گزشتہ دنوں چنیوٹ کے دورے کے موقع پر استاذ محترم حضرت مولانا محمد نافع دامت برکاتہم کی زیارت و مجلس نصیب ہوگئی۔ چند سال قبل مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کے ہمراہ حضرت شیخ مدظلہ کی خدمت میں حاضری ہوئی تھی، اس موقع پر بخاری شریف کی ایک روایت کی قراءت کے بعد انہوں نے اپنی سند کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت دی تھی اور ان سے شرفِ تلمذ حاصل ہوگیا تھا۔ اس کے بعد متعدد بار ان کے پاس حاضر ہو کر دعائیں اور شفقتیں سمیٹ چکا ہوں، اس دفعہ چنیوٹ حاضری ہوئی تو جامعہ اسلامیہ امدادیہ کے مہتمم مولانا سیف اللہ خالد کی بیماری کا سن کر مولانا قاری عبد الحمید حامد، مولانا محمد عمیر چنیوٹی اور مولانا انعام الٰہی کے ہمراہ ان کی بیمار پرسی کے لیے جامعہ امدادیہ جانے کا اتفاق ہوا، وہیں مولانا مفتی محمد انور اوکاڑوی سے ملاقات ہوگئی اور کچھ دیر معلوماتی مجلس رہی۔ وہاں سے واپسی پر اچانک پروگرام بن گیا کہ حضرت الشیخ مولانا محمد نافع کی خدمت میں حاضری دی جائے، وقت کی گنجائش تھی اس لیے راستہ میں ہی گاڑی کا رخ موڑ کر تھوڑی دیر میں ہم ان کے گھر پہنچے۔
حضرت مولانا محمد نافع ملک کے ان بزرگ علماء میں سے ہیں جن کی ساری زندگی اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کے تحفظ اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس کے دفاع میں گزری ہے، علمی و تحقیقی محاذ پر انہوں نے اس حوالہ سے جو ذخیرہ امت کو دیا ہے وہ کئی نسلوں تک علماء و طلبہ کی راہنمائی کے لیے کافی ہے۔ جامعہ محمدی شریف کے بانی حضرت مولانا محمد ذاکرؒ ان کے بھائی تھے اور ان دونوں بھائیوں نے ضلع جھنگ میں اہل سنت کے عقائد کے تحفظ کے لیے جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ مولانا محمد ذاکرؒ نے اس خطہ میں سب سے پہلے ڈیرہ داروں سے ٹکر لی اور سیاسی میدان میں للکار کر انہیں الیکشن میں شکست دی جبکہ مولانا محمد نافع نے علمی و تحقیقی میدان میں دشمنان صحابہؓ کا ناطقہ بند کیے رکھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا محمد ذاکر مسلکاً بریلوی تھے اور مولانا محمد نافعؒ نہ صرف دیوبندی بلکہ فاضل دیوبند تھے اور دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز فضلاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کیا، اس سال شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ جیل میں تھے اور دورۂ حدیث کے بڑے اسباق شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علیؒ اور حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ نے پڑھائے تھے۔
حضرت مولانا محمد نافع مدظلہ اپنے ان اساتذہ کا تذکرہ بہت محبت سے کرتے ہیں، اس ملاقات میں بھی انہوں نے میرے پوچھنے پر اپنے ان بزرگ اساتذہ کا ذکر کیا اور ان کی باتیں کرتے رہے۔ فرمایا کہ حضرت مولانا اعزاز علیؒ بہت سنجیدہ مزاج بزرگ تھے، ان کو کبھی منفی مزاج کے ماحول میں نہیں دیکھا البتہ حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ کھلے مزاج کے حامل تھے، دل لگی اور مزاح کرتے تھے اور ہنسنے ہنسانے والے بزرگ تھے۔ حضرت مولانا محمد نافع کی مجلس میں تھوڑی دیر بیٹھ کر برکات اور دعاؤں سے فیضیاب ہوئے اور پھر چنیوٹ واپس آگئے۔
اس سے قبل چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سالانہ ختم نبوت کورس کی ظہر کے بعد کی نشست میں کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، عالمی مجلس اس کورس کا ہر سال شعبان المعظم کے دوران اہتمام کرتی ہے جس میں علماء کرام اور طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ میں جب گفتگو کے لیے نشست گاہ میں پہنچا تو مسجد کا ہال علماء و طلبہ سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ دین کے جس شعبے کی محنت میں شریک کار ہیں یہ فتنوں سے آگاہی اور امت کو ان سے خبردار کرنے کا شعبہ ہے۔ امت میں ظاہر ہونے والی خرابیاں اور فتنے ہر دور میں ایسے علماء کرام اور متکلمین کی توجہات کا مرکز رہے ہیں جنہوں نے ان فتنوں سے آگاہی اور ان کے بارے میں مہارت حاصل کر کے امت کو ان سے بچانے کی محنت کی ہے۔ اس کی تفصیلات اگر معلوم کرنی ہوں تو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں جس میں انہوں نے ہر دور کے ان علماء کرام اور صوفیاء عظام کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر پیدا ہونے والے فکری، اعتقادی اور معاشرتی فتنوں کو محسوس کیا اور ان کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کر کے امت مسلمہ کو ان سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا۔
آج بھی یہ محنت مختلف میدانوں میں جاری ہے جن میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کا یہ شعبہ بھی ہے اور اس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر دینی جماعتیں مسلسل خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ کورسز اسی محنت کے لیے طلبہ اور علماء کرام کو تیار کرنے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں، میں نے خود یہ کورس غالباً ۱۹۶۴ء کے دوران عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے گوجرانوالہ دفتر میں کیا تھا جس میں فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ نے ہمیں قادیانیت اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے سبقاً سبقاً پڑھایا تھا اور اس طرح مجھے قادیانیت کے حوالہ سے ان کا براہ راست شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ علماء و طلبہ سے گزارش ہے کہ وہ اس عظیم مشن میں شریک ہو کر جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا محمد حیاتؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ اور ان جیسے دیگر بزرگوں کی روایات و اقدار کو بھی مشعل راہ بنائیں جو انتہائی سادگی، قناعت اور حوصلہ و تدبر کے ساتھ زندگی بھر اس مشن پر کاربند رہے۔
۵ جولائی کو فاتح ربوہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد میں پندرہ روزہ سالانہ ختم نبوت کورس کی اختتامی تقریب تھی۔ یہ کورس مولانا چنیوٹیؒ خود پڑھایا کرتے تھے، اب ان کے تربیت یافتہ اور مایہ ناز شاگرد مولانا مشتاق احمد چنیوٹی اس اہم خدمت میں مصروف ہیں اور علماء و طلبہ ہر سال ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے پندرہ روزہ مختصر تربیتی کورس کے علاوہ پورے سال کے کورس کا اہتمام بھی کر رکھا ہے جسے وہ تخصص کا عنوان دیتے ہیں۔ اس سال اس سالانہ کورس میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دو فضلاء مولانا محمد مشتاق کوہاٹی اور مولانا محمد زبیر شریک تھے جو پورا تعلیمی سال مولانا مشتاق احمد چنیوٹی کے علم، مطالعہ، تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کرتے رہے۔ اس تقریب میں دونوں کلاسوں کے شرکاء کو اسناد اور سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کا پروگرام تھا جس کا اعزاز مجھے بخشا گیا۔
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ زندگی بھر میری رفاقت رہی ہے، ہمارے درمیان اعتماد و محبت کا رشتہ سے ان کے فرزندان آگاہ ہیں، اسی حوالہ سے وہ ہر ایسے موقع پر یاد رکھتے ہیں اور مجھے بھی اس ادارہ میں حاضر ہو کر اور حضرت چنیوٹیؒ کے اہل خاندان اور رفقاء کو ان کے مشن میں مصروف دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں مولانا چنیوٹیؒ کے بھائی مولانا محمد ایوب چنیوٹیؒ کا انتقال ہوا ہے، ان کے فرزندوں سے جامعہ عربیہ میں تعزیت کی اور ان کے لیے دعائے مغفرت میں شریک ہوا۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی قبر پر حاضری اور فاتحہ خوانی کا موقع بھی ملا، اللہ تعالٰی ان حضرات کی ان پر خلوص کاوشوں کو ثمر آور بنائیں اور ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرما دیں، آمین یا رب العالمین۔