عام انتخابات کے انعقاد کے ایک ماہ بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے وزیر اعظم اور اسپیکر کا الیکشن جیت کر حکومت بنا لی ہے، اور ان سطور کی اشاعت تک نئی حکومت کے خدوخال اور عزائم واضح ہو چکے ہوں گے۔ اس سے قبل صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی آئین میں کی گئی نئی ترامیم اور چند ماہ قبل کرائے جانے والے صدارتی ریفرنڈم کے تحت آئندہ پانچ سال کے لیے صدر کے عہدہ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اور اس کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف رہنے کا بھی اعلان کر دیا ہے جسے اپوزیشن حلقوں کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی اور جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اکثریتی پارٹی کی طرف سے اسے قبول کیے جانے کے بعد اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آئندہ نظامِ حکومت اسی دائرہ میں چلے گا جو صدر جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترامیم کر کے متعین کیا ہے۔
میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد سے اب تک ملک جن حالات سے گزرا ہے، اور بے یقینی اور تذبذب کے جو مختلف مراحل اس دوران ملک و قوم پر آئے ہیں، ان میں دینی نقطۂ نظر سے ہمارے لیے کسی حد تک اطمینان کا یہ پہلو موجود رہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدر جنرل پرویز مشرف کو نظریۂ ضرورت کے تحت آئین میں ضروری ترامیم کی اجازت دیتے ہوئے دستور کے بنیادی ڈھانچے اور اسلامی دفعات کے تحفظ کو ضروری قرار دے دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بیرونی دباؤ عملاً اثر انداز نہ ہو سکا جو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کا درجہ دینے کے لیے ایک عرصہ سے مسلسل چلا آ رہا ہے۔
اطمینان کا دوسرا پہلو اس دوران یہ سامنے آیا کہ پرویز حکومت نے افغانستان کے مسئلہ پر قومی پالیسی میں جو یوٹرن لیا، اور جس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ اسے ملک کے عوام کی حمایت حاصل ہے، حالیہ عام انتخابات میں قوم کے ایک بڑے حصہ نے اس کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ جس کا ثبوت دینی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلسِ عمل‘‘ کی وہ کامیابی ہے جس نے دینی جماعتوں کے اتحاد کو قومی سیاست کی صفِ اول میں لا کھڑا کیا ہے، اور اس تاثر اور پروپیگنڈا کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان کی دینی جماعتوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔
متحدہ مجلسِ عمل کی انتخابی کامیابی کے بعد اس کی پالیسی کے حوالے سے یہ بات مزید خوشی اور اطمینان کی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے ملک کی خارجہ پالیسی، قومی خود مختاری اور دستور کی بالادستی کے بارے میں اپنے اصولی موقف اور عوام کے جذبات کے احترام کو برقرار رکھا ہے، اور اقتدار کی بھاگ دوڑ میں ان اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ہمارے نزدیک اگر متحدہ مجلس عمل مرکز میں اقتدار کی کشمکش سے بالکل الگ رہتی، اور اپنی سیاسی قوت کو صرف مذکورہ بالا اصولوں کی بالادستی کے لیے ہی استعمال کرتی، تو یہ اس کے لیے زیادہ باوقار بات ہوتی۔ تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے تگ و دو کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے حکومت سازی کے مذاکرات میں ہر مرحلہ پر متحدہ مجلس عمل نے قومی خودمختاری اور دستور کی بالادستی کو اولیت دی ہے اور اپنے ووٹروں کے جذبات کی پاسداری کی ہے۔
بہرحال اس پس منظر میں ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ جناب ظفر اللہ جمالی کی سربراہی میں قائم ہونے والی مسلم لیگی حکومت پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کی پاسداری کرتے ہوئے قومی خودمختاری کی بحالی، ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمہ، اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کی طرف پیشرفت کرے گی۔ اور اگر اس نے ان تقاضوں کو اپنی پالیسی ترجیحات میں اولیت دی تو اس کی عوامی حمایت میں بھی یقیناً اضافہ ہو گا۔ خدا کرے کہ ایک دینی اور محبِ وطن گھرانے سے تعلق رکھنے والے جناب ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم کے طور پر ان توقعات پر پورے اتر سکیں، آمین یا رب العالمین۔