قادیانی گروہ کو برطانوی استعمار نے جنوبی ایشیا پر اپنے تسلط کے دوران امت مسلمہ میں فکری انتشار پیدا کرنے اور مسلم معاشرے میں استعمار کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنے کے لیے جنم دیا اور سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا۔ چنانچہ قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے اپنے اعتراف کے مطابق برطانوی استعمار کے اس ’’خودکاشتہ پودے‘‘ نے استعمار کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ برطانوی استعمار سے جنوبی ایشیا کی آزادی اور تقسیم ہند کی صورت میں ایک نئی مسلم ریاست ’’پاکستان‘‘ کے قیام کے بعد بھی یہ گروہ مسلسل استعمار کے مقاصد کے لیے کام کر رہا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت مشرقی صوبہ پنجاب کے ضلع گورداسپور کو سازش کے تحت پاکستان سے الگ کر کے بھارت میں شامل کیا گیا جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں داخلے کا راستہ ملا اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل محاذ آرائی کے لیے کشمیر کا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا۔ کشمیر میں بھارت کی مسلسل فوجی جارحیت کشمیری عوام کو ان کی آزادانہ مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ گورداسپور کو بھارت میں شامل کرانے اور بھارت کو گورداسپور کے راستے کشمیر میں فوجی مداخلت کا موقع فراہم کرنے کی اس سازش میں بنیادی کردار قادیانی گروہ کا تھا۔ اس نے گورداسپور کے ضلع میں آبادی کا تناسب طے کرنے کے موقع پر خود کو ریڈکلف کمیشن کے سامنے مسلمانوں سے الگ ایک گروہ کے طور پر پیش کر کے ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کرایا۔ لیکن ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر ریڈکلف کمیشن کے سامنے خود کو مسلمانوں سے الگ پیش کرنے والا قادیانی گروہ اب پوری دنیا میں خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرنے پر بضد ہے اور عالم اسلام کے تمام دینی، علمی اور سیاسی حلقوں کا یہ متفقہ موقف قبول کرنے سے انکاری ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹی نبوت کے دعوے کے ساتھ اپنا رہبر ماننے والے قادیانی گروہ کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور وہ دائرۂ اسلام سے خارج ایک نیا مذہب رکھتا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے گروہ کے مقاصد سیاسی تھے اور وہ استعماری آقاؤں کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا لیکن اس نے اپنے نئے مذہب کی بنیاد نبوت کے جھوٹے دعوے، جہاد کے اسلامی فریضے سے انکار اور متعدد دیگر اجماعی دینی اسلامی عقائد سے انحراف پر رکھی۔ جس پر امت مسلمہ نے متفقہ طور پر اسے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا اور زعمائے امت میں سے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور حضرت مولانا ظفر علی خانؒ جیسے اکابر نے قادیانیت کے جھوٹے عقائد اور اسلام دشمن عقائد و عزائم کو بے نقاب کر کے امت مسلمہ کے ایمان و عقیدے کا تحفظ کیا۔ ان اکابر کے لاکھوں پیروکار آج بھی دنیا بھر میں قادیانی گروہ کی فتنہ سامانیوں کا تعاقب کر رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے پیروکاروں کو دوبارہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ قائم ہونے کی طفل تسلی دی اور عالمی استعمار کے زیرسایہ گروہ آج بھی دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے خلاف لابنگ اور پروپیگنڈے کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ ایسے شواہد تاریخی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ۱۹۷۱ء میں وطن عزیز کو دولخت کرنے کی سازش میں قادیانی گروہ کے سرکردہ افراد بالخصوص مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ایم ایم احمد (مرزا مظفر احمد) کا نمایاں کردار ہے۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف قادیانیوں کی سرگرمیاں ارباب حل و عقد کے علم میں ہیں جو تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستانی عوام کے دیرینہ مطالبے اور طویل جدوجہد کے نتیجے میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن قادیانی گروہ تب سے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے اور دستور پاکستان کی دفعات کو مسترد کرتے ہوئے دستوری بغاوت کے ماحول میں ملت اسلامیہ اور پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں کردار کشی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے لیے پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں آلۂ کار بنا ہوا ہے۔
چنانچہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے اور اس کو ایک سیکولر ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے عالمی استعمار کا جو ایجنڈا اس وقت سامنے ہے اس میں دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو ختم کرنے اور نافذ شدہ چند شرعی قوانین کو ترامیم کے ذریعے بے اثر بنانے کے ساتھ ساتھ توہین رسالتؐ کے جرم پر سزا کے قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ اس استعماری ایجنڈے کی آڑ میں قادیانی گروہ پاکستان میں خود کو دوبارہ مسلم گروہ تسلیم کرانے اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ میں اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے پیش قدمی کر رہا ہے جس کا ہدف جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بقول یہ ہے کہ:
’’قادیانی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان میں وہی مقام حاصل ہو جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ہماری کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو۔‘‘
پاکستان بننے کے بعد ۱۹۷۴ء تک اس ہدف کی طرف قادیانیوں نے جتنی پیش رفت کی تھی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے نے نہ صرف اسے بریک لگا دی تھی بلکہ اسے سبوتاژ کر دیا تھا لیکن قادیانی گروہ آج بھی اسی ہدف کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جہاں پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی خواہشمند عالمی قوتیں ان کی سرپرستی کر رہی ہیں وہاں ملک کے اندر لادین عناصر اور بیوروکریسی کے دین دشمن حلقے بھی اس مقصد اور پروگرام میں قادیانیوں کے معاون بنے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پارلیمنٹ میں حدود آرڈیننس میں کی گئی ترامیم کی طرح قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے کو بے اثر بنانے کے لیے بھی ترمیمی بل لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی طرح ایک بار پھر ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کے فورم کو متحرک کیا جائے اور قادیانیوں کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی کارکن مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کریں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کی میزبان ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی قیادت سے پیش رفت کی درخواست کی گئی ہے اور اس کے ساتھ رابطہ اور صلاح و مشورہ جاری ہے۔ البتہ ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کی باضابطہ تشکیل نو اور اس کے متحرک ہونے تک وقتی طور پر مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے ۱۹ اکتوبر کو دفتر مجلس احرار اسلام لاہور میں متحد ہو کر ’’متحدہ ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ قائم کر کے کام کے آغاز کا فیصلہ کیا تھا، اب اسی مقصد کے لیے ۲۸ دسمبر ۲۰۰۸ء ہمدرد ہال (لٹن روڈ لاہور) میں ’’متحدہ تحریک ختم نبوت علماء کنونشن‘‘ کا انعقاد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے زعماء نے خطاب کیا۔ ’’متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ تحریک ختم نبوت کے نئے دور کے لیے ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان‘‘ کا ہراول دستہ ثابت ہوگی اور اس کے لیے راستہ ہموار کرنے کی خدمت سرانجام دے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت و وحدت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کی اس مقدس جدوجہد میں آگے بڑھیں اور ماضی کی طرح اسلام اور پاکستان کے خلاف قادیانیوں کی اس سازش کو بھی اپنے اتحاد اور عزم و حوصلے کے ساتھ ناکام بنا دیں۔