صدر جنرل پرویز مشرف ان سطور کی اشاعت تک امریکہ کے دورے پر روانہ ہو چکے ہوں گے۔ وہ صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں اور ان کا سرکاری دورہ ۱۲ فروری سے ۱۴ فروری تک ہوگا جس کے دوران وہ صدر بش سے تفصیلی مذاکرات بھی کریں گے جبکہ اس سے قبل وہ امریکہ پہنچنے کے بعد غیر سرکاری مصروفیات بھگتائیں گے۔ صدر پرویز مشرف کے اس دورہ کو عالمی حلقوں میں خاصی اہمیت دی جا رہی ہے اور امریکی سفارت کاروں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اس موقع پر پاکستان کی امداد کا کوئی بڑا پیکیج دیا جا رہا ہے جس سے بعض حلقے بہت زیادہ خوش دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی اور وطن عزیز بہت سی معاشی مشکلات کے بھنور سے نکل آئے گا۔ دوسری طرف ملک کے سیاسی و دینی حلقوں میں بھی ’’پرویز بش مذاکرات‘‘ کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے کیونکہ مستقبل کے بہت سے معاملات کا انحصار ان مذاکرات پر سمجھا جا رہا ہے:
- آئندہ عام انتخابات ہوں گے یا نہیں اور ان انتخابات کا دائرہ اور رخ کیا ہوگا؟
- دینی جماعتوں کو قومی سیاست میں آزادانہ اور سرگرم کردار ادا کرنے کا موقع ملے گیا یا ان کی سرگرمیوں کو مزید محدود کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے گی؟
- سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملنے والی کلیئرنس کے بعد صدر پرویز مشرف دستورِ پاکستان میں جو مبینہ ترامیم لا رہے ہیں ان کا رخ کس سمت ہوگا؟
- آئین کے اسلامی تشخص اور بنیادوں کے بارے میں بین الاقوامی حلقے جو مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں وہ صدر پرویز مشرف کی دستوری ترامیم میں کس حد تک اثر انداز ہوگا؟
- مقبوضہ کشمیر میں بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے مسلح جہادی تحریکات کی حمایت کا جو تسلسل اب تک قائم ہے، وہ برقرار رہے گا یا اسے ختم کر کے ’’مذاکرات کی میز‘‘ تک مسئلہ کشمیر کو محدود کر دیا جائے گا؟
- فلسطین، بیت المقدس اور دیگر حوالوں سے بہت سے بین الاقوامی مسائل کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں میں ملت اسلامیہ اور مسلم ممالک کو بہرحال ترجیح دینے کی روش برقرار رہے گی یا اسے عالمی برادری کے ’’اجتماعی رجحانات‘‘ میں تحلیل کر دیا جائے گا؟
یہ اور اس قسم کے اور بہت سے اہم اور نازک سوالات کے جوابات کا انحصار ان مذاکرات پر ہے جو ۱۳ فروری ۲۰۰۲ء کو وائٹ ہاؤس میں صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے درمیان ہو رہے ہیں اور اسی وجہ سے کسی بھی سیاسی یا دینی حلقے سے تعلق رکھنے والا ہر باشعور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ اور صدر بش کے ساتھ ان کے مذاکرات کے نتائج کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ حلقوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ پاکستان کے کھاتے میں ان مذاکرات کے نتیجے میں کتنے ڈالر منتقل ہوتے ہیں؟ اور کچھ حلقے اس انتظار میں ہیں کہ عالم اسلام اور جنوبی ایشیا کے حوالہ سے امریکہ اور اس کی زیر قیادت عالمی اتحاد کی پالیسیوں اور پروگرام کا کون سا نیا رخ سامنے آتا ہے؟ یہ اپنے اپنے ذوق اور ظرف کی بات ہے۔
عالمی امداد کے حوالہ سے تو ہمارے بعض مہربان امریکہ کی طرف سے اب تک ملنے والی امداد سے بھی خوش ہیں اور انہیں اس بات کا غم ہے کہ ہم اس امداد پر امریکہ کی شکر گزاری کا حق ادا نہیں کر رہے۔ چنانچہ ہمارے محترم جنرل (ر) نشاط احمد صاحب کا یہ انٹرویو گزشتہ روز ایک قومی روزنامہ میں صفحہ اول پر شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ:
’’اچھی خاصی معاشی امداد بھی مل رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم ناشکرے لوگ ہیں، کوئی کچھ بھی کر دے ہم کہتے ہیں کہ کچھ نہیں کیا، یہ بچگانہ رویہ ہے۔‘‘
یہ معاشی امداد کس مقدار میں ہے اور پاکستان کی ضروریات اور حالیہ بحران میں اس کے نقصانات کے ساتھ اس امداد کا تناسب کیا ہے؟ یہ امداد کون کون سی قربانیوں کے عوض ملی ہے؟ اور پاکستان کو اس امداد کے عوض آئندہ کیا کچھ امریکی خواہشات کی بھینٹ چڑھانا ہے؟ ہمارے جنرل صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں البتہ یہ فکر انہیں پریشانی اور شرمندہ کر رہی ہے کہ ان ڈالروں کے عوض پاکستانی قوم امریکہ کے حضور سجدہ ریز کیوں نہیں ہوئی اور اتنے ڈالر مل جانے کے بعد بھی پاکستانیوں کے جذبات نے اپنے ’’معاشی آقا‘‘ کے لیے سراپا تشکر کی شکل اختیار کیوں نہیں کی؟ مگر اس سے قطع نظر ہم صدر پرویز مشرف کے دورہ امریکہ کے موقع پر ان کی خدمت میں دو گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں جو یقیناً ان کے ذہن میں بھی ہوں گی مگر یاددہانی کے لیے یہ معروضات ہم ضروری سمجھتے ہیں:
- پہلی بات یہ ہے کہ صدر محترم کو یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وائٹ ہاؤس میں ان کی پذیرائی اور مقبولیت نارمل حالات میں نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی نارمل اور معمول کے حالات میں اس کا تصور تک کیا جا سکتا ہے۔ یہ پذیرائی اور مقبولیت کچھ خاص توقعات کے حوالہ سے ہے اور امریکی قیادت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ عالم اسلام اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اس کے ایجنڈے اور پروگرام کو آگے بڑھانے میں صدر پرویز مشرف اس کے لیے زیادہ بہتر معاون اور مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور اسی لیے امریکی قیادت نے اپنے بہت سے ضابطوں اور اصولوں کو وائٹ ہاؤس میں صدر پرویز مشرف کے خیرمقدم کے لیے نظر انداز کر دیا ہے۔
ہمیں صدر پرویز مشرف کی حب الوطنی میں کوئی شک نہیں ہے، ہم انہیں ایک باشعور اور محب وطن پاکستانی سمجھتے ہیں اور اسی اعتماد پر ان سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ انہیں اب صدر بش سے مذاکرات کے دوران پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی ایجنڈے اور پروگرام کے لیے تعاون کی کوئی حد طے کر دینی چاہیے اور امریکی راہنماؤں کے سامنے ایک واضح لکیر کھینچ دینی چاہیے کہ ہم اس حد تک جا سکتے ہیں اور چونکہ اس سے آگے ہمارے ملی تشخص، ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کی حدود شروع ہو جاتی ہیں اس لیے اس سے آگے بڑھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ملی تشخص، ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کی حدود کو جنرل پرویز مشرف بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ہمیں اس سلسلہ میں ان کے فہم پر بھروسہ ہے اس لیے اس کی تفصیلات میں جائے بغیر ان سے درخواست ہے کہ ان معاملات کو اب مزید مبہم چھوڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، اور حدودکار اور تعاون کے دائروں کی واضح حد بندی کے بغیر امریکی اتحاد کے ایجنڈے کے ساتھ مزید آگے بڑھنا پاکستان کے تشخص، وحدت، سالمیت اور خودمختاری کے بارے میں بہت بڑا رسک لینے کے مترادف ہوگا۔
- دوسری گزارش اگرچہ صدر محترم کو محسوس ہوگی لیکن ہمارے لیے عرض کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ صدر محترم کا خیال ہے کہ ہمیں صرف پاکستان کے معاملات تک محدود رہنا چاہیے اور دوسرے مسلمان ملکوں کے معاملات میں دلچسپی نہیں لینی چاہیے، وہ اسے ٹھیکیداری سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کا ارشاد ہے کہ ہم ساری دنیا کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ سلطنت خداداد پاکستان جس کی صدارت پر جنرل پرویز مشرف فائز ہیں، قائم ہی اس لیے ہوئی تھی کہ دنیا میں اسلامی تہذیب کا احیا کرے، اسلامی طرز حیات کی نمائندگی کرے اور ایک مثالی اور آئیڈیل کے طور پر باقی دنیائے اسلام کی راہنمائی کرے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان امور کی دوٹوک صراحت کی ہے اور ان کی حیات و خدمات سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اس لیے ملت اسلامیہ کے مفادات اسلامی طرز حیات کی نمائندگی اور اسلامی تہذیب کے دنیا بھر میں احیا کی بات کرنا اگر ’’ٹھیکیداری‘‘ ہے تو قائد اعظم کے واضح ارشادات کی روح میں ہم ٹھیکدار ہیں اور اس ٹھیکیداری سے انکار پاکستان کے مقصد قیام کی نفی ہے کیونکہ یہ بات پاکستان کے خمیر میں شامل ہے۔
اس پس منظر میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کا ذاتی خیال کچھ بھی ہو مگر اسلام کی ٹھیکیداری کے لیے قائم ہونے والے پاکستان کے صدر کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عالمی فورم پر اسلام کی بات کریں، اسلامی تہذیب و ثقافت کی بات کریں اور ملت اسلامیہ کے مفادات کی بات کریں۔ اور صرف یہ نہ دیکھیں کہ مغرب اور اس کی قیادت اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے بلکہ یہ منظر بھی سامنے رکھیں کہ عالم اسلام کے جذبات مغربی اتحاد کے موجودہ طرز عمل کے بارے میں کیا ہیں۔ اور دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۱۳ فروری کے مذاکرات میں صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش سے اس مسئلہ پر بات کریں کہ امریکی اتحاد اسلامی تہذیب و عقائد اور عالم اسلام کے خلاف اپنی مہم کو کس حد تک آگے لے جانا چاہتا ہے؟
یہ منظر تو سب کے سامنے ہے کہ مغرب اور ملت اسلامیہ کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور سیاست و معیشت کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کے حوالہ سے بھی کشمکش دن بدن تیز ہو رہی ہے۔ اس لیے امریکی اتحاد کے سربراہ سے اس سلسلہ میں دوٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ امریکی اتحاد عالم اسلام کے ساتھ اپنے سارے معاملات کو جنگ، دباؤ اور قوت کے زور پر ہی طے کرنا چاہتا ہے یا مغرب اور عالم اسلام کے درمیان باوقار گفتگو، ڈائیلاگ اور مذاکرات کی کوئی گنجائش بھی باقی رہ گئی ہے؟ ہمارے خیال میں اگر صدر جنرل پرویز مشرف ان مذاکرات میں اور ان مذاکرات کے حوالہ سے عالم اسلام کو اس تذبذب سے نکالنے کے لیے کوئی نتیجہ خیز کردار ادا کر سکں تو یہ ان کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہوگا اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو اپنا آئندہ موقف اور پروگرام طے کرنے میں بہت آسانی ہو جائے گی۔