گزشتہ ایک کالم میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کی سعودی عرب جلاوطنی پر تبصرہ کرتے ہوئے طاقت اور دولت کی کشمکش کے حوالہ سے کچھ عرض کرنے کا وعدہ کیا تھا اس لیے آج اسی سلسلہ میں کچھ گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد ملک کی باگ ڈور جن طبقات کے ہاتھوں میں چلی گئی وہ تین تھے: (۱) جاگیردار اور زمیندار (۲) بیوروکریٹس (۳) اور جرنیل صاحبان۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی آمد تک ملک کی اسٹیبلشمنٹ انہی تین طبقات سے عبارت رہی ہے۔ قائد اعظم مرحوم جلد دنیا سے رخصت ہوگئے اور وہ ویسے بھی ان میں سے کسی طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کی وفات کے بعد کوئی ایسی شخصیت باقی نہ رہی جو ان طبقات کو اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رکھنے اور ان کے درمیان توازن قائم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتی۔ اس لیے ان تینوں نے باہمی تعلقات کار خود طے کیے اور باری باری اس ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے پہلی بار اس تکون کو توڑنے اور اس میں دو نئے طبقات کو داخل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے تاجروں و صنعتکاروں اور علماء کرام کو اقتدار کے اس دائرہ میں شامل کرنا چاہا اور تاجروں و صنعتکاروں کی حد تک وہ کامیاب رہے کہ میاں محمد نواز شریف کی صورت میں تاجروں اور صنعتکاروں کے ایک نمائندہ کو وہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے، مگر علماء کرام اپنی انتہائی سادگی یا بہت زیادہ ہوشیاری کی وجہ سے اس گیم کا حصہ نہ بن سکے اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم تمام تر کوشش کے باوجود انہیں شریک کار بنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔
چنانچہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے بعد اقتدار کی باگ ڈور میں جاگیرداروں، زمینداروں، بیوروکریٹس اور جرنیلوں کے ساتھ تاجر و صنعتکار بھی خود کو برابر کا شریک سمجھنے لگے اور انہوں نے اقتدار اعلیٰ پر فائز ہوتے ہی ملک کو صنعتی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے اور اس طریقہ سے اپنی بالادستی اور برتری قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ دیگر طبقات کو اقتدار اور اختیارات میں ایک نئے طبقے کی شرکت ویسے ہی ہضم نہیں ہو رہی تھی اس لیے جب اس نئے طبقے نے اس شرکت کو مستحکم کرنے بلکہ بالاتر حیثیت دینے کے لیے اقدامات شروع کیے تو قوت ہاضمہ مزید کمزور ہوگئی اور یہ اسی بدہضمی کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف میاں محمد نواز شریف اپنے خاندان سمیت ملک بدر ہو چکے ہیں بلکہ صنعت و تجارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے تجارت و صنعت کے روایتی سسٹم کو برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہشمند قوتوں اور اس خطہ کو معاشی لوٹ کھسوٹ کا میدان بنانے کے لیے کوشاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا مفاد بھی اسی میں تھا کہ وہ اس طبقاتی کشمکش کو نہ صرف برقرار رہنے دیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں اور کبھی ایک کی اور کبھی دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا کر اپنا کام نکالتے رہیں۔ اگر سابق گورنر جنرل غلام محمد مرحوم کو بیوروکریسی کا، جنرل محمد ایوب خان مرحوم کو جرنیلوں کا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو جاگیرداروں کا اور میاں محمد نواز شریف کو تاجروں اور صنعتکاروں کا نمائندہ سمجھ کر اب تک کی صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں سے ہر ایک کی شخصی خوبیوں اور ذاتی کردار سے قطع نظر ایک بات سب میں قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے شخص واحد میں اختیارات کا ارتکاز اور شخصی وفاداریوں کا نیٹ ورک قائم کرنے کی مسلسل کوشش۔ جس میں ان میں سے کسی نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور ہر ایک نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شخصی وفاداری کے دائرہ میں شامل کرنے کے لیے ملک کے تمام تر وسائل کو ہر ممکن حد تک استعمال کیا۔ اسی وجہ سے ملک میں اسلام یا جمہوریت میں سے کسی کو پاؤں جمانے کا موقع نہیں مل سکا کیونکہ صاف ستھری جمہوریت قائم ہونے کی صورت میں عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے صحیح معنوں میں جواب دہ ہونے کا تصور مطلق العنانیت کے اس فلسفہ کے منافی ہے جو ان سب طبقات کے نمائندوں کا نصب العین قرار پا چکا تھا۔ اور اسلام کا عادلانہ نظام عملاً نافذ ہونے کی صورت میں طے شدہ اور ناقابل ترمیم اصولوں کی بہرحال پابندی نے بھی اس فلسفہ کو کھوکھلا کر دینا تھا۔ اس لیے ان سب میں یہ انڈر اسٹینڈنگ موجود رہی ہے کہ اسلام یا جمہوریت میں سے کسی کو پاکستان میں قدم نہ جمانے دیا جائے۔ اور نصف صدی کے ناقابل تردید شواہد اور حقائق گواہ ہیں کہ اس معاملہ میں ان سب نے وقت آنے پر ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا۔
اس پس منظر میں میاں محمد نواز شریف جنرل محمد ضیاء الحق کی شہ پر اعلیٰ سطح پر اقتدار کی اس دوڑ میں شریک ہوئے اور خود کو تاجر و صنعتکار طبقہ کا نمائندہ سمجھتے ہوئے انہوں نے اقتدار کے معاملات کو ڈیل کرنا شروع کیا۔ چونکہ تاجر تھے اور ہر معاملہ پیسوں سے حل کرنے کے عادی تھے اس لیے انہوں نے یہاں بھی دولت ہی کا ہتھیار سب سے زیادہ استعمال کیا اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اقتدار کی چوکور میں شریک دوسرے طبقات کو پیچھے دھکیلنے میں مصروف ہوگئے۔ غلام اسحاق خان کو ایوان صدر سے رخصت کرنے کی مہم میں انہیں خود بھی وزیراعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا مگر انہیں حوصلہ ہوا کہ بیوروکریسی سے محاذ آرائی ان کے لیے کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ فاروق احمد لغاری کو پہلے اختیارات سے محروم کر کے اور پھر ایوان صدر سے رخصت کرکے وہ یہ سمجھے کہ جاگیردار طبقہ کو بھی انہوں نے شکست دے دی ہے اور جب وہ جنرل جہانگیر کرامت سے استعفٰی لینے میں کامیاب ہوگئے تو اپنے خیال میں وہ پوری طرح فارم میں آچکے تھے بلکہ انہوں نے اس سے قبل ایک چوتھا محاذ بھی جسٹس سجاد علی شاہ کو گھر بھجوا کر سر کر لیا تھا۔ اس لیے انہیں اپنے راستے میں فوج کے سوا اور کوئی مؤثر رکاوٹ اب دکھائی نہیں دے رہی تھی اور اسی رکاوٹ کو دور کرنے کی غرض سے انہوں نے بارہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے وہ اقدامات کیے جن کا نتیجہ آج ساری قوم کے سامنے ہے۔
اگرچہ میاں نواز شریف ملک میں واپس آنے، سیاست میں حصہ لینے اور اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے عندیہ کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ غالباً کی کوشش بھی کریں گے مگر ہمارے خیال میں معاملات پھر جنرل محمد ضیاء احق مرحوم سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے گئے ہیں اور اقتدار کی سابقہ تکون نہ صرف بحال ہوگئی ہے بلکہ کسی نئے طبقہ کی شمولیت کے بارے میں پہلے سے زیادہ حساس بھی ہو چکی ہے۔ اس تکون کو توڑنا تاجروں اور صنعتکار طبقہ کے بس کی بات نظر نہیں آرہی کہ پہلے راؤنڈ میں ہی اس کا سانس پھولنے لگا ہے۔ اس لیے قومی، سیاسی اور اقتدار اعلیٰ کی دوڑ میں شریف خاندان کی واپسی کی بات کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ البتہ مسلم لیگ کے اس دوڑ میں شریک رہنے کا امکان وجود ہے لیکن وہ تاجروں اور صنعتکاروں کی نمائندہ نہیں ہوگی بلکہ حسب سابق جاگیرداروں اور زمینداروں کے مفادات کے تحفظ کا رول سنبھال لے گی اور وہی اس کا اصلی رول ہے۔
جاگیرداروں، نوکر شاہی اور جرنیلوں کی اس تکون کو توڑنے کی صلاحیت صرف ایک طبقہ کے پاس ہے اور وہ ہے دینی جماعتیں۔ جن کے پاس عقیدہ ہے، مستقل فلسفہ حیات ہے، متبادل نظام ہے اور ہر سطح پر عقیدہ و ایثار کے جذبہ سے سرشار کارکنوں کی کھیپ ہے۔ لیکن ان کی موجودہ قیادت شخصی ترجیحات اور وقتی مفادات کے خول سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ بعض دینی قائدین کی سرگرمیاں دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ دوسروں کے سامنے دینی حلقوں کی نمائندگی کرنے کی بجائے دینی حلقوں کے سامنے دوسروں کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لیے جب تک دینی جماعتوں کو بلند حوصلہ قیادت نہیں ملتی اور ان کی ترجیحات درست نہیں ہوتیں اس وقت تک نہ صرف یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی اس تکون کے عزائم اور پروگرام کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کا راستہ بھی پوری طرح کلیئر ہے کیونکہ جب رکاوٹیں خود ہی ساتھ بہنے کے لیے تیار ہوں تو سیلاب کو گھروں میں داخل ہونے سے کون روک سکتا ہے؟