مئی کے پہلے ہفتے میں عام طور پر دو حریت پسندوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ ایک سلطان ٹیپو شہیدؒ جس نے مشرقی ہند پر انگریزوں کی یلغار کا مسلسل مقابلہ کیا، بالآخر ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو سرنگاپٹم کے محاصرے کے دوران جام شہادت نوش کیا اور اس کی شہادت کے بعد اس کی لاش پر کھڑے ہو کر انگریزی فوجوں کے کمانڈر نے کہا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ دوسرا تذکرہ مئی کے پہلے ہفتے کے حوالے سے تاریخ میں شہدائے بالاکوٹ کا کیا جاتا ہے کہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جب اپنے جہادی مرکز کو کشمیر منتقل کرنے کے ارادے سے ہزارہ کے راستے کشمیر کی طرف سفر کر رہے تھے تو ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ کے مقام پر انہوں نے سکھ فوجوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ جبکہ اب ایک تیسرا حریت پسند اسامہ بن لادن شہیدؒ بھی ۲ مئی ۲۰۱۱ء کو مبینہ طور پر ایبٹ آباد میں امریکی چھاپہ ماروں کے ہاتھوں شہید ہو کر مئی کے شہداء کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
اسامہ بن لادن سعودی عرب کے ایک متمول خاندان بن لادن فیملی کا چشم و چراغ تھا۔ یہ خاندان سعودی عرب میں آل سعود کے شاہی خاندان کے بعد سب سے زیادہ متمول اور با اثر سمجھا جاتا ہے اور اس خاندان کی تجارتی چہل پہل آج بھی وہاں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کے تسلط کے خلاف جب وہاں کے علماء کرام اور عوام نے علمِ بغاوت بلند کیا تو انہیں ایک مسلمان ملک کی خودمختاری اور نظریاتی تشخص کی بحالی کے ساتھ ساتھ جہاد کے عمل کے احیا کے حوالے سے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں مختلف گروپ سوویت افواج کی مداخلت کے خلاف جہاد کے عنوان سے جنگ کا آغاز کر چکے تھے اور پاکستان کے سرکردہ علماء کرام بالخصوص حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک پوری بلند آہنگی کے ساتھ ان کی اس جنگ کو شرعی جہاد قرار دے کر ان کے حق میں مسلسل آواز بلند کر رہے تھے۔
مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے، جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شاگردوں اور عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ رکھتے تھے، پورے قبائلی علاقوں کا تفصیلی دورہ کر کے لوگوں کو جہاد افغانستان کی پشت پناہی اور اس میں شریک ہونے کے لیے تیار کیا۔ جبکہ مولانا مفتی محمودؒ نے صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کے بڑے شہروں میں پبلک جلسے منعقد کر کے کھلم کھلا اس موقف کا اظہار کیا کہ افغان مجاہدین صرف اپنے ملک کی آزادی کی نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں، اس لیے کہ سوویت یونین کی اگلی منزل پاکستان اور بلوچستان کا ساحل سمندر ہے۔ مولانا مفتی محمودؒ نے اس نعرے کے ساتھ جہاد افغانستان کے لیے پاکستان بھر میں ایک مستقل محاذ گرم کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم سوویت یونین کی یلغار سے بچتے بچتے امریکی یلغار کی زد میں آگئے ہیں اور اپنے اردگرد مغربی استعمار کے بنائے ہوئے حصار سے نکلنے کا کوئی راستہ سرِدست ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔
اسی دوران بہت سے عرب علماء بھی جہاد افغانستان کی حمایت میں سامنے آئے اور ان کی ترغیب پر ہزاروں عرب نوجوانوں نے افغان مجاہدین کے ساتھ شریکِ جہاد ہونے کا راستہ اختیار کیا۔ انہی میں ایک نوجوان اسامہ بن لادن شہیدؒ بھی تھے جو شہزادگی کی زندگی سے دستبردار ہو کر خاک نشینی کے ماحول میں آئے اور افغانستان کی پہاڑیوں میں جہاد کے لیے اپنی جان کے ساتھ ساتھ مال بھی وقف کر دیا۔ ان کے ساتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوان آئے اور عرب مجاہدین کے نام سے مجاہدین کا ایک مستقل تشخص سامنے آیا جس میں سعودی عرب کے علاوہ دیگر عرب ممالک کے لوگ بھی شامل تھے اور افغان مجاہدین کے ساتھ ساتھ پاکستانی مجاہدین اور عرب مجاہدین کی سرگرمیاں جہاد افغانستان کا مستقل حصہ بن گئیں۔
افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا تک امریکہ ان مجاہدین کی پشت پر تھا، پاکستان بھی ساتھ تھا، عرب ممالک بھی پشت پناہ تھے اور دنیا بھر کے ممالک کی حمایت انہیں حاصل تھی۔ مگر سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ مجاہدین خود اپنے حمایتیوں اور پشت پناہوں کی نظر میں معتوب ہوگئے اور ان سے جان چھڑانے کے لیے انہیں نظرانداز کر دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ انہیں عالمی سطح پر مجاہدین اور حریت پسندوں کا جو اعزاز حاصل تھا وہ ان سے واپس لے کر ان کے لیے دہشت گردی کا تمغہ تجویز کیا گیا اور ان کے مستقبل کا کوئی ایجنڈا طے کرنے کے لیے ان کی سرپرستی اور رہنمائی کرنے کی بجائے انہیں تنہا اور آزاد چھوڑ دیا گیا۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اگر جہاد افغانستان کے حمایتی ممالک اور قوتیں بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو تنہا چھوڑ دینے کی بجائے ان کے قائدین کو جمع کر کے ان کے مستقبل کی نقشہ گری میں مشاورت اور راہنمائی کا اہتمام کرتے تو دنیا کو آج جیسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیکن شاید بعض قوتیں یہی کچھ چاہ رہی تھیں جبکہ پوری دنیا کو اس کے تلخ ثمرات بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
عرب مجاہدین نے اپنے لیے ایک راستہ منتخب کر لیا کہ وہ عرب ممالک میں مغربی ممالک کی افواج کی موجودگی اور اس کے نتائج و عواقب کا سامنا کریں گے اور جیسے افغانستان میں سوویت یونین کے تسلط کے خاتمہ اور افواج کی واپسی کے لیے انہوں نے جہاد کیا ہے اسی طرح عرب ممالک میں مغربی ممالک کی فوجوں کی موجودگی اور مغربی بلاک کی پالیسیوں کی بالادستی کے خلاف جہاد کریں گے۔ اس جذبہ اور عزم کو انہوں نے ’’القاعدہ‘‘ کا نام دیا اور اس کی قیادت کے لیے شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ کو منتخب کر لیا گیا۔ شیخ اسامہ نے اس مقصد کے لیے خود کو اپنے تمام تر وسائل سمیت وقف کر دیا اور زندگی بھر اس کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انہیں اس مشن کے لیے ٹیم اور رفقا بھی مل گئے۔ ان کی ترجیحات اور طریقِ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس سلسلہ میں خود میرے تحفظات بھی تھے اور ہیں کہ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کے قیام اور اس کے استحکام تک کم از کم دس سال تک افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کے قیام اور اس کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک سب بہی خواہوں کو اپنی توجہ اسی نکتے پر مرکوز رکھنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔
اسامہ بن لادن شہیدؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا جبکہ آج تک عالمی سطح پر دہشت گردی کی کوئی تعریف طے نہیں کی گئی اور مغربی قوتوں کےموجودہ طرزعمل نے دہشت گردی، تحریک آزادی اور حریت پسندی کو گڈمڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس فضا میں ہر شخص آزاد ہے کہ جس کو چاہے دہشت گرد قرار دے دے۔ اس افراتفری میں اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دینے کی کوئی اصولی اور اخلاقی حیثیت نہیں، جو کچھ اس نے کیا ہے، وہ سب لوگ کر رہے ہیں، بلکہ اقوام متحدہ کا پرچم تھامے مغربی ملکوں کی فوجیں بھی وہ سب کچھ کر رہی ہیں جس کا الزام اسامہ بن لادن شہیدؒ پر لگایا جا رہا ہے۔
آج اگر کوئی بین الاقوامی کمیشن آزادی اور انصاف کے ساتھ تقابلی جائزہ لے سکے تو اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ بڑا دہشت گرد کون ہے اور موجودہ دور میں دہشت گردی کے اسباب و عوامل اور محرکات فراہم کرنے میں سب سے زیادہ کس کا ہاتھ ہے۔ اسامہ بن لادن کو جس ماحول میں شہید کیا گیا ہے اس سے متعلقہ سوالات روز بروز سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں مگر امن، سلامتی، انسانیت اور اخلاقیات کے علمبرداروں کا یہ کردار تاریخ کے دامن سے کبھی محو نہیں ہو سکے گا کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی خودمختاری کو کھلے بندوں پامال کیا گیا اور شہید کیے جانے والے کی لاش کو اس کے ورثا کے حوالے کرنے کا عام سا انسانی تقاضا پورا کرنے کا حوصلہ بھی شہید کرنے والوں میں نہیں پایا گیا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں شہید کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔