روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۵ء کے مطابق پنجاب کے وزیر تعلیم میاں عطا محمد مانیکا نے کہا ہے کہ
’’پرائمری سکولوں میں انگریزی ٹیچر کی بھرتی کے معاملات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کیونکہ ورلڈ بینک چاہتا ہے کہ بی اے پاس اساتذہ بھرتی نہ ہوں بلکہ بی اے، بی ایڈ ٹیچر بھرتی کیے جائیں۔‘‘
آپ حیران ہوں گے کہ پنجاب کے پرائمری سکولوں میں انگریزی ٹیچر بھرتی کرنے کے معاملہ سے ورلڈ بینک کا کیا تعلق ہے؟ مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ورلڈ بینک، جو سراسر مغربی مفادات کا محافظ اور امریکی خواہشات کا ترجمان ہے، دھیرے دھیرے پاکستان کے قومی شعبوں کو کنٹرول کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے تمام مالیاتی اداروں میں ورلڈ بینک کے نمائندے نگرانی اور کنٹرول کے لیے بیٹھ چکے ہیں، واپڈا کے مراکز کو ان کی نگرانی میں دیا جا رہا ہے، اور اب ہم تعلیمی معاملات حتٰی کہ پرائمری سکولوں میں انگریزی ٹیچر کی تعیناتی کے مسئلہ پر بھی ’’ورلڈ بینک چاہتا ہے‘‘ کے حوالے سے بات کرنے پر مجبور ہیں۔ اور اس طرح ورلڈ بینک کے نام سے ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی ہم پر حکمران بنتی جا رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر مغل حکمرانوں کے دورِ زوال کا نقشہ ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے ہے۔ مغل شہزادوں کی عیش پرستی، لوٹ کھسوٹ اور اقتدار کی خاطر باہمی خانہ جنگی کا کردار ہماری حال اور ماضی کی حکمران پارٹیوں نے سنبھال رکھا ہے، اور ایسٹ انڈیا کمپنی جگہ لینے کے لیے ورلڈ بینک بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ البتہ شاہ عبد العزیز دہلویؒ والا خانہ ابھی خالی ہے جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے مزاحمت کی تحریک کا تاریخ ساز اعلان کیا تھا، دیکھیں یہ سعادت کس خوش نصیب کے حصے میں آتی ہے۔