مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے حوالہ سے میرے حالیہ مضمون میں کمپوزر یا پروف ریڈر کی طرف سے ایک جملہ کے اضافے نے ذہن کی سوئی کو اٹھارہ سال پہلے کی طرف گھما دیا اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کے مختلف مناظر باری باری ذہن کی اسکرین پر جھلملانے لگے۔ میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ نے ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ایک جملے کا اضافہ شائع ہوا ہے کہ ’’اور ہفتوں قید رہے‘‘۔ یہ جملہ میرا نہیں ہے، اور جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے ایسا ہوا بھی نہیں، کیونکہ اس تحریک کے دوران زبان بندی اور داخلہ بندی کے احکامات تو آتے رہے لیکن مرکزی مجلس عمل کے رہنماؤں کی گرفتاریوں تک نوبت نہیں پہنچی۔ مولانا محمد ضیاء القاسمی نے مختلف دینی تحریکات میں متعدد مواقع پر قید و بند کی صعوبتیں جھیلی ہیں لیکن ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں ہفتوں قید رہنے کی بات میرے خیال میں درست نہیں ہے، اس لیے ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہ وضاحت ضروری خیال کرتا ہوں۔
۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کا بنیادی محرک سیالکوٹ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ محمد اسلم قریشی کی اچانک گمشدگی تھا۔ اسلم قریشی اس سے قبل اسلام آباد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ کے حوالے سے گرفتار رہے تھے۔ جبکہ ایم ایم احمد منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین تھے اور اس وقت کے سربراہ حکومت جنرل محمد یحیٰی خان کے کسی بیرون ملک دورہ کے موقع پر مبینہ طور پر چند روز کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بننے والے تھے۔ اسلم قریشی نے چھری سے ان پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور وہ قائم مقام صدر بننے کی بجائے ہسپتال چلے گئے۔ اس پس منظر میں اسلم قریشی کی اچانک گمشدگی کو قادیانیوں کی سازش تصور کیا گیا اور ان کی بازیابی کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے وہ مشہور ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ جاری کیا جو ابھی تک بین الاقوامی حلقوں میں متنازعہ ہے اور جسے انسانی حقوق اور مذہی آزادیوں کے منافی قرار دیتے ہوئے امریکہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر مغربی ممالک و ادارے حکومت پاکستان سے اس آرڈیننس کو منسوخ کرنے کے مطالبے کرتے رہتے ہیں۔
بعد میں اسلم قریشی کئی ماہ کی روپوشی اور گمشدگی کے بعد از خود منظر عام پر آگئے اور انہوں نے یہ کہانی سنائی کہ وہ ایران چلے گئے تھے اور وہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد واپس آگئے ہیں۔ لیکن یہ بات ابھی تک ’’پردۂ غیب‘‘ میں ہے کہ ان کی یہ گمشدگی رضاکارانہ تھی یا اس کی پلاننگ میں کچھ ’’مخصوص مہربانوں‘‘ کا ہاتھ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عقدہ بھی بالآخر حل ہو ہی جائے گا۔
اسلم قریشی کی اچانک گمشدگی کے سلسلہ میں ان کی بازیابی کی مہم کے لیے سب سے پہلا محاذ گوجرانوالہ میں قائم ہوا کیونکہ سیالکوٹ گوجرانوالہ ڈویژن کا ضلع ہے اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے طور پر گوجرانوالہ کو تحریکی سرگرمیوں کا مرکز بنایا گیا۔ سیالکوٹ سے پیر سید بشیر احمد مرحوم، مولانا محمد انذر قاسمی مرحوم، جناب نعیم آسی مرحوم، اور سالار بشیر مرحوم اس مہم میں پیش پیش تھے۔ گوجرانوالہ میں مولانا حکیم عبدالرحمٰن آزاد اور راقم الحروف کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام بھی بہت سے دوست اس میں سرگرم طور پر شریک تھے جبکہ ہم نے اپنی ٹیم کی قیادت کے لیے ڈویژنل مجلس عمل کے صدر کے طور پر جمعیۃ علماء پاکستان کے صوبائی سربراہ الحاج لطیف احمد چشتی مرحوم کو چنا جو کامونکی سے تعلق رکھتے تھے اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے معتمد رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جب ہم نے منظم ہو کر سیالکوٹ کا رخ کیا کہ وہاں کے عوام کو جگائیں تو ہم میں سے بہت سے حضرات کے ضلع سیالکوٹ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک پولیس اہلکار آیا اور اس نے مجھے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سیالکوٹ کا آرڈر دینا چاہا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ میں آئندہ دو ماہ کے دوران ضلع سیالکوٹ کے حدود میں داخل نہ ہوں۔ میں اسلم قریشی کی بازیابی کے سلسلہ میں مذکورہ ایکشن کمیٹی کا سیکرٹری اطلاعات تھا، کمیٹی کے نظم و نسق کے معاملات زیادہ تر میرے ہاتھ میں تھے اور اسی وجہ سے مجھے سیالکوٹ جانے سے روکا جا رہا تھا۔ میں نے یہ آرڈر وصول کرنے سے انکار کر دیا جس پر وہ پولیس اہلکار پریشان ہو گیا۔ اس کی ڈیوٹی کا معاملہ تھا جبکہ میں بھی مجبور تھا کہ ہماری پالیسی اور تحریک مسئلہ تھا۔ بالآخر اس نے اس کا یہ حل نکالا کہ مجھ سے ہی گوند مانگی اور وہ آرڈر میرے دفتر کے دروازے پر اس گوند کے ساتھ چپکا کر چلا گیا۔ میں نے دوسرے روز اخبارات میں اعلان کر دیا کہ میں نے ضلع سیالکوٹ میں داخلہ بندی کا آرڈر قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور میں فلاں تاریخ کو سیالکوٹ جا رہا ہوں، چنانچہ میں اعلان کے مطابق میں سیالکوٹ گیا اور اس کے بعد بھی بار بار گیا۔ حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا اور انہوں نے داخلہ کی پابندی توڑتے ہوئے سیالکوٹ جا کر کئی اجتماعات سے خطاب کیا۔
تحریکی دور کی فضا عجیب ہوتی ہے، معاملات الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور جذبات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اسی دوران کا ایک اور دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم گوجرانوالہ کے دورے پر آئے، ہم نے ان سے ’’ایکشن کمیٹی‘‘ کے وفد کی ملاقات کے لیے ضلعی حکام سے رابطہ قائم کیا اور ملاقات کے لیے باقاعدہ درخواست دی۔ اس درخواست کا ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔ البتہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ شام کے کھانے میں شرکت کے لیے خان غلام دستگیر خان صاحب کی طرف سے مجھے ذاتی طور پر دعوت نامہ بجھوایا گیا۔ اس کھانے میں صدر محمد ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کا موقع یقینی تھا اور جو کچھ ’’ایکشن کمیٹی‘‘کا وفد ان سے کہنا چاہتا تھا میں با آسانی ان سے کہہ سکتا تھا لیکن جماعتی ڈسپلن کے حوالہ سے یہ بات مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ اس کے لیے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تمام دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنوں کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا اور اس اجتماع کے سامنے میں نے صدر ضیا ء الحق مرحوم کے ساتھ کھانے میں شریک ہونے کا دعوت نامہ مسترد کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر ’’ایکشن کمیٹی‘‘ کے پورے وفد کو بلایا جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں تنہا صدر صاحب کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار نہیں ہوں۔
اسی دوران مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد شریف جالندھریؒ ، مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ گوجرانوالہ تشریف لائے اور جمعیۃ علماء اسلام کے ضلعی راہنما علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے گھر میں ہماری باہمی مشاورت ہوئی جس میں مرکزی سطح پر کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کو دوبارہ متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر مسئلہ یہ در پیش تھا کہ بریلوی مکتب فکر کے کسی بڑے عالم کو مجلس عمل کی قیادت میں آگے لایا جائے۔ اس کے لیے تین نام سامنے آئے (۱) مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم (۲) صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی مرحوم اور (۳) علامہ سید محمود احمد رضوی مرحوم۔ طے پایا کہ ان تینوں سے رابطہ قائم کیا جائے اور جو بزرگ بھی تیار ہو جائیں انہیں مجلس عمل کی قیادت میں ذمہ دارمنصب کے ساتھ آگے لایا جائے۔ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ کے ساتھ رابطہ میری ذمہ داری قرار پایا۔ میری ان کے ساتھ نیاز مندی تھی جو آخر وقت تک قائم رہی۔ میں وقتاً فوقتاً ان سے ملاقات کرتا رہتا تھا، وہ بھی ہمیشہ شفقت سے نوازتے اور ملاقات میں زیادہ وقفہ کرنے پر شکوہ کرتے۔ مولانا میرے مضامین پر خوشی کا اظہار کرتے اور فرماتے کہ میں تمہارے مضمون اہتمام سے پڑھتا ہوں اور بسا اوقات وہ کسی خاص عنوان پر لکھنے کی ترغیب بھی دیتے۔
میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ تحریک ختم نبوت میں سرگرم کردار کے لیے تیار تھے چنانچہ شیرانوالہ لاہور میں مجلس عمل کی از سر نو تشکیل کے موقع پر تشریف لائے اور ان کی موجودگی میں حضرت مولانا خان محمد مدظلہ کو مرکزی مجلس عمل کا سربراہ اور مولانا مفتی مختار احمد گجراتی کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ پھر اسلم قریشی کی بارزیابی کی مہم کو مرکزی مجلس عمل نے سنبھال لیا اور اس میں بھی میری ذمہ داری سیکرٹری اطلاعات کی تھی۔
اس حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی ذہن میں آگیا ہے جس سے کسی دینی تحریک بالخصوص تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کارکنوں کے جذبات کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی مجلس عمل نے تحریک کے ایک دوسرے مرحلے میں دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں ’’کل جماعتی ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا اور ملک بھر میں علماء کرام اور کارکنوں کو اس شرکت کے لیے کال دے دی۔ حکومت نے حسب عادت کانفرنس کے انعقاد میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں اور چاروں طرف راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی تاکہ علماء اور دینی کارکن کسی طرف سے بھی راولپنڈی میں داخل نہ ہو سکیں۔ گوجرانوالہ سے ایک گروپ راولپنڈی جانے کے لیے روانہ ہواجس میں میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن، قاری محمد یوسف عثمانی، جناب امان اللہ قادری اور ہمارے بے تکلف مرحوم دوست عبدالمتین چوہان شامل تھے۔ جہلم سے گزرتے ہی انہیں بس سے اتار دیا گیا کہ کسی داڑھی والے کو آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بہت سے بس کنڈیکٹروں کی منتیں کیں مگر کوئی بھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہوا، بالآخر ایک بس کنڈیکٹر اس بات کے لیے تیار ہوا کہ بس کی چھت پر کسی تاجر کی خالی بوریاں بندھی ہوئی ہیں اگر وہ تیار ہوں تو وہ ان بوریوں میں لپیٹ کر انہیں راولپنڈی لے جاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ حضرات بس کی چھت پر بار دانے کی بوریوں میں لپٹ کر راولپنڈی پہنچے اور احتجاجی جلسہ میں شریک ہوئے۔