گزشتہ جمعرات کو جس روز علماء کرام نے مولانا عبد الغفور حیدری کی قیام گاہ پر حلوہ نوش جان کیا، میں بھی اسلام آباد میں تھا، لیکن وزارت مذہبی امور کے طلب کردہ اجلاس میں نہیں، بلکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی کے ایک تربیتی کورس میں لیکچر دینے کی غرض سے وہاں گیا تھا۔ دعوۃ اکیڈمی نے فیصل مسجد میں ائمہ مساجد اور خطباء کے لیے سہ ماہی تربیتی کورس کا اہتمام کر رکھا ہے، جو ہر سال ہوتا ہے اور مجھے اس میں گفتگو کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ ظہر کے بعد میں اس کورس کے شرکاء سے گفتگو کر رہا تھا کہ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمٰن صدیقی صاحب قدرے تاخیر سے پہنچے اور دیر سے آنے پر معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا مفتی منیب الرحمٰن، جناب لیاقت بلوچ اور دوسرے علماء کرام ناشتے میں کوئی زہریلی چیز کھا لینے کی وجہ سے علیل ہو گئے ہیں اور ہسپتال میں ہیں۔ چونکہ انہوں نے رات دعوۃ اکیڈمی ہاسٹل میں گزاری تھی، اس لیے انہیں تشویش تھی اور وہ اس سلسلے میں تسلی کے لیے معلومات حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے اور اس اجلاس میں بھی وہ شریک تھے، جو وزارت مذہبی امور نے طلب کر رکھا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ صبح ان کا ناشتہ مولانا عبد الغفور حیدری کے ہاں تھا اور وہاں انہوں نے حلوہ کھایا ہے، جس کے بعد وہ ”فوڈ پوائزن“ کی وجہ سے یا حلوہ زہریلا ہونے کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں، لیکن ان کا علاج ہو رہا ہے اور حالت خطرے سے باہر ہے۔ یہ معلوم کر کے ہم بھی مطمئن ہو گئے اور معمول کے مطابق ہماری نشست جاری رہی۔ شام کو اسلام آباد میں ہی دو اور پروگراموں میں شرکت کے بعد رات گئے گوجرانوالہ واپس پہنچا۔
دوسرے دن اخبارات کے ذریعے کچھ تفصیلات معلوم ہوئیں اور پتہ چلا کہ اس واقعہ کے متاثرین میں مولانا مفتی منیب الرحمٰن اور جناب لیاقت بلوچ کے علاوہ مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا راشد الحق سمیع اور مولانا عبد الخالق بھی شامل ہیں اور وہ سب لوگ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی سمن آباد لاہور کی خضراء مسجد کے خطیب اور جمعیت علماء اسلام (س) کے صوبائی سیکرٹری جنرل ہیں، وہ مولانا سمیع الحق کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد گئے تھے۔ تیسرے روز ٹیلی فون پر مولانا عبد الرؤف فاروقی سے رابطہ ہوا، ان سے صورت حال معلوم کی اور اطمینان ہوا کہ سب حضرات اب روبصحت ہیں اور ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر زندہ و سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
اس کے بعد سے اخبارات میں اس حوالے سے حلوے ہی کا تذکرہ چل رہا ہے اور وزارت مذہبی امور نے جو اجلاس بلایا تھا اور اس کا جو نتیجہ نکلا، یہ سب باتیں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ ۲۴ دسمبر کو میں نے پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل قاری جمیل الرحمٰن اختر اور انار کلی لاہور کے مولانا میاں عبد الرحمٰن کے ہمراہ سمن آباد میں مولانا عبد الرؤف فاروقی کے ہاں حاضری دی تو ان سے اجلاس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں، جنہیں ریکارڈ میں لانا میرے خیال میں ضروری ہے۔
اس اجلاس کے بارے میں چند روز قبل حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے مجھ سے فون پر دریافت کیا تو میں نے بتایا کہ مجھے اجلاس کے لیے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا، اس لیے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں مجھے پیشگی علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ وزارت مذہبی امور اور وزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کو جمع کر کے ان سے خود کش حملوں کے حرام ہونے کے بارے میں اجتماعی فتویٰ حاصل کیا جائے، لیکن انہیں اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ گزشتہ ایک کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ کسی بھی مکتب فکر کے علماء کرام کو پاکستان کی حدود کے اندر مسلح جدوجہد اور خود کش حملوں کے ناجائز ہونے میں تردد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن اس قسم کے اجتماعی فتوے کو حکومت جس طرح اپنی پالیسیوں کی حمایت اور اپنی سیاسی سپورٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے، اس کے لیے سنجیدہ علماء کرام تیار نہیں اور وہ اپنے تحفظات کا بار بار اظہار کر چکے ہیں، جن کا تذکرہ میں جناب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے طلب کردہ علماء کرام کے اجلاس کے حوالے سے گزشتہ کالم میں تفصیل کے ساتھ کر چکا ہوں۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی کہتے ہیں کہ انہیں مولانا سمیع الحق نے فون پر کہا کہ کل اسلام آباد میں علماء کرام کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے، اس کے لیے بدھ کو مشترکہ اعلامیہ کی تیاری کے لیے خصوصی میٹنگ ہے، وہ اس کے لیے اسلام آباد پہنچیں، جس پر وہ شام تک وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت تک صورت حال یہ تھی کہ وزارت مذہبی امور کی دعوت پر مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے اسلام آباد میں جمع ہونا تھا اور مشترکہ اعلامیہ کی تیاری کے لیے خصوصی کمیٹی قائم ہو گئی تھی، لیکن شام کو اسلام آباد پہنچنے تک صورت حال میں کچھ تبدیلی آ چکی تھی۔
کراچی سے مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ نہیں آ رہے، مولانا سلیم اللہ خان صاحب صاحبِ فراش ہیں، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق نے بھی خود شریک ہونے کی بجائے سیکنڈ لائن لیڈر شپ کو اجلاس میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، پروفیسر ساجد میر سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کسی نمائندے کو بھیج رہے ہیں، جبکہ مشترکہ اعلامیہ کی تیاری کے لیے خصوصی اجلاس کے سلسلے میں بھی حکومتی حلقوں نے رات تک کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ اس فضا میں جو لوگ اسلام آباد جمع ہو چکے تھے، انہوں نے رات مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر آپس میں مشاورت کی اور طے کیا کہ ہم بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، البتہ صبح پارلیمنٹ لاجز میں مولانا عبد الغفور حیدری کی قیام گاہ میں جمع ہو کر مشورہ کریں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ اس پر فون کے ذریعے باہمی رابطے ہوئے اور رات سونے سے پہلے یہ طے ہو گیا کہ جمعیت علماء اسلام کے دونوں گروپ، جماعت اسلامی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث وزارت مذہبی امور کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اور باقی امور کے بارے میں صبح مشاورت ہو گی۔
پروگرام کے مطابق صبح دس گیارہ بجے کے لگ بھگ مولانا عبد الغفور حیدری کی قیام گاہ پر احباب جمع ہوئے، جن میں مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عبد الغفور حیدری، جناب لیاقت بلوچ، مولانا راشد الحق سمیع، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا عبد الخالق شامل تھے۔ اس موقع پر مولانا مفتی منیب الرحمٰن اور حاجی حنیف طیب صاحب وہاں پہنچ گئے اور کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ حضرات اجلاس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اس لیے ہم آئے ہیں کہ آپ حضرات کو اجلاس میں شرکت کے لیے آمادہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ”مشترکہ اعلامیہ“ کا مسودہ ان حضرات کو دیا، جس پر مشترکہ اجلاس میں دستخط کرانے کا پروگرام تھا۔ ان حضرات نے کہا کہ جب مشترکہ اعلامیہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اس کے لیے ہم سے مشاورت نہیں کی گئی تو اجلاس میں شرکت کا فائدہ کیا ہے؟ ہمارے تحفظات میں سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کے اجلاسوں میں نہ ہمیں فیصلوں میں اعتماد میں لیا جاتا ہے اور نہ ہی ہم اجلاس میں جس موقف کا اظہار کرتے ہیں، اس کا اجلاس سے باہر کہیں ذکر ہوتا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ علماء کرام حکومتی موقف کی حمایت کے لیے جمع ہوئے تھے اور اسی کا اظہار کر کے چلے گئے ہیں۔ میڈیا پر بھی ہمارا موقف نہیں آتا اور حکومت بھی یکطرفہ بات کرتی ہے، اس لیے ہم نے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس موقع پر شرکائے اجلاس کو چائے پیش کی گئی، جس کے ساتھ ہلکے پھلکے لوازمات تھے، اس لیے کہ یہ سب حضرات ناشتہ کر کے آئے تھے۔ چائے کے دوران مولانا عبد الغفور حیدری کے خادم ایک ٹرے میں سوہن حلوہ ٹکڑیوں کی صورت میں لائے اور سب مہمانوں کو الگ الگ پیش کیا۔ مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عبد الغفور حیدری اور حاجی حنیف طیب نے ۔۔۔۔ کا مریض ہونے کی وجہ سے نہ کھایا، باقی حضرات نے ایک ایک ٹکڑا کھایا۔ اس کے بعد مولانا عبد الغفور حیدری نے مولانا مفتی منیب الرحمٰن اور حاجی حنیف طیب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم رات فیصلہ کر چکے تھے کہ اجلاس میں نہیں جائیں گے، لیکن آپ حضرات تشریف لائے ہیں تو ہم اس پر دوبارہ غور کر لیتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں مشاورت کی غرض سے کچھ وقت چاہیے اور ہم کم و بیش ایک گھنٹے تک آپ کو بتا سکیں گے کہ ہم اجلاس میں آ رہے ہیں یا نہیں؟ اس پر دونوں حضرات وہاں سے تشریف لے گئے اور باقی حضرات باہمی مشاورت کے لیے بیٹھے رہے۔ سب سے پہلے مولانا عبد الرؤف فاروقی نے تکلیف محسوس کی، جو بڑھتی چلی گئی، مولانا عبد الخالق نے انہیں پانی پلایا، جس سے کوئی فرق نہ پڑا۔ اتنی دیر میں مولانا عبد الخالق کو بھی تکلیف شروع ہو گئی۔ دونوں حضرات تکلیف کی شدت محسوس کر کے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ مولانا عبد الغفور حیدری کو آواز دی گئی تو انہوں نے بتایا کہ دوسرے کمرے میں جناب لیاقت بلوچ اور مولانا راشد الحق سمیع کی حالت بھی غیر ہوتی جا رہی ہے، چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کر کے ایمبولینسیں منگوائی گئیں اور ان حضرات کو پولی کلینک پہنچایا گیا۔
یہ حضرات اس وقت تک بے ہوش ہو چکے تھے اور ان کو رات گئے تک ہوش نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایمرجنسی میں ان کے معدے واش کیے اور ضروری علاج شروع کر دیا۔ ڈاکٹر صاحبان کا کہنا تھا کہ ان حضرات کی خوش قسمتی تھی کہ طبی امداد فوری مل گئی اور ہمارے پاس بھی ایمرجنسی کے تمام اسباب موجود تھے، ورنہ اگر پولی کلینک پہنچنے میں مزید بیس منٹ لیٹ ہو جاتے تو خدانخواستہ کوئی المناک سانحہ رونما ہو سکتا تھا۔ مولانا مفتی منیب الرحمٰن کو مشترکہ اجلاس کے دوران تکلیف محسوس ہوئی اور انہیں بھی ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ ان کے معدوں سے حاصل ہونے والا مواد لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جا رہا ہے، جس کے بعد حتمی بات کہی جا سکے گی، مگر ظاہری قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زہر اس حلوے میں تھا جو انہیں پیش کیا گیا، اور مولانا عبد الغفور حیدری کا کہنا ہے کہ یہ حلوہ کسی عقیدت مند نے رات کو انہیں پیش کیا تھا، انہوں نے اکرام کی خاطر مہمانوں کے سامنے رکھ دیا۔ یہ عقیدت مند کون تھا؟ تلاش بسیار کے باوجود اس کا سراغ نہیں مل رہا۔
بہرحال یہ بات پوری قوم کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے یہ سرکردہ علماء کرام، جو پوری قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں، اس حادثے یا سازش کے مکروہ انجام سے محفوظ رہے اور قوم کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھیں، لیکن یہ حادثہ تھا یا سازش؟ یہ معلوم کرنا اسلام آباد پولیس اور تفتیشی اداروں کے لیے امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ متعلقہ ادارے اس امتحان میں سرخرو ہوں، آمین یا رب العالمین۔