سود کے بارے میں حضرت عمرؓ کا ایک فیصلہ

   
۸ مارچ ۱۹۹۹ء

ان دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ میں سود کے بارے میں وفاقی حکومت کی دائر کردہ رٹ زیرسماعت ہے۔ یہ رٹ سودی قوانین کو غیر شرعی قرار دینے کے سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف چند سال قبل دائر کی گئی تھی۔ دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل مطالبہ تھا کہ یہ رٹ واپس لی جائے، چنانچہ اب حکومت نے وفاقی شرعی عدالت میں اس فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سے اپنی رٹ واپس لینے کی درخواست بھی دائر کی ہے۔ مگر سپریم کورٹ کے شریعت بینچ نے رٹ واپس کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کی مسلسل سماعت شروع کر دی ہے۔

رٹ کی سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کے ریمارکس کے حوالہ سے مختلف نکات قومی پریس کے ذریعے سامنے آرہے ہیں جن میں اجتہاد کی اہمیت اور اس کے دائرہ کار کا نکتہ بطور خاص قابل توجہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پر ملک کے اہل علم کو توجہ دینی چاہیے اور اس نازک مرحلے پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں قوم کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہلِ علم قوم کی راہنمائی نہیں کر رہے، کیونکہ ارباب علم و دانش نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور اس موضوع کے کم و بیش تمام پہلوؤں کو کھنگال ڈالا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ علمی زبان میں ہے اور ضخیم کتابوں میں ہے جس سے اہلِ علم ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ اصل ضرورت ہے کہ ان مسائل کو عام فہم انداز اور صحافتی زبان میں مختصر مضامین کی صورت میں اخبارات و جرائد کے ذریعہ منظر عام پر لایا جائے۔ تاکہ عام پڑھے لکھے حضرات بھی اس کی اہمیت سے واقف ہو سکیں اور ان کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات موجود ہیں یا پیدا کیے جا رہے ہیں ان کے ازالہ کی کوئی صورت پیدا ہو۔ ہم بھی ان شاء اللہ العزیز اجتہاد اور اس سے متعلقہ ضروری امور پر ان کالموں میں طالب علمانہ گفتگو کریں گے مگر سردست صرف ایک نکتہ پر ایک واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں سود پر بحث کے دوران ایک معزز جج نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ سود کے حکم میں علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس کے ساتھ کیا جائے تو بالکل برابری شرط ہے اور اس میں کمی بیشی کی کوئی صورت درست نہیں ہے۔ تو کیا جب سونے کی ڈلی کا تبادلہ سونے کے زیورات کے ساتھ کیا جائے گا تب بھی برابری ضروری ہو گی؟

اس سوال میں غور طلب پہلو یہ ہے کہ زیور کی تیاری میں جو محنت خرچ ہوتی ہے وہ کس کھاتے میں جائے گی؟ اس سوال پر تفصیلی بحث تو فاضل جج صاحبان، وکلاء، اور علماء کرام کریں گے اور ہم بھی ان کے ارشادات کے منتظر ہیں۔ البتہ گزشتہ روز مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حدیثِ نبویؐ کی معروف کتاب ’’سنن ابنِ ماجہ‘‘ کے سبق کے دوران حضرت فاروق اعظمؓ کے دور کا ایک واقعہ سامنے آگیا جس میں کم و بیش اسی نکتے پر امیر المومنین حضرت عمرؓ کا ایک واضح فیصلہ موجود ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

امام ابن ماجہؒ نے یہ واقعہ سنتِ نبویؐ اور احادیثِ رسولؐ کی اہمیت کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے سامنے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد پیش کیا جاتا تھا تو وہ اس کے بعد کوئی اور بات سننے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ اور اگر کوئی صاحب ارشادِ نبویؐ سامنے آنے کے بعد بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے تو اس پر اکابر صحابہؓ کا ردعمل بڑا شدید ہوتا تھا اور وہ اس پر سخت غصے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس پر امام ابن ماجہؒ نے متعدد واقعات نقل کیے ہیں جن میں سے ایک واقعہ امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب کے دورِ خلافت کا ہے۔

حضرت امیر معاویہؓ ان کی طرف سے شام کے گورنر تھے اور روم کے خلاف عسکری مہموں کی قیادت کیا کرتے تھے۔ انصارِ مدینہؓ میں سے ایک بزرگ صحابی حضرت عبادۃ بن الصامتؓ بھی شام میں رہتے تھے اور رومیوں کے خلاف جنگوں میں حضرت معاویہؓ کے ساتھ ان کی زیرِ قیادت شریک رہا کرتے تھے۔ حضرت عبادۃ بن الصامت انصاریؓ اکابر صحابہ کرامؓ میں سے ہیں اور ان بارہ نقباء میں شامل ہیں جنہوں نے جناب نبی اکرمؐ کی ہجرت سے پہلے یثرب سے مکہ مکرمہ جا کر آپؐ کے دستِ اقدس پر اسلام قبول کیا تھا اور آنحضرتؐ کو یثرب (مدینہ منورہ) تشریف آوری کی دعوت دی تھی۔ رومیوں کے خلاف ایک معرکہ میں حضرت معاویہؓ کی زیرِ قیادت حضرت عبادۃ بن الصامتؓ بھی شریک تھے۔ لشکر کا گزر ایک ایسے علاقہ سے ہوا جہاں کے لوگ چاندی کی ڈلیوں کا تبادلہ چاندی کے دراہم کے عوض، اور سونے کی ڈلیوں کا تبادلہ سونے کے دیناروں کے عوض کمی بیشی کے ساتھ کر لیا کرتے تھے۔ حضرت عبادۃ بن الصامتؓ نے یہ دیکھ کر وہاں کے لوگوں سے کہا کہ یہ تو سود ہے اور تم لوگ سود کھاتے ہو، جبکہ جناب رسول اللہؐ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ امیر لشکر حضرت معاویہؓ نے یہ بات سنی تو حضرت عبادۃ بن الصامتؓ سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ اس طرح نقد تبادلے میں سود نہیں ہے اور سود صرف ادھار تبادلے کی صورت میں بنتا ہے۔ حضرت عبادۃ بن الصامتؓ یہ بات سن کر ناراض ہوگئے، سخت غصے میں آئے اور فرمایا کہ

’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور آپ اس کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار کر رہے ہیں؟ بخدا یہاں سے واپس جانے کے بعد میں کسی ایسے علاقے میں نہیں رہوں گا جہاں آپ کی امارت ہو۔‘‘

سفر سے واپسی پر حضرت عبادۃ بن الصامتؓ شام چھوڑ کر سیدھے مدینہ منورہ چلے گئے اور امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب سے ملے۔ انہوں نے شام چھوڑنے کی وجہ پوچھی تو سارا قصہ بیان کر دیا اور اپنی قسم کا بھی ذکر کیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت عبادۃؓ کو واپس شام جانے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ ایسے علاقہ میں خیر و برکت باقی نہیں رہتی جسے آپ جیسے حضرات چھوڑ کر آجائیں۔ اس کے ساتھ ہی امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب نے امیر شام حضرت معاویہؓ کے نام خط لکھا کہ عبادۃ بن الصامتؓ شام میں ہی رہیں گے لیکن آپ کی امارت ان پر لاگو نہیں ہوگی۔ اور سود کے بارے میں جو مسئلہ انہوں نے بیان کیا ہے، لوگوں سے اسی پر عمل کرائیں کیونکہ صحیح مسئلہ وہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter