خصوصی اشاعت ماہنامہ الشریعہ ’’بیاد امام اہل سنتؒ‘‘ کی تقریب رونمائی

   
۷ اکتوبر ۲۰۰۹ء

۴ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس میں نقابت کے فرائض اکادمی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے رکن مولانا حافظ محمد یوسف نے انجام دیے جبکہ مختلف اہل علم نے اپنے تاثرات و احساسات کا اظہار کیا۔

الشریعہ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور خصوصی اشاعت کے مرتب محمد عمار خان ناصر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ حضرت کی ذات سے اور ان کی خدمات سے جو فیضان دنیا میں پھیلا ہے اور لوگ جس طرح ان کے ساتھ محبت و عقیدت اور استفادہ کا تعلق رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ باریک خط میں شائع ہونے والی ساڑھے آٹھ سو صفحات کی اس ضخیم اشاعت کے لیے مضامین لکھے جانے سے لے کر پریس تک جانے تک تیاری کے تمام مراحل صرف تین ماہ کے عرصے میں مکمل ہوئے جو بذات خود ایک کرامت ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص توفیق کے شامل حال ہوئے بغیر اس کی تکمیل عام حالات میں ناممکن تھی۔ الشریعہ اکادمی کے زیراہتمام قائم کی جانے والی ویب سائٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ ویب سائٹ تقریباً ایک ماہ کے عرصے میں مکمل ہوئی اور ماہ ستمبر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان، انڈیا، برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے سینکڑوں حضرات نے اس ویب سائٹ کو وزٹ کیا اور اس کے مختلف مضامین کا مطالعہ کیا۔

مطالعے سے حضرت کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے ہیں جو پہلے ہمارے سامنے نہیں تھے۔ حضرت کے صاحبزادے مولانا رشید الحق عابد کے مضمون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اشاعت کا نہایت ہی اہم مضمون ہے جس میں مصنف نے روحانی اعتبار سے حضرت پر علمی تجلیات کے نزول کا نقشہ خوبصورتی سے کھینچا ہے۔

مولانا عبد الحق خان بشیر نے اپنے خطاب میں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک اہل سنت والجماعت کا جو ایک متواتر فکر چلا آرہا تھا، جماعت دیوبند نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا رشتہ اس سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس دور میں مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی شخصیات نہ ہوتیں جنہوں نے ہر موضوع پر جماعت دیوبند کے موقف اور نظریے کو مدلل طور پر اجاگر کیا تو شاید آج ہمارے پاس جماعت دیوبند کا خالص نظریہ موجود نہ ہوتا۔

مدرسہ نصرۃ العلوم کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہنامہ الشریعہ کی اس خصوصی اشاعت کے حوالے سے اکادمی کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے اور خاص طور پر مدیر الشریعہ نے جو دماغ سوزی کی ہے اور تین چار مہینے اس پر جو شب و روز محنت کی ہے اس پر داد نہ دینا بخل کی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی حیات و خدمات کے حوالے سے یہ نمبر مجموعی طور پر ایک جامع نمبر ہے اور اس میں حضرت کی شخصیت کا جامع تعارف پیش کیا گیا ہے۔ البتہ حضرت کے طرزِ فکر اور ان کی آراء و تحقیقات سے علمی اختلاف کے ضمن میں بحث و نزاع کا جو عنصر اس میں آگیا ہے یہ اس کا مناسب موقع اور محل نہ تھا اور اس نمبر میں اس بحث کو چھیڑنا مناسب نہیں تھا۔ مولانا محمد فیاض خان نے مزید کہا کہ اگر آئندہ اشاعت میں منظوم خراج عقیدت کا حصہ بھی شامل کر لیا جائے تو اس سے عقیدت مندوں کے جذبات و تاثرات کے اس پہلو کو بھی تسکین مل جائے گی۔

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذِ حدیث مولانا عبد القدوس خان قارن نے اپنی گفتگو میں خصوصی اشاعت کی تیاری کو ایک قابل قدر اور فخریہ کارنامہ قرار دیتے ہوئے اس پر الشریعہ اکادمی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس کوشش کے ذریعے عوام الناس کو حضرت امام اہل سنت کی شخصیت اور ان کی ذات سے روشناس کرانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت کے ساتھ عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی تحقیقات پر کامل اعتماد کیا جائے اور اگر کسی کے ذہن میں ان کی کسی بات سے اختلاف موجود ہے تو اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں ہونا چاہیے۔

معروف ماہر تعلیم اور دانشور پروفیسر غلام رسول عدیم نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت میں سوانح، درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور منہج فکر وغیرہ آٹھ مختلف عنوانات کے تحت بڑے کامیاب اور شاندار قسم کے مضامین شامل کیے گئے ہیں جبکہ نقوش و تاثرات کے زیرعنوان حصے میں اہل خاندان نے اپنے تاثرات و معلومات بڑی تفصیل سے قلمبند کیے ہیں۔ انہوں نے خواتین اہل قلم کے مضامین پر حیرت اور استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان مضامین میں بڑے شاندار طریقے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں جس کے ساتھ ادب کی چاشنی بھی پوری طرح موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں حضرت کے خدام میں سے تین افراد کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک حاجی لقمان اللہ میر جنہوں نے بیماری کے سارے عرصے میں ہونے والے اخراجات کو تنِ تنہا اٹھایا، دوسرے مولانا محمد نواز بلوچ جنہوں نے آپؒ کی بہت خدمت کی اور تیسرے ڈاکٹر فضل الرحمان جو علالت کے بعد سے وفات تک مسلسل حضرت کی خدمت میں مصروف رہے اور آخری لمحے تک آپ کو طبی امداد اور سہولتیں پہنچاتے رہے۔ پروفیسر عدیم نے کہا کہ حضرت کے فیوض کا سلسلہ جاری رکھنے کے سلسلہ میں ان کے ذہن میں حضرت کے خوشہ چینوں کے لیے بہت سی تجاویز تھیں لیکن خصوصی اشاعت کے دیباچے میں چودہ مختلف تصنیفی و تالیفی منصوبوں کا جو تعارف پیش کیا گیا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر پہلوؤں پر کام جاری ہے اور یہ تفصیل معلوم کر کے انہیں بے حد مسرت اور اطمینان ہوا ہے۔

تقریبِ رونمائی کے مہمان خصوصی اور شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پنجاب لاہور کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ یونیورسٹی کے ماحول میں رسائل و جرائد کے لیے اہل قلم سے معیاری مضامین بروقت حاصل کرنا ایک بے حد مشکل امر ہے لیکن اتنے مختصر عرصے میں الشریعہ کی اس ضخیم اشاعت کا منظر عام پر آجانا حضرت کے خلوص کا اور ان کے ساتھ لوگوں کی محبت اور عقیدت کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں عزیزم محمد عمار خان ناصر کو دعائیں دیتا ہوں کہ انہوں نے بہت بڑا کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس کام کرنے کا سلیقہ رکھنے والے افراد موجود ہیں اس لیے ضرورت اس چیز کی ہے کہ ایسے افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ حافظ محمود اختر نے مزید کہا کہ علماء دیوبند کی تصانیف اور ان کے علمی کارنامے جدید تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں عام طور پر دستیاب نہیں ہیں حالانکہ ان تصانیف اور تحقیقات کا پایہ اتنا بلند ہے کہ انہیں ہر لائبریری کی زینت ہونا چاہیے اور ہر صاحبِ علم کو ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تحقیق کے جدید تقاضوں اور اصولوں کو سامنے رکھ کر مولانا صفدر کی تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو ایک اچھے محقق کی تمام صفات ان کتابوں کے اندر موجود ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم مولانا سرفراز صفدرؒ اور دیگر علماء دیوبند کی کتابوں کو ایک تحریک کے طور پر مختلف لائبریریوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ مہمانِ خصوصی نے خصوصی اشاعت کی تیاری پر الشریعہ اکادمی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسی پر اکتفا نہ کر لیا جائے بلکہ اس سلسلہ کو بہتر سے بہتر انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش بھی جاری رکھی جائے۔

تقریبِ رونمائی کے صدر پروفیسر حافظ خالد محمود (برادرِ خورد حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ) نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہا کہ وہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت کا تفصیلی مطالعہ تو نہیں کر سکے تاہم مختلف مقررین کے تاثرات سے انہیں اندازہ ہو رہا ہے کہ الحمد للہ ایک معیاری نمبر شائع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ خوشی ہے کہ ہمارے حلقے کے اندر الشریعہ جیسے علمی رسالے نکلنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ اس سے پہلے ہم بعض دوسرے طبقوں کے ہاں چھپنے والے اچھے معیاری رسالے دیکھتے تھے تو دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ علماء دیوبند کے حلقے میں بھی ایسے علمی و فکری جرائد منظر عام پر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ الشریعہ میں شائع ہونے والے محققانہ مضامین پڑھ کر انہیں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے البتہ کسی کو ان مضامین سے اختلاف رائے ہو تو یہ اہل علم کا حق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر دور اپنے تقاضے اپنے ساتھ لاتا ہے اور ہر دور کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، یہ دور علمی و فکری جستجو اور تحقیق کا دور ہے، اگر ہم اس کے تقاضوں کے مطابق چلیں گے تو عصرِ حاضر کے چیلنجوں کا جواب دے سکیں گے ورنہ مار کھا جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ الشریعہ اکادمی سے متعلق حضرات کافی حد تک جدید دور کی ضروریات کا ادراک کر رہے ہیں جو ایک اطمینان بخش بات ہے۔

تقریب کے اختتام پر بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے اپنے دعائیہ کلمات میں کہا کہ ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ان شخصیات میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ صدیوں بعد اپنی مخلوق کو مرحمت فرماتے ہیں۔ ان کے معاصرین بلکہ ان کے اساتذہ کے درجے کے کبار علماء بھی ان کے علم و عمل کی توصیف کرتے تھے اور ان کی تحسین میں رطب اللسان نظر آتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جو بردباری، تحمل، برداشت، حسن اخلاق، سلیقہ اور عوام الناس اور علماء حتیٰ کہ تلامذہ کے ساتھ جو رویہ حضرت شیخ کے ہاں دیکھا وہ کسی اور جگہ نہیں دیکھا۔ انہوں نے خصوصی اشاعت کی تیاری میں شریک سب حضرات کو مبارکباد دی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس میں شریک ہونے والے سب حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter