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب ہوا کرتے تھے، احراری تھے اور بڑے تحریکی مزاج کے بزرگ تھے۔ ان کے ہاں رسالے آیا کرتے تھے مثلاً خدام الدین، ترجمانِ اسلام، اس کے علاوہ پیامِ اسلام، تبصرہ، چٹان وغیرہ، ہم انہیں چچا جی کہا کرتے تھے اور ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا تو ان سے رسالوں کا ذوق ہوا۔ حضرت والد صاحبؒ کے پاس بھی بہت رسالے آتے تھے، مثلاً دلی سے برہان، لکھنؤ سے الفرقان اور النجم آتے تھے۔ ہم پڑھا کرتے تھے۔ کتاب اور رسالے سے میرا تعلق تب سے ہے۔

سوال: اس وقت آپ کی عمر تقریباً کتنی ہوگی؟

جواب: میں نے ۱۹۶۰ء میں قرآن پاک حفظ مکمل کیا ہے، ۱۹۶۲ء میں نصرۃ العلوم میں آ گیا تھا، اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ یہ چودہ سال کی عمر سے پہلے کی باتیں ہیں۔

چودہ پندرہ سال کی عمر میں میں باقاعدہ طالب علم کے طور پر مدرسہ نصرۃ العلوم میں آیا تو میرے چچا جان حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمۃ اللہ علیہ کا ذوق بھی یہی تھا۔ وہ بڑے باذوق بزرگ تھے، ان کے پاس بھی رسالے آتے تھے، کتابیں تھیں تو میں ان کے ہاں رسالے پڑھتا تھا، کتاب دیکھتا تھا۔ ان دونوں بزرگوں نے میرے مطالعے کے ذوق کی حوصلہ افزائی کی ہے، میرے ساتھ معاونت کی ہے اور سرپرستی کی ہے۔ اس پر یہ عرض کروں گا کہ چچا جان کا ذوق یہ تھا کہ جو کتاب ان کے پاس آتی تھی، وہ خود پڑھتے تھے پھر جو سمجھتے کہ میرے ذوق کی ہے تو مجھے دیتے اور کہتے کہ یہ پڑھو، میں مطالعہ کرتا تھا، اس کے بعد وہ کتاب لائبریری میں جاتی تھی۔ حضرت والد صاحبؒ کا بھی ذوق بھی یہ تھا کہ کوئی کتاب سمجھتے کہ مجھے پڑھنی چاہیے تو مجھے دیتے اور کہتے کہ یہ پڑھو، میں تم سے اس کے بارے میں پوچھوں گا، چنانچہ میں پڑھتا تھا۔ پھر اللہ کی قدرت کہ گوجرانوالہ میں ہمارے مدرسہ نصرۃ العلوم سے دس منٹ کے پیدل فاصلے پر اہل حدیث دوستوں کی ”اسلامی دار المطالعہ“ کے نام سے ایک لائبریری تھی، عصر کے بعد ہم وہاں چلے جاتے تھے اور مغرب تک رسالے، کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔

پھر تھوڑا سا بات آگے بڑھی تو چونکہ مطالعہ کا ذوق تھا اور ادبی ذوق بھی تھا، میں نے ادب کی کتابیں بھی بہت پڑھی ہیں، ناول بھی پڑھے ہیں جاسوسی بھی اور دوسرے بھی۔ نسیم حجازی کی بہت کتابیں میں نے بہت پڑھی ہیں، میں دعویٰ نہیں کرتا لیکن میرا اندازہ ہے کہ شاید اتنی اور کسی نے نہ پڑھی ہوں۔ رات کو بھی، دن کو بھی پڑھتا رہتا تھا۔ گوجرانوالہ میں ”مجلس فکر و نظر“ کے نام سے شہر کے ادیب و شعراء کی ہفتہ وار ایک مجلس ہوتی تھی۔ ریل بازار میں خیام ہوٹل میں ہر اتوار شام کو دو گھنٹے کی ادبی محفل ہوتی تھی۔ اس میں ترتیب یہ ہوتی تھی کہ ایک صاحب کسی موضوع پر مضمون پڑھتے تھے، اس پر تبصرہ ہوتا تھا، نقد ہوتا تھا۔ کوئی شاعر ایک غزل یا نظم پڑھتے تھے پھر اس پر نقد ہوتا تھا۔ میں اس مجلس کا حاضر باش ممبر رہا ہوں۔ ہر اتوار کو جاتا اور ایک سامع کے طور پر شریک ہوتا۔ پھر وہ ذوق بڑھتا گیا، الحمد للہ مطالعے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا ذوق بھی بیدار ہوتا گیا۔

میں نے خاصا مطالعہ کیا ہے، اب بھی کتابیں میرے پاس آتی ہیں، لوگ بھیجتے ہیں، لیکن اب میری نظر کمزور ہو چکی ہے تو بمشکل اپنی ضرورت کی چیزیں پڑھتا ہوں جو مجبوراً پڑھنی ہوتی ہیں، لیکن اب بھی سفر میں کتاب ساتھ لایا ہوں کہ یہ کتاب میں نے سفر کے دوران پڑھنی ہے، حالانکہ مجھے پورا صحیح نظر نہیں آتا، لیکن ذوق کی بات ہے۔

سوال: ماشاء اللہ، اچھا یعنی آپ کا مطالعہ چودہ سال کی عمر سے پہلے شروع ہو گیا تھا تو آپ نے پہلی تحریر کب لکھی ہے اور کیوں لکھی؟

جواب: میں نے ابتدا رپورٹنگ سے کی تھی۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۱۹۶۳ء، ۱۹۶۴ء میں طلبہ کی ایک یونین بنی تھی جس کا میں سیکرٹری تھا۔ یہ میری سیکرٹری والی بیماری بھی بہت پرانی ہے۔ میں سیکرٹری تھا تو خبر لکھتا، رپورٹ لکھتا، کسی مجلس کی رپورٹ لکھ دی، کوئی فیچر لکھ دیا اور ہمارے قریب سے ہی نوائے گوجرانوالہ ایک پرچہ نکلتا تھا تو میں وہاں چلاجاتا تھا تو ابتدا میں نے اس سے کی، یعنی میرا آغاز ۱۹۶۳ء، ۱۹۶۴ء سے ہے۔ تب سے مسلسل لکھ رہا ہوں الحمد للہ۔

سوال: یعنی آپ نے خبریں لکھنا شروع کیں، پھر مضمون کی طرف آئے۔ اچھا یہ بتائیے گا کہ ماشاء اللہ اب آپ کا اتنا وسیع مطالعہ ہے اور اتنی کتابیں آپ کی نظر سے گزریں تو آپ کی پسندیدہ کتابیں اگر چار پانچ بڑی کتابوں کا انتخاب کریں کہ جنہوں نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا اور آپ سمجھتے ہیں کہ میری فکر اور میری سوچ پر ان کی گہری چھاپ ہے تو وہ کون سی کتابیں ہیں؟

جواب: سب سے پہلے چودھری افضل حق صاحب مرحوم کی زندگی، پھر تاریخ احرار، پھر احرار کے سیکرٹری جنرل مولانا مظہر علی اظہر کی کتاب ”دنیا کی بساطِ سیاست“ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران دنیا کی بین الاقوامی سیاست پر بڑی وقیع کتاب ہے۔ وہاں سے میرا کتابوں کا آغاز ہوا ہے، پھر مختلف کتابیں ہیں، میرا زیادہ ذوق ادب اور تاریخ کا ہے، جس میں بعد میں حدیث کا اور تفسیر کا ذوق بھی شامل ہوگیا، لیکن میرا بنیادی ذوق تاریخ کا اور ادب کا رہا ہے۔ دیوان اور ناول میرے سرہانے کے نیچے پڑے رہتے تھے دیوانِ حافظ، دیوانِ غالب، اقبالؒ کا کلام اور دوسری ادبی کتابیں ہر وقت میرے پاس پڑی رہتی تھیں اور پڑھتا رہتا تھا۔

سوال: یہ بتائیے گا کہ جو آج ہمارا طالب علم ہے اس کو آپ کیا سجیسٹ کرتے ہیں کہ وہ چند کون سی کتابیں ہیں جو اسے پڑھ لینی چاہئیں یا مطالعہ میں ابتدائی طالب علمی کے دور میں ہی اس کی نظر سے گزرنا ضروری ہیں۔

جواب: اصل میں بات یہ ہے کہ علم تو بہت متنوع ہو گیا ہے، لیکن بنیادی علم جو ہے میں اپنے طلبہ کے لیے تین باتیں سمجھتا ہوں: (۱) ایک قرآن پاک کا بطور قرآن پاک مطالعہ یعنی قرآن پاک کیا کہتا ہے۔ بسا اوقات ہم قرآن پاک سے خود کچھ کہلوانا شروع کر دیتے ہیں، وہ نہیں، بلکہ قرآن پاک خود کیا کہتا ہے، قرآن پاک بطور قرآن پاک مطالعہ کریں۔ (۲) دوسرے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہؐ و حالاتِ زندگی اور صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی۔ (۴) پھر حدیث و سنت۔ اگر طالب علم کا اس کے ساتھ ذوق بن گیا تو باقی معاملات خودبخود سیٹ ہوتے چلے جائیں گے۔

سوال: حضرت! آپ کا مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق بھی رہا، ان کی فکر سے آپ متاثر ہوئے اور آپ ان کی کتابوں کو بھی سراہتے ہیں تو حضرتؒ کی جو فکر ہے اگر اس کو سمرائز کریں اور اس کا کوئی خلاصہ کریں تو آپ کی نظر میں اس کی سمری کیا بنتی ہے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ مغرب، مغرب کی تہذیب، اور مغرب کا فلسفہ، اس پر ہمارے ہاں جن دو تین بڑے آدمیوں نے سنجیدہ نقد کیا ہے اپنے اپنے انداز میں، ان میں ایک اقبالؒ ہیں، ایک مولانا علی میاںؒ ہیں اور ایک مولانا مودودیؒ ہیں، جنہوں نے مغرب کے فلسفے پر نقد کیا ہے۔ کسی بات سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن مولانا علی میاںؒ کو میں نے اس زاویے سے پڑھا ہے کہ ان سے مغرب کی تہذیب کو سمجھا ہے، اس کے پس منظر، اس کے نتائج اور پھر اس پر دھیمے دھیمے انداز میں انہوں نے علماء کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے کہ مغرب کیا کہہ رہا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تو اس حوالے سے مغرب کو سمجھنے میں مجھے سب سے زیادہ مدد اقبالؒ سے اور مولانا ندویؒ سے ملی ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ میرے شیخ ہیں، سلسلہ قادریہ میں میری ان سے بیعت ہے اور آپؒ میرے حدیث کے استاذ بھی ہیں۔

سوال: حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی کتابوں میں سے ایک دو بڑی کتابیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تو لازماً‌ پڑھ لینی چاہئیں، کونسی ہیں؟ یعنی ان کے ماسٹر پیس آپ کیا سمجھتے ہیں کون سی کتابیں ہیں؟

جواب: مغربی فلسفے کو سمجھنے کے لیے ان کی کتاب ”مغرب سے چند صاف صاف باتیں“ اور اسلام کی تاریخ سمجھنے کے لیے ”تاریخِ دعوت و عزیمت“۔ اگر ہم اپنی تحریکات سے واقف رہنا چاہتے ہیں کہ کس دور میں کیا خرابیاں ہوئی ہیں اور کن علماء نے سامنا کیا ہے تو اس کے لیے ”تاریخِ دعوت و عزیمت“ بہترین ہے، یہ آج کے عالمِ دین کو ایک دفعہ تو ضرور نظر سے گزارنی چاہیے، باقی اور بھی ان کی کتابیں اچھی ہیں الحمد للہ۔

سوال: مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی کتابوں میں ایک جو فکر ہمیں ملتی ہے، حضرتؒ نے بھی ”کاروانِ زندگی“ میں اس کا ذکر کیا کہ یہ میری فکر کا نچوڑ ہے کہ عالمِ اسلام میں جو دعوتی اور اصلاحی تحریکیں ہیں اور ان کا جو منہج رہا ہے، اس کے احیاء کی ان کی فکر تھی کہ اس کو زندہ کرنا چاہیے اور اس طریقے کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے، تو اس حوالے سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

جواب: یہ امتِ مسلمہ کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایک یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو بحیثیت امتِ مسلمہ ایڈریس کیا جائے۔ میں اپنے ساٹھ سالہ تجربے کی بنیاد پر کہوں گا کہ ہم مصری کہہ کر، تیونس کا کہہ کر، سعودی کہہ کر ایڈریس کرتے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے، میں اس سے انکار نہیں کر رہا، ”لتعارفوا“ کے درجے میں سارے ٹھیک ہیں، لیکن امت کو امت سمجھ کر ایڈریس کرنا چاہیے۔ یہ آج کل نہیں ہو رہا اور مولانا علی میاںؒ کی بنیادی فکر یہی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ مغرب کے فلسفے اور تحریک کا ایک ردعمل ہے بالکل انکار کر دینا، اور ایک ہے بالکل قبول کر لینا، لیکن نہیں! بلکہ ”خذ ما صفا و دع ما کدر“ اپنے اسلامی اصولوں کو قائم رکھتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوگی۔ میں بھی یہی سمجھا ہوں کہ بہت سی باتیں ہمیں قبول کرنا ہوں گی لیکن اگر ہمارے اصولوں کے خلاف نہیں ہیں تو۔ بالکل مسترد کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے اور بالکل قبول کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے، ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ مولانا علی میاںؒ ادبی علوم پر زور دیتے تھے۔ یہ ان کا بالکل صحیح تجزیہ ہے کہ مغرب نے ہمارے اندر فکری دراڑ پیدا کرنے کے لیے سوشل علوم استعمال کیے ہیں۔ زبان استعمال کی ہے، فصاحت و سلاست استعمال کی ہے۔ چنانچہ آج آپ جن جن کو بھی فتنہ کہتے ہیں ان کے ہاں فصاحت، سلاست، سادگی اور سوشل بات کو سوشل لہجے میں کہنا ان کا سب سے بڑا کمال ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ نہیں ہے، ہم اپنی اصطلاحات میں بات کرتے ہیں، اپنی سطح پر بات کرتے ہیں۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم جو علماء کا طبقہ کہلاتے ہیں، ہماری نئی نسل کے ساتھ فریکونسی سیٹ نہیں ہو رہی۔ ہمیں فریکونسی سیٹ کرنا پڑے گی، ان کے لیول پر آ کر بات کرنا ہوگی، ان کی فریکونسی میں بات کرنا ہوگی، ورنہ بہت سی باتیں ہم کہتے ہیں جو ان کی سمجھ میں بات نہیں آتیں لیکن وہ ادباً خاموش ہو جاتے ہیں بولتے کچھ نہیں، اور کوئی اور ان کو شکار کر لیتا ہے۔

سوال: حضرت! جیسے ماشاء اللہ آپ کا ایک جو کیریئر رہا اور ہم نے جو دیکھا کہ آپ کا ہر دور میں اعلیٰ مذہبی قیادت کے ساتھ تعلق اور ربط رہا تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو ہمارا مدارس کا نظام تعلیم یا نصاب تعلیم جو ہم پڑھاتے ہیں اس میں یہ سوشل سائنسز جن کا آپ نے ذکر کیا کہ وہ مغرب کے اس لہجے میں بات کرتا ہے، وہ لہجہ ہمیں آنا چاہیے، وہ ادبیت اور وہ ڈائیلاگ کا طریقہ ہمیں آنا چاہیے۔ تو اس موضوع کو ہمارے نصاب میں شامل کرنے کی کوئی کوشش پہلے ہوئی ہے یا اب کیا کی جا سکتی ہے؟

جواب: اس میں ایک ہے کہ فریکونسی سیٹ کرنے کا اسلوب کیا ہونا چاہیے، لیکن اس سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم مغرب کو سمجھنے کی ضرورت تو محسوس کریں۔ مغرب شناسی کی اہمیت تو سمجھیں۔ ایک زمانے میں آج سے تیس پینتیس سال پہلے میرا برطانیہ بہت آنا جانا رہا ہے، ہم نے ”ورلڈ اسلامک فورم“ کے نام سے ایک فورم بنایا تھا۔ میں نے ایک مجلس میں کہا کہ مغرب میں استشراق ہے۔ استشراق کا مطلب ہے مشرق کو سمجھنا۔ انہوں نے ہمارے علوم سیکھے ہیں، ہمارے علوم تک رسائی حاصل کر کے ہماری زبان ہم سے بات کی ہے اور شکوک پیدا کیے ہیں۔ تو کیا ہم مغرب کو واچ نہیں کر سکتے؟ میرا مستقل موقف ہے کہ ہم دفاع پر کیوں کھڑے ہیں کہ مغرب ہماری خرابیاں بیان کرتا ہے اور ہم دفاع شروع کر دیتے ہیں، کیا مغرب کی خرابیاں نہیں ہیں؟ ہم مغرب کی خرابیوں کو بیان کیوں نہیں کرتے؟ اس پر ہم نے ایک چھوٹا سا گروپ بنایا تھا ”ویسٹ واچ“ کے نام سے مگر کوئی عملی کام نہیں ہو سکا تھا۔

سوال: حضرت! مغربی فلسفہ کو سمجھنے کے لیے ایک تو آپ نے حضرت مولانا ابو الحسن ندویؒ کی کتاب کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ اگر ہم مغرب کو سمجھنا چاہیں تو کوئی بنیادی کتاب یا کہاں سے ہم آغاز کریں؟

جواب: مغرب کو سمجھنے کے لیے مطالعہ تو آپ کو مولانا علی میاںؒ ہی کرائیں گے، کیونکہ اقبالؒ کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، اور مولانا مودودیؒ کو شاید سارے نہ پڑھیں۔ لیکن میرا ایک اور زاویہ ہے کہ مغرب نے جو کام کیا ہے اس کے معاشرتی نتائج کیا ہوئے ہیں، اب تو نتائج پر بات کریں۔ میں مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں، مغرب خود ڈسکس کر رہا ہے کہ اس کا خاندانی نظام بکھر گیا ہے۔ اس پر مغرب کا گوربا چوف چیخ رہا ہے، ہیلری کلنٹن چیخ رہی ہے، جان میجر چیخ رہا ہے، سب کہہ رہے ہیں کہ مغرب کا خاندانی نظام بکھر گیا اور وہ بکھرنے کے اسباب بھی بیان کرتے ہیں۔ ہم وہ اسباب بیان کیوں نہیں کرتے؟ مغرب کا خاندانی نظام بکھرنے کے جو اسباب گوربا چوف نے لکھے ہیں، جو ہیلری کلنٹن بیان کرتی ہے، جو سابق برطانوی وزیراعظم جان میجر بیان کرتے ہیں، ہم ان کو پڑھیں۔ وہ جو اپنے نظام سے خود تنگ پڑ گئے ہیں تو ان کی باتوں کو ہم کیوں نہیں نقل کرتے کہ مغرب کے خاندانی نظام کے بکھرنے کے اسباب کیا ہیں اور ان کو دیکھ کر ہم اپنے خاندانی نظام کو بچانے کی کوشش کریں۔ یہ بحث و مباحثہ ضروری ہے۔

سوال: حضرت! آپ مدارس کے نظام اور نصابی کمیٹی کا حصہ رہے ہیں، آپ نے پینسٹھ سال پہلے کے مدارس اور طلبہ دیکھے ہیں، اب کے مدارس اور طلبہ بھی دیکھ رہے ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو ہمارا سفر ہے وہ درست سمت ہے؟ جو ہمارا طالب علم ہے وہ فوکسڈ ہے؟ یا پہلے اور اب کے طالب علم میں آپ کو کوئی فرق نظر آتا ہے؟

جواب: بہت فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ پہلے ہماری توجہ علم کی طرف ہوتی تھی، اب ہماری توجہ معلومات کی طرف ہے۔ ہمیں امتحان پاس کرنے کے لیے چار صفحے یاد ہونے چاہئیں، کتاب کیا کہتی ہے اس کا کوئی پتہ نہیں۔ ہم نے یہ طریقہ سیکھ لیا ہے کہ ہم نے بس امتحان میں اچھے نمبر لینے ہیں، کتاب، موضوع اور فن کے ساتھ مناسبت کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔ میں اس کو کہا کرتا ہوں کہ علم سمٹتا جا رہا ہے اور معلومات بڑھتی جا رہی ہیں۔ علم معلومات کا نام نہیں ہے، معلومات کے صحیح استعمال کا نام علم ہے جو کہ ہم کھوتے جا رہے ہیں اور ہماری استعداد کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔

سوال: حضرت! ظاہر ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ ایک سسٹم کا حصہ ہیں، اس سسٹم میں کیا وجہ ہے جس کو آپ بنیاد سمجھتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کی اپنے علم کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے؟

جواب: اس میں ہماری کوتاہی بھی ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم ذہن سازی نہیں کرتے۔ دوسرا ان کے مستقبل کی ہم منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ ایک طالب علم ہے، اس نے آٹھ سال پڑھا ہے تو مدرسے کو کوئی فکر نہیں کہ یہ اس کے بعد کیا کرے گا۔ جب وہ فارغ ہوتا ہے تو بالکل اندھیرے میں ہوتا ہے کہ میں نے کرنا کیا ہے؟ یہ رہنمائی اگر مدرسے کی طرف سے مل جائے اور رہنمائی کے ساتھ سپورٹ بھی کہ اسے اِس فن میں زیادہ لگاؤ ہے، یہ کر سکتا ہے۔ یہ ذمہ داری اگر مدرسہ قبول کر لے کہ اپنے طلباء کو تیار کرنا، صرف علم میں نہیں، بلکہ کام میں بھی۔ ان کی صلاحیتوں کو چیک کر کے اس کے مطابق اس کے رہنمائی کرنا۔ یہ ہم کریں گے تو میرا خیال ہے کہ خاصا فرق پڑ جائے گا۔ وہ بیچارا فارغ ہوتا ہے تو پریشان کھڑا ہوتا ہے کہ کدھر جائے، کیا کرے۔ میں اس پر ایک مثال دیا کرتا ہوں۔

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی اچھی اصحابِ کہف کی تمثیل دی ہے۔ اصحابِ کہف تین سو سال غار میں سوئے رہے، ایمان تو بچ گیا لیکن باہر نکلے تو دنیا بدلی ہوئی تھی۔ ہمارا بھی یہی حال ہے کہ جب ہمارے ایمان کو خطرہ ہوا، علم کو خطرہ ہوا، علوم خطرے میں پڑ گئے تو ہمارے اکابر نے ہمیں ایمان بچانے کے لیے مدارس کے غار میں دھکیل دیا، جس سے الحمد للہ ہمارا ایمان بچ گیا، صرف ہمارا نہیں بلکہ امت کا ایمان بچ گیا۔ اہلِ مدارس جو آنکھیں، کان بند کر کے ڈیڑھ سو سال لگے رہے ہیں تو انہوں نے امت کا ایمان بچایا ہے۔ ایمان تو بچ گیا ہے لیکن دنیا بدل چکی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اگلا جملہ میں کہا کرتا ہوں کہ اصحابِ کہف تو واپس جا کر سو گئے تھے، ہمارے لیے سونے کی جگہ بھی کوئی نہیں ہے، ہم تو یہیں کھپیں گے۔

سوال: حضرت! اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نوجوان نسل کا دین سے اور دینی اداروں سے تعلق سوشل میڈیا کے آنے کے بعد سے بہت کمزور ہو گیا ہے، بلکہ یہاں تک کہ اب الحاد کی لہر ہے جو بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے، اگرچہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی نسل دین سے بے خبر ہے۔ کالج تک پہنچنے والے نوجوان لڑکے یا لڑکی کی بنیادی تعلیم نہیں ہے، دین کی معلومات نہیں ہیں۔ پہلے اگر وہ دین سے بے خبر ہوتا تھا تو کوئی بات پوچھنے ہمارے پاس آتا تھا، لیکن اب وہ خلا پر کرنے کے لیے اس کے پاس متبادل ذریعہ موجود ہے۔ مثلاً ایک برتن خالی ہے، آپ اس میں دودھ نہیں ڈالیں گے اور کوئی شراب ڈال دے، تو برتن کا قصور تو نہیں ہے۔ آپ اس میں صاف پانی نہیں ڈالیں گے اور کوئی گندا پانی ڈال جائے گا تو برتن کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ ہم نے جو خلا چھوڑا ہوا ہے اور اس کی فکر نہیں کر رہے تو دوسرے آ کر اسے شکار کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس خلا کو خود پر کرنا ہوگا، دوسروں کے حوالے نہیں کرنا ہوگا۔

سوال: حضرت! جو حالیہ آئینی ترمیم ہوئی ہے، اس کے حوالے سے آپ کیا سمجھتے ہیں، خصوصاً جو سود کے حوالے سے فیصلہ ہوا ہے، اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت کے حوالے سے تو ان کے امپیکٹ یا اثرات کیا ہوں گے؟

جواب: اس کے جو سیاسی پہلو ہیں وہ تو سیاست کے میدان میں شاید ستائیسویں ترمیم میں کور کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، لیکن میں باقی تفصیلات کو انداز کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ہمیں دینی تحریک کے حوالے سے چار فائدے بہرحال حاصل ہوئے ہیں۔

ایک یہ ہے کہ سود کے خاتمے کی بات دستور میں شروع سے چلی آ رہی ہے، اب تاریخ متعین کر دی گئی ہے کہ یکم جنوری ۲۰۲۸ء سے پہلے سود کو ختم کرنا ہے۔ یہ دستوری پابندی ہے اور ہم جو اس پر کام کرنے والے ہیں ہمارے لیے آسانی ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہمارا ایک فورم ”تحریک انسداد سود پاکستان“ کے نام سے ہے، جس کا کنوینر میں خود ہوں۔ ہم نے سرگرمیاں شروع کر دی ہیں کہ ہم اس تین سال کے عرصہ کو استعمال کریں اور تاریخ سے پہلے اپنا قرضہ وصول کریں۔

حالیہ ترامیم میں دوسرا فیصلہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ہوا ہے۔ مجھے آج ہی اس کی تفصیل ملی ہے کہ مدارس کی الگ رجسٹریشن یا الگ اکاؤنٹ سسٹم اس نئی ترمیم سے واپس ہو گیا ہے اور سابقہ پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ یہ بات اچھی ہوئی ہے، اگرچہ مشکل ہے کہ عالمی قوتوں کو ہضم ہو، لیکن بہرحال مدارس کو اکاؤنٹس میں اور رجسٹریشن میں ملک کے دیگر اداروں سے الگ امتیازی حیثیت دینا مدارس کے ساتھ بہرحال زیادتی تھی۔ جس طرح ملک کے دیگر تعلیمی ادارے، سکولز ہیں اسی طرح یہ بھی ہیں، ان کو الگ کر کے الگ طور پر چیک کرنا مدارس کے ساتھ زیادتی تھی جس کو ختم کیا گیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے یہ بات تھی کہ اس کی سفارشات سالہا سال سے پڑی ہوئی ہیں، حالیہ ترمیم میں اس پر پابندی لگ گئی ہے کہ ایک سال کے اندر اندر وہ متعلقہ اسمبلی میں پیش ہوں گی اور اس پر قانون سازی ہوگی۔

وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں حالیہ ترامیم میں فیصلہ ایک اچھی بات ہے، ہمارا اپنا مطالبہ یہ تھا۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت نے بہت سے اچھے اچھے فیصلے کیے ہوئے ہیں لیکن وہ فریزر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کر دی اور اپیل کے ساتھ ہی سٹے ہو گیا تو اس قانون کی وجہ سے ہمارے بہت سے عمدہ فیصلے فریزر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب یہ طے ہو گیا کہ صرف اپیل سے سٹے نہیں ہوگا، بلکہ سٹے کے لیے الگ درخواست دینا ہوگی یا ریزن بتانا ہوگا، اور اس کے ساتھ یہ پابندی بھی لگی کہ اگر ایک سال تک فیصلہ نہ ہوا تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ نافذ ہوگا۔

حالیہ ترامیم کے یہ سب اچھے فیصلے ہیں، لیکن ہمارے ہاں اصول یہ ہے کہ فیصلہ تو ہو جاتا ہے، لیکن ’’کیش‘‘ ہمیں خود کروانا پڑتا ہے۔ جس کے لیے ان شاء اللہ ہم کوشش کرتے رہیں گے۔

سوال: حضرت! جیسے آپ نے ایک بات کہی کہ انسدادِ سود کے حوالے سے آپ کی سرگرمیاں جاری ہیں تو سود کے خاتمے کے لیے کتنی جہتوں میں کام کرنا چاہیے یا کر رہے ہیں؟ کچھ اس پر فرمائیں۔

جواب: صرف اس میں رکاوٹیں دور کرنے والی بات ہے۔ سود کے بارے میں فیصلے سب ہو چکے ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں، سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے میں بھی کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے، نہ سود کی تعریف میں، نہ صورتوں میں اور نہ متبادل سسٹم میں۔ پوری بات واضح ہے۔ اس لیے اب ان رکاوٹوں، حیل و حجت اور قیل و قال کو ختم کرنے کے لیے پریشر منظم کرنا ہوگا۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ جس مسئلے پر ہم تمام مکاتب فکر اکٹھے ہوئے ہیں اور پبلک ہمارے ساتھ ہے تو اس میں ہم نے کوئی کامیابی حاصل کی ہے، اس لیے ہمیں اپنا ماحول قائم رکھنا ہوگا اور اس ماحول کے ساتھ ہمیں اپنے فیصلوں پر عمل کروانا ہو گا۔

سوال: آخری سوال آپ سے یہ ہے کہ تبلیغی جماعت سے آپ کا تعلق ہے اور آپ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت بھی لگاتے ہیں تو یہ کب سے ہوا اور اس کے کیا فوائد دیکھتے ہیں؟

جواب: میں تو شروع سے تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوں۔ میں نے پہلا سہ روزہ ۱۹۶۲ء کے لگ بھگ لگایا تھا۔ ہمارے گکھڑ کے ساتھ ایک گاؤں ہے کوٹ نورا وہاں ہم گئے تھے۔ میرا معمول چلا آ رہا ہے کہ میں سال میں ایک سہ روزہ لازماً لگاتا ہوں۔ اس سے ایک تو تعلق تازہ ہو جاتا ہے، دوسرا لوگوں سے بہت کچھ ڈیلنگ ہوتی ہے، اور تیسری بات یہ ہے کہ گراس لیول پر عام آدمی کو دین کی طرف متوجہ کرنے کی یہ سب سے منظم تحریک ہے کہ جس شخص کا مسجد سے تعلق نہیں ہے اسے گھیر گھار کر مسجد میں لے آتے ہیں، جس کا مولوی صاحب سے تعلق نہیں ہے وہ مولوی صاحب کو کچھ بھی سمجھتا ہو تو تبلیغی جماعت کے احباب اسے گھیر گھار کر اسی امام کے پیچھے لا کر ”پیچھے امام کے“ کہلوا دیتے ہیں۔ یہ عوامی سطح پر بہت بنیادی کام ہے، ہمیں ان کو سپورٹ کرنا چاہیے، ان کی سرپرستی کرنی چاہیے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

مفتی عبد المنعم فائز: حضرت! بہت شکریہ کہ آپ نے وقت نکالا۔ ناظرین! آپ نے ملاحظہ کیا، آپ اس حوالے سے کیا دیکھتے ہیں اور آپ کے تاثرات کیا ہیں؟ کمنٹس میں ضرور ذکر کیجئے گا۔ ان شاء اللہ نیکسٹ ایپیسوڈ میں آپ سے ملاقات ہوگی، تب تک کے لیے اجازت دیجئے۔ اللہ حافظ۔

2016ء سے
Flag Counter