عالم اسلام کے دینی حلقے اور امریکہ بہادر

   
جنوری ۱۹۹۸ء

’’امریکہ اور عالم اسلام‘‘ کے عنوان سے الشریعہ کی اشاعت پیش خدمت ہے۔ اس موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ان مختصر صفحات میں ممکن نہیں ہے تاہم ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ عالم اسلام کے دینی حلقوں اور امریکہ کے درمیان دن بدن واضح تر ہونے والی فکری اور تہذیبی کشمکش کا عمومی منظر قارئین کے سامنے آجائے اور اس کشمکش میں دینی حلقوں کی پوزیشن اور موقف کا اندازہ ہو جائے۔

افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد جہاں سوویت یونین کی عظیم قوت بکھری ہے اور مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئی ہیں وہاں عالمی سطح پر طاقت کا توازن بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے بعد امریکہ ’’انا ولا غیری‘‘ کے نعرہ کے ساتھ دنیا کی تنہا چودھراہٹ کو مستحکم کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔ لیکن اس کے دل میں یہ خوف بھی بیٹھا ہوا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور جلد یا بدیر کسی نہ کسی طاقت کو اس کے مد مقابل آنا ہے اس لیے وہ مستقبل میں سامنے آنے کی صلاحیت رکھنے والی قوتوں کا اندازہ کر کے ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے:

  • امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ چین مستقبل قریب میں سامنے آسکتا ہے اور اگر ریاستہائے متحدہ یورپ کا خواب اپنی تعبیر سے عملی طور پر بہرہ ور ہو جاتا ہے اور اس کی قیادت جرمنی یا فرانس کے ہاتھ آجاتی ہے تو یہ بھی اس کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لیکن ان دونوں سے زیادہ خطرناک عالمِ اسلام ہے جو اگرچہ منتشر ہے، جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت سے محروم ہے اور سیاسی قیادت بے بہرہ ہے لیکن مراکش سے انڈونیشیا تک مسلسل آبادی رکھنے والی اس قوت کو اگر نظریاتی سیاسی قیادت مل جاتی ہے اور وہ مغربی ثقافت کے فریب کا جال توڑ کر اپنے ماضی کی طرف واپس پلٹ جاتی ہے تو اسے اپنی کمزوریوں اور خامیوں کی تلافی کرنے کے لیے چند سالوں سے زیادہ کا عرصہ درکار نہیں ہوگا اور اسے دنیا کی قیادت سنبھالنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
  • امریکہ کے دانشوروں کو یہ بھی نظر آرہا ہے کہ مسلم ممالک میں مغرب پرست حکمران گروہوں کی پیدا کردہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اسلامی تحریکات کا دائرہ دن بدن پھیلتا جا رہا ہے اور ان کے جوش و جذبہ، صلاحیت کار اور دائرہ عمل میں وسعت پیدا ہو رہی ہے۔
  • اس کے علاوہ مغربی لابیوں نے مسلم ممالک میں اسلام اور مغربی تہذیب کو گڈمڈ کر کے اسلام کا نیا ایڈیشن پیش کرنے کے لیے دو نمبر کی جو فکری قیادت کھڑی کی تھی اس کا طلسم ٹوٹ رہا ہے اور ملتِ اسلامیہ اصلی، خالص اور پرانے اسلام کی طرف واپس لوٹ رہی ہے۔

اس لیے آج عالم اسلام کے دینی حلقے اور مدارس و مراکز امریکہ کے نزدیک دشمنوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں اور وہ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں خالص اسلام کے عملی نفاذ کو روکنے اور اس کے علمبرداروں کو منتشر کرنے اور غیر مؤثر بنانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے۔ جبکہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے عنوان سے دینی حلقوں کی کردار کشی کے لیے بیشتر عالمی ذرائع ابلاغ وقف ہو کر رہ گئے ہیں۔

امریکہ نے عالم اسلام میں ان ’’خطرات‘‘ سے نمٹنے کے لیے ۱۹۹۱ء میں ہی منصوبہ بندی کر لی تھی جس کی تفصیلات زیر نظر شمارہ میں ڈاکٹر نور محمد غفاری ایم این اے کے مضمون میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ قارئین سے اسے بطور خاص ملاحظہ کرنے کی گزارش ہے کیونکہ امریکہ نے اپنی ترجیحات اور حکمتِ عملی اس میں بالکل واضح کر دی ہے اور اس کے بعد اس سلسلہ میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا کہ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ کے عزائم اور پروگرام کیا ہے؟ دینی حلقوں، مراکز و مدارس، جماعتوں اور شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی کشمکش کی موجودہ صورتحال کا صحیح ادراک حاصل کریں اور اپنی ترجیحات اور طرز عمل پر نظرثانی کر کے حوصلہ، تدبر اور منصوبہ بندی کے ساتھ یہ جنگ لڑیں۔ جب جنگ سر پر آ ہی پڑی ہے اور اسے لڑے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو بے دلی اور تذبذب کے ساتھ لڑنے کا فائدہ؟

   
2016ء سے
Flag Counter