امریکی سفیر محترمہ وِنڈی چیمبرلِن اور اسلام کی کشش

   
اگست ۲۰۰۱ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نئی سفیر محترمہ وینڈی چیمبر لین باذوق خاتون لگتی ہیں جنہوں نے پاکستان میں اپنی تشریف آوری کے مقاصد میں سرکاری و منصبی ذمہ داریوں کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ ذاتی حیثیت سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی شامل کر لیا ہے۔ چنانچہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں اپنی آمد کے تین ہفتے بعد انہوں نے اپنے اس مشن کا آغاز کر دیا ہے اور وہ ہری پور ہزارہ کے قریب دو پہاڑی بستیوں میں جا پہنچی ہیں۔ جہاں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد سے ہٹ کر دیہات کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کے حالات براہ راست معلوم کرنا چاہتی ہیں اور ذاتی طور پر یہ سمجھنا چاہتی ہیں کہ اسلام میں وہ کون سی بات ہے جس کی وجہ سے آج بھی اس میں کشش موجود ہے اور لوگ بڑی تعداد میں مسلمان ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور اب تک ڈیڑھ ملین کے لگ بھگ افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔

محترمہ وینڈی چیمبر لین کا یہ تجسس بالکل بجا ہے اس لیے کہ آج کے مسلمانوں کی دگرگوں اخلاقی حالت اور سیاسی و معاشی زبوں حالی کے باوجود اگر کوئی شخص مسلمان ہوتا ہے اور اسلام کی تعلیمات میں اسے کشش محسوس ہوتی ہے تو بلاشبہ یہ اسلام کی کوئی بہت بڑی خوبی ہے جو ان حالات میں بھی اس کی کشش کو باقی رکھے ہوئے ہے اور ہمارا خیال ہے کہ امریکہ کی سفیر محترم نے اسی خوبی اور کشش کی تلاش میں اسلام آباد سے دور رہنے والے مسلمانوں کو براہ راست دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

محترمہ وینڈی چیمبر لین کے اس ارشاد سے دس سال قبل کا ایک واقعہ ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گیا جب امریکہ ہی سے ایک نومسلم خاتون ڈاکٹر ایم کے ہرمانسن پاکستان تشریف لائیں اور تھوڑی دیر کے لیے گوجرانوالہ بھی آئیں۔ موصوفہ نے کیلی فورنیا کی سان ڈیگو یونیورسٹی میں فلسفہ و تعلیمات کے فروغ کے لیے باقاعدہ ’’چیئر‘‘ قائم کر رکھی ہے بلکہ شاہ صاحبؒ کی معرکۃ الآراء ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کا انگلش میں ترجمہ بھی کر رہی ہیں۔ جو اس وقت ایک جلد کی حد تک ہو چکا تھا، امید ہے کہ اب تک باقی حصہ بھی مکمل ہو چکا ہو گا۔ قبولِ اسلام کے بعد انہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ پر ڈاکٹریٹ کیا تھا۔ اس دوران انہیں میرے چچا محترم مولانا صوفی عبد الحمید سواتی بانی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے بعض مقالات اور تصانیف سے استفادہ کا موقع ملا، جو شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و تعلیمات کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے وہ ان سے ملاقات اور بعض علمی اشکالات پر گفتگو کے لیے گوجرانوالہ آئی تھیں۔ ان کے خاوند پروفیسر محمد علوی ساتھ تھے جن کا تعلق وزیر آباد سے ہے اور ایک عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں۔

مدرسہ نصرۃ العلوم کی لائبریری میں ملاقات ہوئی جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔ اس موقع پر حضرت صوفی صاحبؒ نے اس نومسلم خاتون سے سوال کیا تھا کہ اس وقت دنیا میں ہم مسلمانوں کی حالت تو ایسی باعث کشش نہیں ہے کہ ہمیں دیکھ کر کوئی مسلمان ہو، آپ کیسے مسلمان ہو گئی ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ میں کسی مسلمان کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوئی، بلکہ قرآن کریم کے مطالعہ نے مجھے مسلمان کیا ہے اور اس حوالے سے انہوں نے تفصیلی واقعہ بیان کیا جس کے تذکرہ کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات اپنی جگہ پر ایک معروضی حقیقت ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد، اسلامی اخلاقیات کے عملی مظاہرہ، اور اسلامی معاشرت کا کوئی مثالی نمونہ پیش کرنے کے حوالے سے ہم آج کے مسلمانوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ اور کچھ افراد یا چند محدود ترین حلقوں سے قطع نظر ہمارا مجموعی تناظر کسی کو اسلام سے متنفر کرنے کا باعث تو بن سکتا ہے، اسے اسلام کے قریب لانے کا ذریعہ نہیں بن رہا۔

یہ ایک المیہ ہے جس میں امتِ مسلمہ کے تمام طبقات و افراد کے لیے غور و فکر کی دعوت موجود ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اگر اسلام کی دعوت پھیل رہی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں افراد مسلمان ہو رہے ہیں تو یہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کا اس دور میں معجزہ ہی کہلا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خالص موتی کو کتنی ہی تاریکیوں میں چھپا دو اور کتنی ہی غلاظتوں کے ڈھیر میں دبا دو، اس کی اصلیت ہر حال میں قائم رہتی ہے اور جب بھی اس کا کسی درجہ میں اظہار ہوتا ہے اس کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کیے بغیر نہیں رہتی۔

اس پس منظر میں ہم محترمہ وینڈی چیمبر لین کی اس خواہش اور عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن انتہائی ندامت اور شرمساری کے ساتھ یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی جس خوبی اور کشش کی انہیں تلاش ہے وہ ہم مسلمانوں میں گھومنے پھرنے سے شاید نہ ملے۔ اسے تلاش کرنے کے لیے انہیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہوگا اور ماضی کے ریکارڈ پر ایک نظر ڈالنی ہو گی، جہاں انہیں ان کے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ البتہ ایک اشارہ کر دینا شاید نامناسب نہ ہو کہ انسانی سوسائٹی کی اجتماعی عقل اور اکثریتی خواہشات کو ہر معاملہ میں ‘‘فائنل اتھارٹی‘‘ قرار دینے اور آسمانی تعلیمات کی ’’ڈکٹیشن‘‘ کو مسترد کر دینے والے مغربی فلسفہ نے آج کے انسانی معاشرہ میں ذہنی سکون، قلبی اطمینان اور ذوقیات و وجدانیات کا جو بحران اور خلا پیدا کر دیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ماضی سے راہنمائی اور دست گیری کی ضرورت محسوس ہو، اور اس کے لیے اسلام کے دامن میں محفوظ آسمانی تعلیمات اور اسلامی اخلاقیات کو اسٹڈی کیا جائے، تو کوئی سوال تشنہ جواب نہیں رہے گا اور محترمہ وینڈی چیمبر لین کو قریہ قریہ گھومنے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter