(جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ انسانی حقوق یا ہیومن رائٹس آج کی دنیا کا ایک بہت اہم موضوع ہے جس پر پوری دنیا میں ہر سطح پر ہر دائرے میں گفتگو ہو رہی ہے اور اسی کے گرد ساری دنیا کے معاملات اور فیصلے گھومتے ہیں۔ آپ کسی بین الاقوامی فورم میں چلے جائیں، کسی علاقے میں چلے جائیں، کسی ماحول میں چلے جائیں تو ہیومن رائٹس، انسانی حقوق پر بات ہوگی، جبکہ عالمی مسائل اور عالمی معاملات تو طے ہی اس دائرے میں ہوتے ہیں کہ کون انسانی حقوق کو پورا کرتا ہے اور کون پورا نہیں کرتا۔ جو انسانی حقوق کو پورا کرتا ہے وہ آج کے معیار کے مطابق ہے اور جو نہیں کرتا وہ آج کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔ انسانی حقوق کیا ہیں اور اس کے بارے میں قرآن پاک اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کیا ہیں؟ اس پر مختصر بات کرنا چاہوں گا۔
حقوق کی بات قرآن پاک نے بیسیوں آیات میں اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں احادیث میں کی ہے، لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ قرآن پاک اور حدیث و سنت جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان کی دو اصطلاحات ہیں: (۱) حقوق اللہ اور (۲) حقوق العباد۔ یعنی اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق۔ جبکہ آج کی دنیا حقوق العباد کی بات تو کرتی ہے، حقوق اللہ کی بات نہیں کرتی۔ یہ جوہری فرق ہے۔ گویا آپس میں اکٹھے رہنے والوں کے حقوق تو ہیں، لیکن جس نے پیدا کیا ہے اس کا بھی کوئی حق ہے یا نہیں؟ اس پر آج کے عالمی ماحول میں کہیں بھی بات نہیں ہوتی۔ یہ پہلا فرق میں نے عرض کیا ہے کہ قرآن پاک اور سنت و حدیث حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتے ہیں، جبکہ آج کی دنیا صرف ہیومن رائٹس، آپس کے حقوق کی بات کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کے حقوق کی بات آج کی دنیا میں نہیں ہوتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے بیسیوں آیات میں حقوق کی بات کی ہے، ان میں سے ایک ذکر کروں گا جس میں اللہ رب العزت نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو بیان کیا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، واعبدوا االلہ ولاتشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتمیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم۔ (النساء ۳۶)
اس آیت میں اللہ رب العزت نے دس حقوق بیان کیے ہیں، جن میں پہلا حق اپنا بیان کیا ہے: (۱) ’’واعبدوا االلہ ولاتشرکوا بہ شیئا‘‘ کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور نو حق بندوں کے بیان کیے ہیں (۲) ’’وبالوالدین احسانا‘‘ کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو (۳) ’’وبذی القربیٰ‘‘ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ (۴) ’’والیتمیٰ‘‘ یتیموں کے ساتھ (۴) ’’والمساکین‘‘ سوسائٹی کے غریب لوگوں کے ساتھ (۵) ’’والجار ذی القربیٰ‘‘ وہ پڑوسی جو قریبی رشتہ دار بھی ہے (۶) ’’والجار الجنب‘‘ وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ہے (۷) ’’والصاحب بالجنب‘‘ پہلو کا ساتھی جس کو ہم کولیگ کہتے ہیں، سفر کا ساتھی یا کلاس فیلو یا روم میٹ یا نوکری کا ساتھی (۸) ’’وابن السبیل‘‘ مسافر، مہمان (۹) ’’وما ملکت ایمانکم‘‘ اور جو تمہارے ماتحت لوگ ہیں، ملازم اور نوکر وغیرہ ان سب کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔
اس آیت کریمہ میں حقوق کی فہرست میں پہلا حق اللہ تعالیٰ کا بیان ہوا اور نو حقوق بندوں کے بیان ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بیان فرمایا اور دونوں اکٹھے بیان کیے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن میں حقوق کا بیان ہے۔
اس سلسلہ میں ایک اور بات یہ عرض کروں گا کہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو اللہ رب العزت نے احسان نہیں شمار کیا، بلکہ حق شمار کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’اٰت ذا القربی حقہ والمسکین وابن السبیل‘‘ قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کرو۔ مسکین، معاشرے کے غریب اور دردمندوں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور مسافروں کو بے سہارا لوگوں کو ان کا حق ادا کرو۔ یہ نہیں کہا کہ تم احسان کر رہے ہو بلکہ یہ ان کا حق ہے۔
یہ بات ایک اور جگہ بھی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ اللہ پاک تمہیں مال دیتا ہے تو وہ سارا تمہارا نہیں ہے۔ میں نے تمہیں مال و دولت دی ہے، جس کو بھی دیا ہے جتنا دیا ہے، وہ سارا تمہارا نہیں ہے بلکہ ’’فی اموالہم حق للسائل والمحروم‘‘ تمہارے مالوں میں سوال کرنے والے کا اور محروم کا حق ہے، تمہارا احسان نہیں ہے، بلکہ تمہارے مالوں میں سائل کا حق بھی ہے اور محروم کا حق بھی ہے۔ سائل سے مراد وہ ضرورت مند ہے جو اپنی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، لوگوں سے مانگتا ہے اور محروم وہ ہے جو ضرورت مند تو ہے، مگر سوال نہیں کرتا، ہاتھ نہیں پھیلاتا، جسے ہم سفید پوش اور وائٹ کالر کہتے ہیں۔ ایسے محروم کو پہچاننا اور اس تک حق پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
یہ ایک مستقل مسئلہ ہے یہاں لوگوں نے سوال اٹھایا کہ سوالی کا تو پتہ چل جائے گا کہ ضرورت مند ہے، محروم کا کیسے پتہ چلے گا، وہ تو سوال ہی نہیں کرتا۔ اس لیے فرمایا کہ اردگرد نظر رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ برادری میں، محلے میں نظر رکھو، جس کو سمجھو کہ ضرورت مند ہے تو اس کے سوال کیے بغیر اس کو دو۔
میں نے پہلی بات یہ عرض کی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جہاں حقوق کی بات کی ہے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کی ہے۔ اور دوسری بات یہ عرض کی ہے کہ قرآن مجید نے لوگوں کے جو حقوق بیان کیے ہیں وہ حق کہہ کر بیان کیے ہیں، احسان کہہ کر بیان نہیں کیے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں ارشادات ہیں جن میں حضورؐ نے حقوق کی بات کی ہے، ان میں سے بخاری شریف میں مذکور ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارس کے تھے اور دنیا کے معمر، طویل عمر لوگوں میں سے تھے۔ پہلے پارسی تھے، پھر عیسائی ہوئے، خاصا عرصہ عیسائی رہے، پھر مسلمان ہوئے۔ لوگوں نے انہیں راہ جاتے ہوئے پکڑ کر بیچ دیا اور یہ غلام ہو گئے۔ آپؓ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے تو کہتے ہیں کہ اس سے پہلے باری باری دس مالکوں کا غلام رہ چکا تھا، اور جب مدینہ منورہ آئے اس وقت بھی ایک یہودی خاندان کے غلام تھے۔ اپنے مالک خاندان سے سودا کر کے آزاد ہوئے جس کو مکاتبت کہتے ہیں کہ اپنی قیمت لگواؤ، ادا کرو اور آزاد ہو جاؤ۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے کلمہ تو غلامی کے دور میں ہی پڑھ لیا تھا، جب آزاد ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو ان کی معاشرتی حیثیت مہاجر کی تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ اور مہاجرین کے درمیان مواخات کروائی تھی تاکہ ہر طرف سے آنے والے مہاجر آسانی کے ساتھ سیٹ ہو جائیں۔ کوئی کیمپ لگانے کی بجائے کوئی محلہ بسانے کی بجائے ایک ایک مہاجر ایک ایک مقامی خاندان کے حوالے کر دیا۔ یہ بڑی حکمت عملی تھی کہ کوئی نیا اہتمام کیے بغیر بڑی آسانی سے نو سال تک مہاجر سنبھالے جاتے رہے۔ ورنہ کیمپ لگاتے، کوئی محلہ بساتے، کچھ کرتے تو لمبا قصہ ہوتا۔
حضرت سلمان فارسیؓ جب آزاد ہو کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان کو حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ حضرت ابو الدرداءؓ انصاری صحابی تھے، ان سے فرمایا یہ تمہارا بھائی ہے، اسے ساتھ لے جاؤ اور سنبھالو۔ حضرت ابوالدرداءؓ نوجوان آدمی تھے اور حضرت سلمان فارسیؓ عمر رسیدہ تھے۔ آپؓ کی عمر کے بارے میں اڑھائی سو سال کی بھی روایت ہے، اس کا مطلب ہے کہ جب آپ مسلمان ہوئے تو ڈیڑھ سو سال کے لگ بھگ ضرور تھے۔ اور جہاندیدہ آدمی تھے، کئی مذہب بھگتائے ہوئے تھے۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ خود واقعہ بیان کرتے ہیں، بخاری شریف کی روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حضرت سلمان فارسیؓ کو گھر لے گیا۔ وہاں جا کر حضرت سلمان فارسیؓ نے گھر کا ماحول دیکھا کہ میاں بیوی تو ہیں لیکن گھر کا ماحول نہیں ہے۔ گھر میں خاتون ہو تو محسوس ہوتا ہے، کیونکہ وہ پردے، صفائی، ڈیکوریشن کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ عورت کی فطرت ہے، لیکن وہاں تو گھر والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابو الدرداءؓ کی اہلیہ کو دیکھا کہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، چنانچہ جاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ بھابھی سے انٹرویو لیا اور کہا کہ یہ اپنا کیا حال بنا رکھا ہے، نہ ڈھنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اور گھر کا کیا حال بنا رکھا ہے، کوئی چیز سلیقے سے نہیں رکھی ہوئی۔ سادہ زمانہ تھا، وہ کہنے لگیں کہ عورت بہت کچھ کرتی ہے لیکن کسی کے لیے کرتی ہے۔ آپ کے بھائی کو کسی بات سے دلچسپی ہی نہیں ہے تو میں بھی گزارا کر رہی ہوں اور وہ بھی گزارا کر رہے ہیں۔ یہ پہلی بات حضرت سلمان فارسیؓ نے اس گھر میں نوٹ کی۔
دوپہر کو کھانے کا وقت ہوا، حضرت ابوالدرداءؓ نے دستر خوان بچھایا۔ حضرت سلمانؓ سے کہا کہ بھائی جان! کھانا کھا لیں۔ انہوں نے کہا آپ بھی آئیں تو حضرت ابوالدرداءؓ نے جواب دیا کہ میرا روزہ ہے، میں مسلسل روزے رکھتا ہوں۔ انہوں نے دوبارہ کہا، آؤ میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو۔ ابوالدرداءؓ نے پھر انکار کر دیا کہ میرا روزہ ہے، اس پر حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا اچھا ٹھیک ہے دستر خوان اٹھا لو، تم کھاؤ گے تو میں کھاؤں گا۔ اس پر حضرت ابوالدرداءؓ مجبور ہو گئے کیونکہ مہمان کے سامنے سے دسترخوان کیسے اٹھاتے، لہٰذا حضرت ابوالدرداءؓ کو روزہ توڑنا پڑا۔ اور مسئلہ یہ ہے یہ اصول یاد رکھیں کہ فرائض و واجبات میں حقوق اللہ مقدم ہیں اور نوافل و مستحبات اور مباحات میں حقوق العباد مقدم ہیں۔ فرضی روزہ کسی کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے اور نفلی روزہ ماں کے کہنے پر بھی توڑ دیں گے، البتہ بعد میں قضا کریں گے۔ یوں ہی حضرت ابوالدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کی وجہ سے روزہ توڑ دیا اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے۔ یہ دوسرا کام حضرت سلمان فارسیؓ نے کیا کہ حضرت ابوالدرداءؓ کا روزہ تڑوایا۔
رات کو سونے کا وقت ہوا، بستر بچھایا اور حضرت ابوالدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ سے کہا حضرت! آرام فرمائیں۔ انہوں نے پوچھا تمہارا کیا پروگرام ہے؟ حضرت ابوالدرداءؓ نے کہا کہ میں تو ساری رات نفل پڑھتا ہوں، سوتا نہیں ہوں، رات مصلے پر گزارتا ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے فرمایا کہ بستر لاؤ اور آرام کرو۔ انہوں نے کہا حضرت! یہ میرا معمول نہیں ہے۔ حضرت سلمانؓ نے فرمایا کہ معمول ہے یا نہیں بستر ادھر لاؤ اور آرام کرو۔ لہٰذا مجبوراً انہیں بستر پر لیٹنا پڑا۔ حضرت ابوالدرداءؓ خود کہتے ہیں کہ میں یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ تھوڑی دیر بعد جب حضرت سلمان فارسیؓ سو جائیں گے تو میں اٹھ کر مصلے پر چلا جاؤں گا۔ لیکن بھائی جان تاک میں تھے، تھوڑی دیر کے بعد اٹھنے کی کوشش کی تو حضرت سلمان فارسیؓ کہنے لگے کہاں جا رہے ہو؟ آرام سے سو جاؤ۔ جب عبادت کا وقت ہوگا میں اٹھاؤں گا۔ مجھے سلا دیا، رات کو نفل نہیں پڑھنے دیے۔ صبح سحری کے وقت حضرت سلمان فارسیؓ اٹھے، مجھے بھی اٹھایا کہ یہ عبادت کا وقت ہے۔ اٹھو تم بھی نفل پڑھو، میں بھی پڑھتا ہوں۔ یہ تیسری کارروائی حضرت سلمان فارسیؓ نے کی۔
اس کے بعد مشورہ ہوا کہ فجر کی نماز مسجد نبوی میں جا کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھیں گے۔ مسجد جانے لگے تو حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداءؓ کو ایک نصیحت کی۔ حضرت ابوالدرداءؓ کو مخاطب کر کے فرمایا دیکھو ”ان لربک علیک حقا ولنفسک علیک حقا ولزوجک علیک حقا ولزورک علیک حقا فاعط کل ذی حق حقہ“ تیرے رب کے تجھ پر حقوق ہیں، نماز، عبادت، نفل، روزہ اللہ کا حق ہے۔ تیری جان کے تجھ پر حقوق ہیں، کھانا، پینا، نیند جان کے حقوق ہیں۔ تیری بیوی کے بھی تجھ پر حقوق ہیں، اور تیرے مہمان کے بھی تجھ پر حقوق ہیں۔ دین یہ ہے ”فاعط کل ذی حق حقہ“ کہ ہر حق والے کو اس کا حق اس کے وقت پر ادا کرو۔ اللہ کے حق کے وقت میں اللہ کا حق، اپنی جان کے حق کے وقت میں جان کا حق، بیوی کے حق کے وقت میں بیوی کا حق، اور مہمان کے حق کے وقت میں مہمان کا حق۔ یہ ہے دین۔
میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ قرآن پاک کی وہ آیت کریمہ جو میں نے پڑھی اور حضرت سلمان فارسیؓ کا یہ ارشاد ہمارے انسانی حقوق کے فلسفے کی بنیاد ہے کہ جس وقت جس کا جو حق ہے وہ اپنے وقت پر ادا کرو۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومیہ معمول یہ تھا کہ فجر کی نماز پڑھا کر مسجد میں اشراق تک بیٹھتے تھے، عمومی مجلس ہوتی تھی، کوئی باقاعدہ وعظ و نصیحت نہیں ہوتی تھی، بلکہ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے تھے، کوئی خبر ہے وہ دے دی، کوئی وحی آئی ہے وہ سنا دی، کوئی آرڈر دینا ہوا تو دے دیا، کہ آج وہاں جانا ہے، کوئی کہتا یا رسول اللہ! یہ مسئلہ ہے، اس طرح کی باتیں ہوتی تھیں۔ اس مجلس کو آج کی زبان میں کھلی کچہری کہتے ہیں۔
اس مجلس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر حضرت ابو الدرداءؓ پر پڑی تو ان سے حضرت سلمان فارسیؓ کے بارے میں پوچھا کہ بھائی جان کو کیسا پایا؟ حضرت ابو الدرداءؓ نے ساری کارگزاری سنا دی کہ یا رسول اللہ! کل گئے تھے، انہوں نے پہلے بھابی کو ڈانٹا، پھر میرا روزہ تڑوایا، رات کو نفل بھی نہیں پڑھنے دیے اور اب راستے میں آتے ہوئے یہ نصیحت کی ہے۔ حضرت ابو الدرداءؓ کی ساری بات سن کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ فرمایا ”صدق سلمان“ صدق کا اطلاق فعل پر بھی ہوتا ہے، قول پر بھی ہوتا ہے۔ یعنی سلمان نے جو کیا ہے ٹھیک کیا ہے اور جو کہا ہے ٹھیک کہا ہے۔
میں یہاں ایک اور بات کرتا ہوں کہ یہ باتیں حضرت سلمانؓ نے کی ہیں، لیکن ان کی تصدیق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے تو حضورؐ کے ”صدق سلمان“ کہنے کے بعد یہ باتیں حضرت سلمانؓ کی رہ گئی ہیں یا حضورؐ کی ہو گئی ہیں؟ حضورؐ کا یہ جملہ ارشاد فرمانے کے بعد حضرت سلمان فارسیؓ کی یہ باتیں ان کی نہیں رہیں بلکہ یہ خود حضور نبی کریمؐ کی ہو گئی ہیں۔ حدیث کی ایک مستقل قسم ہے کہ صحابی نے کوئی بات کی اور حضور نبی کریمؐ نے سن کر تائید کر دی تو وہ بات حدیثِ رسول ہے۔ اسی طرح صحابی نے کوئی کام کیا، حضورؐ نے کرتے ہوئے دیکھا اور نکیر نہیں کی بلکہ خاموشی اختیار کر لی، تو وہ عمل بھی (صرف) صحابی کا نہیں رہا بلکہ وہ سنت بن گئی ہے۔
میں نے عرض کیا کہ ہماری اصطلاح حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ہے۔ دوسرا اصول میں نے بیان کیا کہ فرائض و واجبات میں حقوق اللہ مقدم ہیں، مباحات و مستحبات میں حقوق العباد مقدم ہیں۔ اور جس طرح اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اسی طرح جن لوگوں کے حقوق ہمارے ساتھ متعلق ہیں ان کے حقوق ان کے وقت میں صحیح طریقے سے ادا کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، اور اس کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمارے باہمی حقوق ادا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔