مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغاز`

   
۱۲ جون ۲۰۱۷ء

بھلا ہو جرمن وزیرخارجہ زیگمار گابرئیل کا کہ انہوں نے میری ایک ذہنی الجھن دور کر دی ہے۔ میں کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اب سے ایک صدی قبل جب مشرق وسطیٰ کی نئی جغرافیائی حد بندی ہوئی تھی اور جنگ عظیم اول کے ساتھ ہی خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اس خطہ میں چند نئی خودمختار اور آزاد ریاستیں وجود میں آئی تھیں تو اس کا راستہ ہموار کرنے والوں میں بہت سے لوگ اور عناصر شامل تھے اور یہ ایک طویل و مربوط بین الاقوامی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ مگر اس سارے عمل میں ایک نام بنیادی کردار کے طور پر سامنے آتا رہا ہے اور اب بھی اسے اس جوڑ توڑ کا مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے جس کا نام کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس تھا اور اسے اس کے اس تاریخی کردار کے باعث ’’لارنس آف عریبیا‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ صاحب جنگ عظیم اول کے دوران برطانوی فوج میں میجر تھے، مشرق وسطیٰ میں آکر عربی زبان سیکھی، مسلمانوں والے طور طریقے اختیار کیے، عربی لباس پہنا، عرب کلچر سے واقفیت حاصل کی اور ایک عرب مسلمان کے روپ میں متحرک ہوگئے۔ میجر لارنس نے نہ صرف عربوں کو ترک خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا بلکہ باہمی منقسم عرب قومیتوں مثلاً مصری، شامی، عراقی، فلسطینی، حجازی، نجدی وغیرہ کے امتیازات و اختلافات کو ابھار کر مشرق وسطیٰ کی نئی جغرافیائی تقسیم کی راہ ہموار کی اور اس مشن میں کامیابی کے بعد کرنل کا خطاب پا کر برطانیہ واپس چلے گئے۔ مجھے آکسفورڈ میں کرنل لارنس کی قبر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں اس کے سرہانے کھڑا تاریخ کی بھول بھلیوں میں کچھ دیر کے لیے گم ہو کر رہ گیا تھا۔

اب ایک صدی گزرنے پر مشرق وسطیٰ کی ازسرِنو جغرافیائی تقسیم کا مرحلہ درپیش ہے، موجودہ سرحدات پر نظر ثانی اور نئی جغرافیائی سرحدوں کی حد بندی کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور متعدد فارمولے مختلف اطراف سے سامنے آرہے ہیں۔ میری الجھن یہ تھی کہ اس کے ’’مرکزی کردار‘‘ کے طور پر کس شخصیت کا نام لیا جائے گا۔ ویسے تو اس کی منصوبہ بندی میں جارج ڈبلیو بش، ڈک چینی اور ٹونی بلیئر کے نام خاصے معروف ہیں لیکن مرکزی کردار کا خانہ ابھی تک خالی دکھائی دے رہا تھا۔ جرمن وزیرخارجہ زیگمار گابرئیل نے گزشتہ دنوں قطر اور سعودی عرب کے تنازعے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو ابھارنے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ پہلے سے تنازعات سے دوچار مشرق وسطیٰ کے خطے میں ٹرمپ کی دخل اندازی بہت ہی خطرناک ہے۔ اور انہوں نے اسے ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کا نام دیا ہے جس سے میرے ذہن میں اس منصوبے کے مرکزی کردار کا خالی خانہ پر ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔

جغرافیائی سرحدوں میں نئی تبدیلیوں کی بات کافی عرصہ سے چل رہی ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کی یادداشتوں میں بھی اس منصوبے کا ذکر موجود ہے جس میں عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دینے کا پروگرام تھا (۱) سنی عراق (۲) شیعہ عراق (۳) کرد عراق۔ اسی طرح شام اور سعودی عرب کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی باتیں مختلف اوقات میں سامنے آتی رہی ہیں۔ عراق اور شام کے مسلح سنی گروپوں سے تشکیل پانے والی ’’داعش‘‘ کے بہت سے منفی کاموں کے ساتھ ایک مثبت پہلو بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے سامنے آنے سے عراق اور شام کی مختلف ملکوں میں تقسیم کے منصوبے میں وقتی رکاوٹ آگئی ہے۔ اگر داعش قتل و قتال اور تکفیر کے خوارج کے ایجنڈے پر نہ چلی جاتی اور ’’دام ہمرنگ زمین‘‘ طرز کی بین الاقوامی سازشوں کے جال میں نہ پھنستی تو اس کا یہ مثبت پہلو زیادہ نمایاں ہوتا اور صورتحال یہ نہ ہوتی جو اب نظر آرہی ہے۔ مگر تقدیر کے فیصلوں کے سامنے کس کا بس چلتا ہے؟

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نئی منصوبہ بندی کا ہوم ورک کسی حد تک مکمل ہو چکا ہے کہ ٹرمپ صاحب اسے لے کر آگے چل پڑے ہیں اور انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ جبکہ جرمن وزیر خارجہ کے بقول اب سے شروع ہونے والا دور ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کا دور ہوگا جس کی شروعات ’’اسلامی سربراہ کانفرنس‘‘ سے ہوئی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے نہ صرف اس سے سرپرستانہ خطاب کیا ہے بلکہ جاتے ہوئے سعودی عرب اور قطر کے غیر متوقع تنازعہ کا تحفہ بھی دے گئے ہیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی سعودی عرب سمیت چھ عرب ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور ٹرمپ صاحب نے اس تنازعہ کو حل کرانے کے لیے ’’ثالثی‘‘ کی پیشکش بھی فرما دی ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان اس تنازعہ کی بنیاد کیا ہے؟ اس کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ ایک عرب تبصرہ نگار ڈاکٹر ہدی نجات کا کہنا ہے کہ اصل بات لین دین کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب سے پانچ سو ملین ڈالر کی جو رقم ہتھیاروں کی فروخت کے حوالہ سے وصول کی ہے اس میں اصل تقاضہ پندرہ سو ملین ڈالر کا تھا مگر ادائیگی پانچ سو ملین ڈالر کی ہوئی ہے جو مبینہ سمجھوتے کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر تینوں کو ادا کرنا تھی۔ ڈاکٹر نجات کے بقول اس میں قطر نے اپنے حصہ کی رقم ادا نہیں کی جو تنازعہ کی وجہ بنی ہے۔ اور ان کے مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب قطر اور امریکہ کے درمیان اندرون خانہ گفتگو چل رہی ہے جس سے یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ قطر قسطوں میں یہ رقم ادا کرے گا۔

ممکن ہے تنازعہ کی اصل وجہ یہی ہو مگر تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میرے ذہن میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ ایک صدی قبل مشرق وسطیٰ میں اس وقت کی بڑی عالمی قوت برطانیہ نے مختلف خطوں میں بعض خاندانوں کے نسل در نسل حق اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے جو الگ الگ معاہدات کیے تھے، شاید قطر اس معاہدہ کی حدود کی پابندی نہیں کر رہا جس کی تھوڑی سی جھلک قطری وزیر خارجہ کے ایک حالیہ بیان میں دکھائی دیتی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں خودمختاری کی سزا دی جا رہی ہے۔

ویسے یہ ریسرچ کا ایک مستقل اور دلچسپ موضوع ہے کہ گزشتہ صدی کے آغاز میں مشرق وسطیٰ کے بعض خطوں میں چند خاندانوں کا نسل در نسل اقتدار کا حق تسلیم کرتے ہوئے برطانیہ عظمیٰ نے ان سے مختلف معاہدات کیے تھے جن کی پاسداری اب برطانیہ کی جگہ امریکہ نے سنبھال رکھی ہے، وہ سب کے سب معاہدات تاریخ کے میسر ریکارڈ میں موجود ہیں، کوئی صاحبِ ذوق ان معاہدات اور اب تک ان پر عملدرآمد کو تحقیق کا موضع بنا سکیں تو یہ امت کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔

البتہ سعودی وزیرخارجہ جناب عادل الجبیر نے ایک بیان میں اس کی جو وجہ ظاہر فرمائی ہے وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ قطر کو اخوان المسلمون اور حماس کے ساتھ تعاون پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ حالانکہ اخوان المسلمون عرب دنیا کی ایک اسلام پسند تنظیم ہے جو معاشرے میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے لیے ایک عرصہ سے محنت کر رہی ہے، اس نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے بلکہ پر امن عوامی جدوجہد کو ہی اپنا طریقِ کار بنایا ہے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ رائے عامہ اور ووٹ کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود اس کے راہنما جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ ان کی بعض آراء اور طریق کار کے بعض پہلوؤوں سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ان سے اس درجہ کا اختلاف کہ معاملہ ان کے خلاف محاذ آرائی تک جا پہنچے اور اس کی بنیاد پر مقاطعہ کی نوبت آجائے، نہ شرعاً درست ہے اور نہ ہی حکمت و تدبر کا تقاضہ ہے۔ جبکہ حماس تو آزادیٔ فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والوں اور مسلسل قربانیاں دینے والوں کی تنظیم ہے، انہیں دہشت گردوں کے زمرے میں شمار کرنا خود آزادیٔ فلسطین کے موقف کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

داعش کی حد تک تو یہ طرز عمل ٹھیک تھا جو اختیار کیا گیا ہے اس لیے کہ انہوں نے بلاجواز ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور قتل و قتال او رتکفیر کے فتنہ کی آبیاری کر رہے ہیں لیکن رائے عامہ اور ووٹ کے ذریعہ جدوجہد کرنے والی اخوان المسلمون کو ان کے ساتھ شمار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر ہتھیار اٹھا کر جدوجہد کرنے والے بھی غلط ہیں اور عدم تشدد کے اصول پر چلتے ہوئے پر امن جدوجہد کرنے والے بھی غلط ہیں تو پھر نفاذِ اسلام کی محنت اور نظامِ کفر کے خاتمہ کے لیے محنت کا کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ سعودی عرب کی اسلامی مرکزیت کو نفاذِ اسلام کی پر امن جدوجہد کا راستہ روکنے کے لیے آڑ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی حکومت حرمین شریفین کی خدمت کے حوالے سے دنیائے اسلام میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے لیکن اخوان المسلمون اور حماس کے بارے میں اس کی نئی پوزیشن ناقابل فہم ہے، اس معاملہ میں سعودی حکومت کو اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی ورنہ ملت اسلامیہ خصوصاً عالم عرب میں ایک نئے خلفشار کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter