انسانی حقوق اور اسوۂ نبویؐ

   
تاریخ: 
۳ جولائی ۲۰۰۰ء

(۳ جولائی ۲۰۰۰ء کو ۱۱ بجے دن ڈسٹرکٹ کونسل ہال گوجرانوالہ میں محکمہ اوقاف پنجاب کے زیر اہتمام سالانہ ڈویژنل سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت محکمہ اوقاف کے زونل ایڈمنسٹریٹر نے کی جبکہ کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن جناب خوشنود اختر لاشاری مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس سے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی خطاب کیا، ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے محکمہ اوقاف پنجاب کا شکر گزار ہوں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کے حوالہ سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں شرکت اور آپ حضرات سے گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ سیرت نبویؐ پر گفتگو کرنے والا اپنی بات شروع کرنے سے پہلے اس الجھن میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس وسیع و عریض چمنستان کے سدا بہار پھولوں میں سے کس کا انتخاب کرے اور کسے چھوڑے کیونکہ اس باغ کے ہر پھول کی خوشبو نرالی ہے اور کسی ایک کو چھوڑ کر آگے نکل جانے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسی کشمکش میں، میں نے آج کے دور میں زیر بحث آنے والے سب سے بڑے موضوع کے حوالہ سے سیرت طیبہ کے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنے کا ارادہ کیا ہے اور وہ ہے ’’انسانی حقوق‘‘ کا موضوع جو آج کا سب سے اہم عنوان ہے اور دنیا بھر میں اس پر گفتگو اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف اور شفاف سیرت مبارکہ کو ہم نہ آج کی دنیا کے سامنے تحریر و تقریر کی صورت میں صحیح طور پر پیش کر رہے ہیں اور نہ ہی ہماری عملی زندگی میں اس کی کوئی جھلک پائی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود ہم مسلمانوں کا وجود اسلامی تعلیمات اور جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ تک نسل انسانی کی رسائی میں رکاوٹ اور حجاب بن کر رہ گیا ہے۔ بہرحال آج کی دنیا کا سب سے اہم موضوع ’’انسانی حقوق‘‘ ہے اور مغرب آج کی نسل کیانسانی کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ اس نے انسانوں کو حقوق کا شعور بخشا اور ان کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ لیکن تاریخ کے میزان پر یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عنوان سے حقوق کا جو تعارف اور تفصیلات قرآن کریم میں چودہ سو برس پہلے سامنے آچکی ہیں آج کا کوئی نظام خدا اور اس کے بندوں کے درمیان اور پھر خود انسانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں اس طرح کا جامع تصور اور نظام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جناب سرور کائناتؐ کی سیرت طیبہ میں بے شمار واقعات ہیں جن میں آنحضرتؐ نے انسانوں بلکہ جانوروں تک کے حقوق کی وضاحت کی ہے، ان کی ادائیگی کی تلقین کی ہے اور اپنے حقوق کی پاسداری کے جذبہ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ آج کی مجلس میں انہی میں سے چند واقعات کا تذکرہ کرنا چاہ رہا ہوں۔

ابو داؤد شریف کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہؐ ایک دفعہ مدینہ منورہ کے کسی باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک کمزور اور لاغر سا اونٹ کھڑا تھا، رسول اکرمؐ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنی زبان میں کچھ شکایت کرنے لگا۔ نبی کریمؐ نے دریافت کیا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا کہ یا رسول اللہ! یہ اونٹ میرا ہے۔ اس پر آپؐ نے اسے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس جاندار کے حقوق میں کوتاہی نہ کرو۔ پھر فرمایا کہ اس اونٹ نے تمہارے بارے میں دو شکایتیں کی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس سے کام اس کی ہمت سے زیادہ لیتے ہو اور دوسری یہ کہ اسے اس کی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں دیتے۔ یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے، اس پر ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور ضرورت کے مطابق خوراک مہیا کرو۔ اس سے اندازہ کر لیجئے کہ جناب نبی اکرمؐ نے نہ صرف انسانوں کے بلکہ جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں اور ان میں کوتاہی کو ظلم قرار دیا ہے۔

ابوداؤد شریف ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز پیدل کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے، ایک صحابیؓ نے جو گدھے پر سوار تھے، دیکھا تو حضورؐ کے پاس آکر آپ سے درخواست کی کہ اس کے ساتھ گدھے پر سوار ہو جائیں۔ یہ کہہ کر وہ صحابی گدھے پر اپنی جگہ سے پیچھے ہٹے تاکہ نبی اکرم ان سے آگے بیٹھ جائیں۔ مگر جناب رسول اکرمؐ نے یہ کہہ کر آگے بیٹھنے سے احتراز فرمایا کہ ’’صاحب الدابۃ احق بصدرھا‘‘ جانور کا مالک آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں بخوشی اپنے اس حق سے دستبردار ہوتا ہوں تو اس کے بعد آپؐ گدھے پر اس کے آگے بیٹھ گئے۔ یہ بات بظاہر ایک عام اور معمولی سی لگتی ہے لیکن اس میں نبی کریمؐ کی یہ سنت اور تعلیم موجود ہے کہ باہمی حقوق کا احترام کس قدر ضروری ہے اور حقوق کے بارے میں بڑے چھوٹے کی کوئی ترجیح نہیں ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ تشریف فرما تھے، آپ کے دائیں جانب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیٹھے تھے اور بائیں جانب حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی تھے اور ام المؤمنین حضرت میمونہؓ ان کی حقیقی خالہ تھیں اس لیے دونوں آنحضرتؐ کے بھانجے بھی لگتے تھے۔ اس مجلس میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں کوئی مشروب پیش کیا گیا جو آپؐ نے نوش فرمایا جس کا کچھ حصہ بچ گیا تو وہ بائیں جانب بیٹھے ہوئے حضرت خالد بن ولیدؓ کو دینا چاہا جبکہ یہ حق دائیں جانب والے کا بنتا تھا جو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تھے، جو اگرچہ چھوٹے بچے تھے اس لیے کہ رسول اکرمؐ کی وفات کے وقت حضرت عبدا للہ بن عباسؓ کی عمر صرف پندرہ برس تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان سے اجازت مانگی اور پوچھا کہ تم اجازت دو تو یہ بچا ہوا مشروب بائیں جانب والے کو دے دوں؟ مگر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ میں آپ کے تبرک کے بارے میں خود پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہ جواب سن کر حضورؐ نے پیالہ انہی کو دیا لیکن روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’تلہ فی یدہ‘‘ پیالہ زور سے ان کے ہاتھ میں تھما دیا جس کے بارے میں شارحین کہتے ہیں کہ اس انداز میں ناگواری کا پہلو جھلکتا تھا۔ اس واقعہ پر غور کر کے نتیجہ اخذ کیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جی بائیں جانب پیالہ دینے کو چاہتا تھا لیکن جس کا حق تھا اس سے اجازت مانگنا ضروری سمجھا، اور اجازت نہ دینے پر اگرچہ ناگواری بھی ہوئی مگر پیالہ دیا اسی کو جس کا حق تھا خواہ وہ چھوٹا بچہ ہی تھا۔ اس سے زیادہ دوسرے کے حق کے احترام اور اپنے حق کے لیے اڑ جانے کے جذبہ کی حوصلہ افزائی کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔

یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے اور اس کی تفصیلات حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کر دی جس کا نام بریرہؓ تھا۔ وہ لونڈی ہونے کی حالت میں مغیثؓ نامی ایک نوجوان کے نکاح میں تھی۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر لونڈی کا اس کے مالک نے کسی سے نکاح کر دیا ہو اور اس کے بعد کسی مرحلہ پر وہ لونڈی آزاد ہو جائے تو اسے یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے خاوند کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔ بریرہؓ کو یہ مسئلہ معلوم تھا اس لیے اس نے اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے مغیثؓ سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مغیثؒ کو پتہ چلا تو بہت پریشان ہوا کہ اچھا خاصا گھر اجڑ رہا ہے۔ اس نے مختلف طریقوں سے بریرہؓ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کر لے مگر بریرہؓ نے کوئی بات سننے سے انکار کر دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ مغیثؓ کی پریشانی اس حالت تک پہنچ گئی کہ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں دیوانہ وار آنسو بہاتا پھرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ خدا کے لیے کوئی بریرہؓ کو اس فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے آمادہ کرے۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ کے سامنے اس تعجب کا اظہار کیا کہ اس کی محبت دیکھو کہ وہ گلیوں میں آنسو بہاتا پھر رہا ہے اور بریرہؓ کی نفرت دیکھو کہ وہ اس کا نام سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر خود جناب نبی اکرمؐ نے بریرہؓ سے مغیثؓ کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے بلا کر اس خواہش کا اظہار فرمایا۔ آنحضرتؐ کی زبان مبارک سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی بات سن کر بریرہؓ نے ایک سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حکم ہے یا محض سفارش؟ سوال پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ مومنہ تھی اور صحابیہؓ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر حکم ہوا تو اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کسی بات کا حکم دے دیں تو پھر کسی مومن مرد یا عورت کا یہ حق باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ اس کے بعد اپنا اختیار استعمال کریں۔ اس لیے بریرہؓ نے اس کی وضاحت چاہی اور جب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ یہ حکم نہیں بلکہ صرف سفارش ہے تو اس نے فورًا کہہ دیا کہ مجھے اس (مغیثؓ) کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

آپ غور فرمائیے کہ سفارش کرنے والے کون ہیں؟ کائنات میں اس سے بڑی اور کوئی سفارش نہیں ہو سکتی۔ لیکن اپنے حق پر اڑتے ہوئے اس سفارش کو قبول نہ کرنے والی کون ہے؟ ایک عام خاتون جو چند روز پہلے تک کسی کی لونڈی تھی اور اب خود جناب نبی کریمؐ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی خادمہ ہے۔ لیکن کیا مجال کہ اس کے اس فیصلے پر آنحضرتؐ کی پیشانی پر کوئی بل آیا ہو یا آپؐ نے اس کے بعد اسے کبھی جتلایا بھی ہو حالانکہ وہ بطور خادمہ اکثر حضرت عائشہؓ کے پاس ہی رہتی تھی۔ آج ہمارا کوئی ماتحت ہماری سفارش رد کر کے دیکھے کہ پھر اس کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن جناب رسول اکرمؐ نے اس کے بعد کبھی اس کا ذکر تک نہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے نہ صرف حقوق کا تعین کیا ہے، ان کی وضاحت کی ہے اور ان کی ادائیگی کی تلقین کی ہے بلکہ اپنے حق کے لیے اڑ جانے والے کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے اور کسی کو اس کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دی۔

حضرات محترم ! یہ چند واقعات میں نے انسانی حقوق کے حوالہ سے جناب رسول اکرمؐ کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کی طرف توجہ دلانے کے لیے عرض کیے ہیں اور آخر میں پھر یہی عرض کرتا ہوں کہ یہ آج کی دنیا کی ضرورت ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ کو دنیائے انسانیت کے سامنے صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے ہم سنجیدگی کے ساتھ محنت کریں کیونکہ آج نسل انسانی کو جو مشکلات اور مسائل درپیش ہیں ان کا حل اسی میں ہے۔

2016ء سے
Flag Counter