گزشتہ روز جمعرات کو کافی عرصہ کے بعد وزیرآباد جانے کا اتفاق ہوا جو ہمارے آبائی قصبہ گکھڑ کا تحصیل ہیڈکوارٹر چلا آ رہا تھا، اب اسے ضلع قرار دے دیا گیا ہے اور وہ ضلعی ہیڈکوارٹر بننے کے مراحل طے کر رہا ہے۔ اس حاضری کی ایک وجہ صدمہ اور اس پر تعزیت کا اظہار تھا اور دوسری وجہ خوشی اور اس پر مبارکباد دینا تھی۔
وزیر آباد کے ممتاز تاجر اور سماجی و سیاسی راہنما کرنل (ر) وقار انور شیخ کی والدہ محترمہ کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا تھا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس خاندان کے ساتھ ہمارا پرانا تعلق ہے، کرنل صاحب کے والد گرامی الحاج شیخ خورشید انور مرحوم والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور بحمد اللہ تعالیٰ یہ تعلق دوسری نسل میں بھی موجود ہے۔ ان سے تعزیت اور مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت کے لیے حاضری ہوئی تو پاکستان شریعت کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پروفیسر حافظ منیر احمد میرے ہمراہ تھے، پھر ہم تینوں محترم جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کے گاؤں کٹھور کلاں گئے، ان کے ساتھ بھی والد گرامیؒ کے دور سے ہمارا تعلق ہے، وہ وزیرآباد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے رہے ہیں اور ان کے بعد گزشتہ اسمبلی میں ان کے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ ایم این اے تھے۔
دو روز قبل اخبارات میں خبر پڑھی کہ جسٹس صاحب موصوف کی پوتی ماہ نور چیمہ نے اس سال برطانیہ میں او لیول کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس حوالہ سے بھی کہ اس بچی نے او لیول کے مطلوب نو مضامین سمیت مجموعی طور پر چونتیس مضامین کا امتحان دے کر اول پوزیشن حاصل کی ہے، اور اس حوالہ سے بھی کہ اس سے قبل اس سطح پر سب سے زیادہ نمبر معروف سائنس دان آئن سٹائن کے شمار ہوتے تھے جو ایک سو ساٹھ بتائے جاتے ہیں جبکہ اس بچی نے ایک سو اکسٹھ نمبر حاصل کیے ہیں۔ مختلف اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ ایک مسلمان اور پاکستانی بچی نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے اور بچی بھی ہمارے علاقہ کی ہے بلکہ ہمارے بزرگ دوست جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کی پوتی اور بیرسٹر عثمان افتخار چیمہ کی بیٹی ہے جو کافی عرصہ سے برطانیہ میں قیام پذیر ہیں۔ جسٹس صاحب موصوف کو مبارکباد دی تو انہوں نے نماز عصر کے بعد مسجد میں نمازیوں سے گفتگو کی فرمائش کر دی، اس طرح وہ بھی ہماری مبارکباد میں شریک ہو گئے۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری اور سائنسی علوم میں بھی مسلم امہ اپنی مستقل تاریخ اور تعارف رکھتی ہے اور یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی اور تحقیقات کی اساس اندلس میں مسلمانوں کے دورِ حکمرانی کی تعلیمی اور تحقیقاتی سرگرمیوں پر ہے جو سماجی اور سائنسی دونوں علوم میں راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سوشل سائنسز اور دیگر سائنسی علوم میں بنیادیں فراہم کرنے کے بعد ہم سیاسی میدان میں پسپا ہو گئے اور ان بنیادوں پر عمارت تعمیر کرنے کے لیے مغرب آگے بڑھا جو آج بھی مسلسل پیشرفت کر رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ موجودہ دور میں بھی ان علوم میں مہارت اور ذہانت کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی کمی نہیں ہے اور مختلف پہلوؤں سے آج بھی اس کا مشاہدہ سامنے آ رہا ہے جن میں دو تین کا ذکر کر رہا ہوں۔
امریکہ کا جو اپالو الیون مشن چاند پر گیا تھا، میں نے ناسا ہیڈکوارٹر میں اسے خود دیکھا ہے، اس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس پروگرام کے انچارج ایک مصری سائنسدان ڈاکٹر عبد العزیز مرحوم تھے۔ میں نے شکاگو ٹاور بھی دیکھا ہے اور اس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے بڑے انجینئر ایک بنگالی مسلمان ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم تھے۔ اس طرح ٹورانٹو ٹاور دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ اس کے نگران ایک افریقی ڈاکٹر علی مرحوم تھے۔ ایٹمی توانائی میں بھارت کے ساتھ ہماری مقابلہ آرائی سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ انڈیا کو ایٹمی قوت بنانے والے سائنسدان ڈاکٹر عبد الکلام مرحوم مسلمان تھے۔ جبکہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا سہرا مرحوم ڈاکٹر عبد القدیر کے سر ہے، اس فرق کے ساتھ کہ انڈیا نے ایٹمی قوت تک پہنچانے والے سائنسدان کو ملک کا صدر بنا لیا مگر ہم نے اپنے محسن کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ ذکر کرتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری اور سائنسی علوم میں بھی مسلمانوں میں ذہانت و مہارت کی کمی نہیں ہے اور وقتاً فوقتاً اس کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ البتہ اس ذہانت، مہارت اور جذبۂ خدمت کو منظم کرنے اور اسے ملی مفاد کے لیے واضح رخ دینے کا کوئی منصوبہ ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ نہ وژن ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ایجنڈا ہے۔ ہم اگر اس ذہانت کو منظم کر کے مجتمع کرنے اور اسے امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کے لیے صحیح رخ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا کر سکیں تو عالمِ اسلام آج بھی سائنسی و سماجی علوم اور ٹیکنالوجی میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے مغرب کی فکری دریوزہ گری کرنے کی بجائے ہمیں دینی، تہذیبی اور تاریخی شعور و ادراک سے بہرہ ور ہونا ہو گا اس کے بغیر ہم تنزل اور انحطاط کے دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔