دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بریفنگ

   
۷ اکتوبر ۲۰۰۸ء

صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو طلب کر لیا ہے جس میں حساس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان پارلیمنٹ کے ارکان کو بریفنگ دیں گے، اجلاس میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور حکمتِ عملی وضع کی جائے گی۔ صدر اور وزیراعظم کا یہ اقدام موجودہ حالات میں یقیناً خوش آئند ہے، اس سے جہاں عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کا موقع ملے گا وہاں حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے عوام کے جذبات اور تاثرات سے مزید آگاہی حاصل کر یں گے۔

ملک میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کے عنوان سے سرفہرست ہے۔ اور اس جنگ کا پھیلاؤ جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے عوام کے اضطراب میں اضافے کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری اور ملکی سالمیت کے بارے میں سوالات میں بھی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ ’’دہشت گردی‘‘ کیا ہے اور اس کے خلاف جنگ کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے گزشتہ چند روز کے دوران قومی اخبارات کے ذریعے سامنے آنے والی بعض رپورٹوں اور خبروں پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

  • ۳۰ ستمبر کو شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے کرائے جانے والے ایک عالمی سروے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اپنے سب سے بڑے ہدف ’’القاعدہ‘‘ کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ۳۰ میں سے ۲۲ ممالک کے افراد کے مطابق اوسطاً ۲۲ فی صد رائے دہندگان کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے القاعدہ تنظیم کمزور ہوئی ہے جبکہ سروے میں شریک ۵ سے ۳ رائے دہندگان کہتے ہیں کہ اس جنگ کا القاعدہ پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ القاعدہ اس جنگ سے مضبوط ہوئی ہے۔
  • ۳۰ ستمبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے لاہور کے ایوان صنعت و تجارت کے کاروباری افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان اور قبائلی علاقوں میں تعلقات عامہ کی جنگ ہار چکے ہیں اور وہاں امریکہ کا پیغام نہیں پہنچا سکے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے متاثرہ علاقوں کے لیے ایک ارب ستر کروڑ ڈالر سالانہ دے رہا ہے لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیسہ وہاں خرچ ہونے کی بجائے درآمدی بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔
  • ۵ اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کے ترجمان مارکوسی نے اسلام آباد میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو دنیا کا نیا ’’وار زون‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ قبائلی علاقے مکمل میدانِ جنگ بن چکے ہیں، پاکستانی فوج طالبان کے خلاف برسرِ پیکار ہے، بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں، فورسز کی بمباری اور جنگجوؤں کے خوف سے اڑھائی لاکھ افراد نقل مکانی کر گئے ہیں اور کئی ہزار افغانستان میں داخل ہونے کے منتظر ہیں، ہزاروں افراد پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور وادیٔ سوات جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے۔
  • ۵ اکتوبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل پیٹریوسی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بغداد میں غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بعص لوگوں کا خیال ہے کہ عراق میں حاصل ہونے والے تجربے کو افغانستان میں استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن ہر جگہ صورتحال مختلف ہوتی ہے۔
  • یکم اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق اعلیٰ سفارتکار فرانسس فشال نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے حکمت عملی پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو مزید تباہی و بربادی سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سرگرمیوں اور حکمتِ عملی میں تبدیلی لائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی کاروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے باعث عوامی غم و غصہ میں اضافہ ہوا ہے جس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
  • ۴ اکتوبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ملکوں کے تمام انٹیلی جنس اداروں کے اہل کار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک اگلے ۷ برسوں میں بھی افغانستان کو زیر نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ لوگ اب بھی اتنے ہی مضبوط ہیں جتنے نائن الیون پر حملہ کے وقت تھے۔
  • ۶ اکتوبر کو روزنامہ پاکستان نے یہ خبر شائع کی ہے کہ افغانستان میں برطانوی کمانڈر بریگیڈیئر مازک اسمتھ نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں فیصلہ کن فتح ممکن نہیں اس لیے برطانیہ کو طالبان کے ساتھ ممکنہ ڈیل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں کمانڈر مازک اسمتھ نے کہا ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کا جنگ جیتنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس بارے میں عوام کو اپنی توقعات میں کمی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عسکریت پسندی کی سطح کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، یہ کام افغان فوج کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور طالبان سے مذاکرات کر کے مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جا سکتا ہے۔

گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران شائع ہونے والی بیسیوں خبروں اور رپورٹوں میں سے ان چند خبروں کا ہم نے بطور مثال حوالہ دیا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں امریکہ اور اتحادیوں نے گزشتہ ۷ برس میں کیا کچھ حاصل کیا ہے اور مستقبل قریب میں مزید کیا کچھ حاصل ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس جنگ کا نتیجہ اس کے سوا کچھ برآمد ہونے والا نہیں تھا اور ہم جنگ کے آغاز میں ہی اس خیال کا اظہار اس کالم میں کر چکے ہیں، اس لیے کہ اس جنگ کی بنیاد ہی مغالطوں اور فریب کاری پر تھی۔ مغالطوں اور فریب کاری کی اساس پر لڑی جانے والی جنگوں کا نتیجہ یہی ہوا کرتا ہے۔

  • ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف یہ جنگ دہشت گردی کا کوئی واضح مفہوم اور مصداق طے کیے بغیر لڑی جا رہی ہے۔ کسی گروہ یا ملک کو دہشت گرد قرار دینے اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ موجود نہیں، بلکہ یہ اختیار اتحادی افواج اور ان کے قائد امریکہ کے پاس ہے کہ وہ جس کو چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف عسکری یلغار کر دیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ طالبان اور القاعدہ دہشت گرد ہیں اس لیے ان کے خلاف جنگ ضروری ہے جبکہ طالبان اور القاعدہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور مڈل ایسٹ میں غیر ملکی مداخلت اور غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف اپنی آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان دونوں کا موقف سن کر غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ کرنے والا کوئی ایسا فورم دنیا میں موجود نہیں جس پر دونوں فریق اعتماد کرتے ہوں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں سے ہی لڑی جائے گی اور وہی غالب ہوگا جو طاقت اور ہتھیاروں سے دوسرے کو شکست دے گا۔
  • امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا ہے اور دنیا کو بھی مسلسل وہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان صرف دو طبقے ہیں جن کو زیر کرنے سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ صرف دو طبقے نہیں بلکہ افغان اور عرب عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ کسی قوم کو زیر کرنے میں آج تک کسی کو کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ کبھی اس کا امکان موجود ہے۔
  • امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کو غلط طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی محض غربت اور جہالت کی وجہ سے ہے اس لیے اگر مغربی تعلیم سے لوگوں کو بہرہ ور کر دیا جائے اور چار پیسے دے دیے جائیں تو فتح حاصل ہو سکتی ہے۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جسے دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے وہ دراصل امریکہ اور مغربی اقوام کی ان مسلسل زیادتیوں، نا انصافیوں اور مظالم کا ردعمل ہے جو وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ بالعموم اور فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بالخصوص طویل عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب تک ان زیادتیوں اور نا انصافیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا ان کے ردعمل کو روکنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت اسامہ بن لادن کو بتایا جاتا ہے جبکہ وہ اور ان کے گروپ کے افراد نہ غریب ہیں او رنہ ہی ان پڑھ ہیں۔

اس پس منظر میں ۸ اکتوبر کو عوام کے منتخب نمائندے اسلام آباد میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جمع ہو رہے ہیں تو ہم اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ بالآخر عوام کے منتخب نمائندوں کو اس کا موقع مل گیا ہے کہ وہ اس اہم ترین قومی مسئلہ پر باہمی تبادلۂ خیالات کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ گزارش بھی کرنا چاہیں گے کہ بلاشبہ پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے ہمارے لیے دو بڑے چیلنج ہیں:

  1. ایک یہ کہ وطن عزیز کی سرحدوں میں بیرونی مداخلت و حملوں کو روکنے اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔
  2. اور دوسرا یہ کہ ملک کے اندر خودکش حملوں میں مسلسل اضافہ اور ان میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا کیسے سدباب کیا جا سکتا ہے؟

ہم پاکستان کی سرحدوں کے اندر بیرونی حملوں اور اندرون ملک خودکش حملوں کی یکساں مذمت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ ہیں۔ البتہ یہ درخواست ہم ضرور کریں گے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے عمومی اور عالمی تناظر کو بھی سامنے رکھیں اور صورتحال کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ملک میں امن و امان کی بحالی، قومی خودمختاری کے تحفظ اور ملکی وقار کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter