۲۷ تا ۲۹ دسمبر ۲۰۰۸ء کو مانسہرہ (ہزارہ) کے قراقرم ہوٹل میں ’’سائنس اور مذہب کے درمیان مکالمے‘‘ کے عنوان سے تین روزہ قومی سیمینار تھا جس کا اہتمام ’’سوسائٹی آف انٹرایکشن آف ریلیجین، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پاکستان‘‘ نے کیا۔ یہ سوسائٹی ہمارے محترم دوست پروفیسر عبد الماجد کی سربراہی میں اس حوالہ سے ایک عرصہ سے مصروف کار ہے اور دیگر سرگرمیوں کے علاوہ ہر سال اس موضوع پر ’’نیشنل سیمینار‘‘ کا انعقاد کرتی ہے۔ دو سال قبل بھی اس سیمینار میں مجھے شرکت کا موقع ملا تھا۔ سیمینار میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور علماء کرام کے علاوہ طلبہ اور طالبات کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی ہے، مختلف عنوانات پر مقالات پڑھے جاتے ہیں اور سوال و جواب کا دور ہوتا ہے۔ سیمینار کی رپورٹ اور سوسائٹی کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں اس کی ویب سائیٹ sirst.org سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ پروفیسر عبد الماجد اس موضوع پر بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بیرون ملک بھی جاتے ہیں اور سوسائٹی کا عالمی سطح پر تعارف موجود ہے۔ مجھے سیمینار کی آخری نشست میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا جو ۲۹ دسمبر کو صبح دس بجے سے دو بجے تک منعقد ہوئی۔
سائنس میرا موضوع نہیں لیکن مجھے اس سے دلچسپی ضرور ہے، اس لیے جب بھی اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور بحث و مباحثے کا موقع ملتا ہے اپنی معلومات میں اضافے کی خاطر اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ چنانچہ ڈیڑھ سال قبل اگست ۲۰۰۷ء کے دوران امریکہ کے شہر ہیوسٹن جانا ہوا تو میں نے اپنے میزبانوں سے اصرار کر کے امریکہ کے خلائی تحقیقاتی مرکز ’’ناسا‘‘ کا دورہ کیا اور دیگر بہت سی چیزوں کے علاوہ وہ اپالو بھی دیکھا جو چاند پر گیا تھا بلکہ اس کے اندر جا کر اس کے کاک پٹ وغیرہ کا مشاہدہ کیا۔ وہاں خلائی سفر کے حوالے سے مختلف شرعی احکام پر گفتگو بھی ہوئی۔
میں نے مانسہرہ کے نیشنل سیمینار کے شرکاء کو ’’ناسا‘‘ کے اس دورے کے تاثرات و مشاہدات سے آگاہ کیا اور ان شرعی مسائل کے بارے میں بتایا جو خلائی سفر کے حوالے سے سامنے آ رہے ہیں۔ مثلاً مجھے بتایا گیا کہ جب خلائی جہاز زمین کے مدار سے نکل کر خلا میں چلا جاتا ہے تو اس کے گرد سورج کی وہ گردش جو زمین کے گرد چوبیس گھنٹے میں مکمل ہوتی ہے، صرف نوے منٹ کی رہ جاتی ہے۔ یہ بات سن کر میرا ذہن فورًا قرآن کریم کی اس آیت کی طرف چلا گیا جس میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارا ایک ہزار سال تمہارے رب کا ایک دن بنتا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ جب زمین کے ساتھ والے خلا میں چوبیس گھنٹے نوے منٹ میں سمٹ جاتے ہیں تو اس کے اوپر والے خلا میں، پھر اس کے بھی اوپر والے خلا میں کیا ہوتا ہوگا؟ قران کریم کے اس ارشاد پر میرے ایمان و یقین میں اور تازگی آگئی۔ مگر اس سلسلہ میں شرعی مسئلہ یہ سامنے آیا کہ کیا ایک مسلمان خلا باز کو سورج کی گردش کے اس نوے منٹ کے دوران پانچ نمازیں ہی پڑھنا ہوں گی؟ میں نے ناسا ہی کی ایک مجلس میں اس کا جواب دیا کہ نمازیں تو پانچ ہی پڑھنا ہوں گی۔ تو ایک دوست نے سوال کیا کہ اگر وہ نوے منٹ میں پانچ نمازیں پڑھیں گے تو یہ شٹل کون کنٹرول کرے گا جس کی رفتار اٹھارہ ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ بتائی جاتی ہے۔
نیشنل سیمینار میں شریک علماء کرام سے خطاب کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ یہ اور اس جیسے درجنوں سوالات آپ حضرات کی علمی اور اجتہادی صلاحیتوں کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان معروضی حقائق اور مشاہدات سے انکار ممکن نہیں ہے، شریعتِ اسلامیہ کے اصول و ضوابط کے دائرے سے باہر نکلنے کی گنجائش بھی نہیں ہے اور ان مسائل کا حل بھی تلاش کرنا ہے۔ حقائق و مشاہدات کو نظرانداز کر دینا مسئلہ کا حل نہیں ہوتا بلکہ ان کا سامنا کرنا اور اپنے اصول پر قائم رہتے ہوئے مسائل کا حل نکالنا ہی اہل علم کی اصل ذمہ داری ہوتی ہے۔ مجھے ناسا میں بتایا گیا تھا کہ خلا میں نماز سے متعلقہ بعض مسائل کے بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک یہودی پروفیسر نے اپنی ویب سائٹ پر جواب دیا ہے کہ فقہاء اسلام نے معذور کی نماز کا جو طریقہ لکھا ہے وہی ان خلا بازوں کے لیے بھی ہے کہ اپنے حالات و ظروف کے مطابق جس طرح بھی آسانی کے ساتھ وہ نماز پڑھ سکیں اسی طرح پڑھ لیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا اس یہودی پروفیسر کا یہ جواب درست ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے۔ سیمینار میں متعدد دیگر نکات پر بھی میں نے گفتگو کی جس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
مجھ سے پہلے فاضل مقرر جناب ڈاکٹر ارشاد احمد شاکر نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ تہذیب کی بنیاد عقیدہ پر ہوتی ہے، میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے بطور مثال یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مغرب کے تمام تر فلسفہ کی بنیاد مادیت پر ہے کہ یہ کائنات جو کچھ بھی ہے، مادہ کی خودبخود تبدیلی ہوتی ہوئی مختلف شکلیں اور اس کے مرحلہ وار مظاہر ہیں، مادہ خود ہی متحرک ہے اور مختلف شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب سب کچھ خودبخود ہی ہو رہا ہے تو اپنا ایجنڈا، سسٹم اور ہدف طے کرنا بھی اسی کا کام ہے اور اسے باہر سے کسی ڈکٹیشن کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی بنیاد پر مغرب کا کہنا ہے کہ سوسائٹی اپنا ایجنڈا خود طے کرے گی، اپنا نظام خود بنائے گی، اپنا نفع و نقصان خود سمجھے گی اور ہر معاملے میں اس کی اپنی سوچ ہی حرفِ آخر ہوگی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات نہ خودبخود وجود میں آئی ہے اور نہ ہی خودبخود چل رہی ہے بلکہ اسے ایک بالاتر قوت نے بنایا ہے اور وہی قوت اسے چلا رہی ہے۔ اس لیے کائنات کا نظام، ایجنڈا اور پھر اس کے اندر انسانی سوسائٹی کا نظام اور ایجنڈا تشکیل دینا بھی اسی قوت کا کام ہے جس نے اسے بنایا ہے اور جو اسے چلا رہی ہے۔ اس لحاظ سے اسلام اور مغرب کے درمیان صرف تہذیب ہی کا ٹکراؤ نہیں بلکہ عقیدہ کا ٹکراؤ بھی ہے، اور ایمان و عقیدہ کے اس ٹکراؤ نے ہی تہذیب و ثقافت کی کشمکش کا روپ دھار رکھا ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ جب اسلام اور سائنس کے درمیان مکالمے کی بات ہوتی ہے اور مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تو مجھے بہت تعجب ہوتا ہے، اس لیے کہ مکالمے اور مفاہمت کی بات تو وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اسلام اور سائنس میں تو کوئی ٹکراؤ سرے سے نہیں ہے۔ سائنس اسلام کے لیے چیلنج نہیں بلکہ اس کی موید ہے، اور اسلام سائنس کا حریف نہیں بلکہ اس کی ضرورت کو تسلیم کرتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مغرب اپنا پس منظر ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہ مغرب کا پس منظر ہے کہ سائنس دانوں نے جب تحقیقات و انکشافات کا سلسلہ شروع کیا تو مغرب کی مذہبی قیادت بالخصوص پاپائے روم نے اسے مذہب سے انحراف اور الحاد قرار دے کر سائنس دانوں کو سزائیں دینا شروع کر دیں، بے شمار سائنس دان موت کی گھاٹ اتار دیے گئے اور بہت سے سائنسدانوں کو ناکردہ گناہوں پر معافی نامے لکھنے پڑے۔ گلیلیو (Galileo) کو، جسے جدید سائنس کا بانی کہا جاتا ہے، پوپ کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور اس کی زندگی کا آخری حصہ جیل میں گزرا۔ گلیلیو کو سترہویں صدی عیسوی کے وسط میں پوپ کی طرف سے دی جانے والی سزا پر بیسویں صدی کے آخر میں پوپ جان پال دوم نے معافی مانگی جبکہ موجودہ پاپائے روم بینی ڈکٹ نے چند روز قبل ایک تقریب میں گلیلیو کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔
سائنس کے حوالے سے یہ مغرب کا پس منظر ہے، ہمارا نہیں۔ ہمیں گلیلیو سے کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ ہم تو اس وقت خود یورپ میں بیٹھے سائنس کی ترقی کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور مغرب کو سائنس کی تحقیقات کی بنیاد اور سہولتیں فراہم کر رہے تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے مغرب کا پس منظر اور ہے اور ہمارا پس منظر اس سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن مغرب ہم سے اپنے پس منظر میں بات کرتا ہے اور اپنا پس منظر ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مغرب کی عادت اور مزاج ہے کہ وہ دوسری قوموں کے پس منظر کا لحاظ نہیں کرتا اور اپنی بات ہی ان پر ٹھونستا چلا جاتا ہے، بالخصوص یہی صورتحال انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب میں اب سے دو سو برس قبل جو صورتحال تھی وہ ہمارے ہاں نہیں تھی۔ مغرب کو انسانی حقوق کے بارے میں جن مراحل سے گزرنا پڑا ہے ہمیں چودہ سو سال کی پوری تاریخ میں وہ مراحل درپیش نہیں آئے۔ لیکن مغرب اپنے پس منظر، نتائج اور اس کے ردعمل کو ہم پر بھی ٹھونسنا چاہتا ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مغرب تو جو کچھ کر رہا ہے کر ہی رہا ہے، لیکن ہمارے اپنے بہت سے دانشور بھی سائنس، انسانی حقوق، مذہب اور دیگر شعبوں میں ہم سے مغرب ہی کے پس منظر میں بات کرتے ہیں اور اسی کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نہیں اور نہ ہی سائنس اسلام کے لیے کسی بھی درجے میں چیلنج یا مسئلہ ہے۔ البتہ سائنس کے ارتقاء اور اس کے تجربات و مشاہدات نے ہمارے لیے فقہی طور پر کچھ مسائل ضرور پیدا کیے ہیں جن کا حل ہم نے تلاش کرنا ہے اور اس کے لیے اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حوالہ تو پہلے دے چکا ہوں، اب دوسرے مسئلہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا تعلق ہمارے علم کلام اور عقائد کے حوالے سے ہمارے تعلیمی نصاب سے ہے۔
ایک دور تھا جب سائنس کو زمین کے مدار سے باہر جھانکنے کے لیے وسائل میسر نہیں تھے اور چاند، ستاروں اور فلکیات کے بارے میں بھی عقلی طور پر ہی اندازے لگائے جاتے تھے۔ تب سائنس کو فلسفہ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فلسفہ و سائنس کو ایک ہی موضوع سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ہمارے دینی مدارس میں فلکیات کا مضمون ایک عرصہ سے پڑھایا جا رہا ہے لیکن اسے معقولات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب سائنس کو خلا میں جانے اور زمین کے مدار سے نکلنے کے راستے مل گئے اور عقلی اندازوں کی بجائے فلکیات کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تو وہ معقولات کے دائرے سے نکل کر مشاہدات و محسوسات اور تجربات کے دائرے میں آگئی، اور سائنس کو معقولات کا حصہ سمجھنے کی بجائے ایک مستقل علم کی حیثیت دے دی گئی۔ مگر ہمارے ہاں دینی مدارس میں اب بھی فلکیات کو معقولات کے مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور سائنس کو مستقل مضمون کا درجہ ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔ ہمیں اس قسم کے مسائل کا سامنا ضرور ہے جن کا حل وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا رہے گا، مگر مغرب کی مسیحیت اور دو سو سال قبل کی پاپائیت کی طرح ہمیں نہ سائنس سے کوئی شکایت ہے اور نہ ہم سائنس کو اسلام کا حریف تصور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسلام اور سائنس کے حوالے سے بات کرنے والے دوستوں سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس کا ضرور خیال رکھیں۔
آخری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں عام طور پر دینی علوم اور دنیاوی علوم کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، دینی علوم کو الگ اور دنیوی علوم کو الگ تصور کیا جاتا ہے، یہ بات درست نہیں۔ ہمارے ہاں علوم کی تقسیم دین اور دنیا کی نہیں بلکہ نافع اور ضار کی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم کے لیے دعا فرمائی ہے جو نفع دینے والا ہے اور اس علم سے پناہ مانگی ہے جو نفع دینے والا نہیں یا ضرر دینے والا ہے۔ اس لیے جو علم بھی انسان کے لیے ایک فرد کے طور پر یا سوسائٹی کے حوالے سے نفع دینے والا ہے وہ ہمارا مطلوب و مقصود ہے، اور جو علم ضرر دیتا ہے یا نفع بخش نہیں ہے وہ ہمارے مقاصد سے خارج ہے۔ البتہ ہمارے نفع و نقصان کے دائرے باقی دنیا سے مختلف ہیں اور ہمیں بہرطور ان کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ مثلاً اسلام فرد اور سوسائٹی دونوں کے نفع کی بات کرتا ہے لیکن صرف وقتی نفع نہیں بلکہ مستقبل کا نفع و نقصان بھی اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔ ایک چیز وقتی طور پر فرد یا سوسائٹی کے لیے فائدہ مند ہے لیکن انجام کار اور آخری نتائج کے حوالے سے نقصان دہ ہے تو اسلام اس کا بھی راستہ روکتا ہے۔ مثلاً:
- سود کو لے لیجئے کہ وقتی طور پر سود لینے اور دینے والے دونوں ہی کو فائدہ پہنچتا ہے اور سوسائٹی کو بھی فوری طور پر اس کا کوئی نقصان نہیں، چنانچہ اسی بنیاد پر مغرب نے سود کو جائز بلکہ ضروری قرار دے رکھا ہے۔ لیکن سود کا آخری نتیجہ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اور دولت کی تقسیم کا توازن بگڑنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جس کا آج کی دنیا تجربہ کر چکی ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی معاشی بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ اسلام نے سود کے اس حتمی اور آخری نتیجے کو سامنے رکھ کر اسے سرے سے ناجائز قرار دے دیاہے، یہی اس مسئلہ کا فطری حل ہے۔
- اسی طرح مغرب کے نزدیک انسان کے نفع و نقصان کا دائرہ صرف اس دنیا تک محدود ہے، اسے آخرت سے کوئی غرض نہیں او رنہ قبر و حشر سے کوئی دلچسپی ہے، اس لیے وہ اپنے علوم اور اعمال دونوں حوالوں سے صرف دنیوی نفع و نقصان کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔ مگر اسلام انسان اور انسانی سوسائٹی کا صرف دنیا کا نفع و نقصان نہیں دیکھتا بلکہ اس کے علاوہ دو باتیں اور بھی اس کے پیش نظر ہوتی ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ انسان کو جس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کے خالق و مالک نے اس کے لیے زندگی کا جو ایجنڈا دیا ہے اس کے حوالے سے اس کا نفع و نقصان کیا ہے؟ (۲) اسی طرح انسان نے صرف دنیا میں ہی نہیں رہنا، قبر میں بھی جانا ہے اور حشر کے مراحل سے بھی گزرنا ہے۔ اس تناظر میں اس کے لیے نفع و نقصان کا معیار کیا ہے؟ اسلام ان تینوں حوالوں سے دیکھتا اور اسی بنیاد پر انسان کے لیے علوم اور اعمال کے ضابطے طے کرتا ہے، اور یہی دینِ فطرت کا اصل رنگ ہے۔