دینی جدوجہد کا تسلسل اور اہلِ دین کی استقامت

   
اسلامک رائٹرز موومنٹ
الغزالی میڈیا
۱۳ فروری ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اسلامک رائٹرز موومنٹ کا یہ اجلاس، میرے لیے اس میں شرکت سعادت کی بات ہے، دوستوں سے ملاقات ہو رہی ہے اور حالات سے آگاہی ہو رہی ہے۔ جب یہ فورم وجود میں آیا تھا، مجھ سے بات ہوئی تھی تو میں یہ سمجھا تھا کہ جیسے یہ فورم بنا کرتے ہیں، بہت بنے ہیں، بہت چلے ہیں، تاریخ کی نذر ہو گئے ہیں، یہ بھی ایک فورم ہے اچھا، جذبے کے ساتھ بن رہا ہے۔ لیکن مجھے یہ خوشی پہلی اس بات کی ہے کہ تسلسل ہے۔ یہ تسلسل اور استقامت، یہ اصلِ دین ہے۔ دوسری بات کہ کام کرنے والے کام کر رہے ہیں۔ اور اگرچہ مولانا عبد القدوس محمدی نے جو کچھ فرمایا ہے اُن تقاضوں پر بھی ضرورت ہے بات کرنے کی اور آگے بڑھانے کی، لیکن جتنا ہو رہا ہے کام، میں سمجھتا ہوں کہ صحیح رخ پہ ہو رہا ہے، صحیح دائرے میں ہو رہا ہے، اس میں توسیع کی ضرورت ہے، جو باتیں مولانا محمدی نے فرمائیں، میں بھی وہی عرض کرتا ہوں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اس وقت ہمیں عالمِ اسلام کو سامنے رکھ کر اور نسلِ انسانی کو سامنے رکھ کر اپنی ترجیحات کو ذرا واضح کرنا چاہیے۔

میرے نزدیک اس وقت دنیا میں پوری نسلِ انسانی کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمارے جیسے لوگوں کے لیے، جو علمی کام، فکری کام، تحریری کام، اور یہ بریفنگ لابنگ کا کام کر رہے ہیں، ان کے لیے بنیادی تین دائرے ہیں:

  1. پہلا دائرہ تو ہمارا یہ ہے، امت دین کی طرف واپس آئے۔ ہمارا سب سے بڑا، سب سے مشکل اور سب سے کٹھن محاذ یہ ہے۔ امت دین کے ماحول پر نہیں ہے۔ امت کو دین کے ماحول پہ واپس لانا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
  2. دوسرا دائرہ ہمارا نسلِ انسانی کو اسلام سے متعارف کرانا ہے۔ ظاہر بات ہے ساڑھے سات آٹھ ارب انسان ہیں اور ان ساروں میں سے ہم ڈیڑھ پونے دو ارب ہیں۔ باقی ساروں تک دین کی بات پہنچانا، سمجھانا، وہ ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اور دین کا آغاز تو ’’یا ایھا الناس‘‘ سے ہو گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بات یہ کی تھی، پہلا خطاب ’’ایھا الناس‘‘ ہی کیا تھا۔ ہمیں کوہِ صفا پر واپس جا کر نسلِ انسانی کو خطاب کر کے اس کے تقاضے پورے کرنے ہیں، اس کے لیے جو بھی تیاری ہو سکے، کرنے کی ضرورت ہے۔
  3. اور ہمارا تیسرا بڑا محاذ دفاعِ دین کا ہے۔ اس وقت اسلام، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی، قرآن پاک، اسلامی احکام، معاشرتی ہمارے قوانین، جس طرح شکوک و شبہات اور اعتراضات کی زد میں ہیں اور خود ہماری نئی نسل کو ان شکوک و شبہات کے جنگل میں دھکیلا جا رہا ہے، تو یہ بھی ہمارا ایک بڑا محاذ ہے۔ ہمیں اس میں تقسیمِ کار کے ساتھ بیٹھ کر، یہ کام ان لوگوں کو کرنا چاہیے، یہ ان لوگوں کو کرنا چاہیے، یہ کنٹرول اور تقسیمِ کار کا نظام ہو۔ ہمیں ساری نسلِ انسانی کو سامنے رکھ کر اپنے کام کو منظم کرنا چاہیے۔

اور اس کے ساتھ پیغامِ قلم سیمینار کے حوالے سے ایک بات میں شامل کرنا چاہوں گا کہ پیغامِ قلم تو پہلے دن سے واضح ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس کو واضح فرمایا ہے: ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ن والقلم و ما یسطرون۔ مآ انت بنعمت ربک بمجنون۔ وان لک لاجرا غیر ممنون۔ وانک لعلیٰ خلق عظیم۔ فستبصر ویبصرون۔ بایکم المفتون‘‘ (القلم ۱ تا ۶)

چار پانچ باتیں اللہ پاک نے فرمائی ہیں:

  • جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون کہتے تھے۔ اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ مجنوں نہیں ہیں۔ ’’والقلم و ما یسطرون‘‘۔ قلم اور قلم سے جو لکھتے ہیں، یعنی تاریخ گواہ ہے کہ آپ مجنوں نہیں ہیں۔
  • دوسری بات یہ کہی جاتی تھی کہ بے مقصد کام کر رہے ہیں۔ فرمایا، نہیں۔ ’’ان لک لاجرا غیر ممنون‘‘ اتنا اجر آپ کو اس کا ملے گا اتنا نتیجہ ملے گا جو منقطع نہیں ہو گا۔
  • تیسری بات حضورؐ کے زمانے میں یہ کہی جاتی تھی کہ انہوں نے گھروں میں لڑائیاں ڈال دی ہیں، یہ بڑی غیر اخلاقی بات ہے، باپ کو بیٹے سے لڑا دیا، بیٹے کو باپ سے لڑا دیا ہے۔ اللہ پاک فرما رہے ہیں ’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘۔ یہ بات کہی جاتی تھی کہ اس جدوجہد کا نتیجہ کیا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا ’’فستبصر ویبصرون‘‘ زمانہ بتائے گا کہ مجنون کون ہے۔

آج بھی صورتحال یہی ہے۔ آج بھی اسلام کے حوالے سے، دین کے حوالے سے وہی باتیں کہی جا رہی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی جاتی تھیں۔ اور اللہ پاک نے قرآن کریم میں واضح کیا تھا کہ ’’مآ انت بنعمت ربک بمجنون، وان لک لاجرا غیر ممنون، وانک لعلیٰ خلق عظیم، فستبصر ویبصرون، بایکم المفتون‘‘۔ آج بھی ہمارا بنیادی پیغام یہی ہے، اس کی ہم جتنی بھی زیادہ وضاحت کر سکیں اور لوگوں تک بات پہنچا سکیں، یہ قلم کا پیغام یہی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، جو لوگ کام کر رہے ہیں اللہ پاک ان کو اجر عظیم عطا فرمائے، اور تسلسل اور استقامت کے ساتھ برکات ثمرات قبولیت اور نتائج سے بہرہ ور فرمائیں۔

https://www.facebook.com/watch/?v=348014108213976

2016ء سے
Flag Counter