روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۴ اپریل ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق ملائیشیا کی ’’مفتی کونسل‘‘ کے علماء نے وزیراعظم مہاتیر محمد کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملائیشیا میں بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ ان فلموں میں امتِ مسلمہ کی تذلیل کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے شاندار ماضی کو داغدار کیا جا رہا ہے، جس سے نئی نسل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
فلمیں بھارتی ہوں یا مغربی، سب کا ہدف ایک ہی ہے کہ مسلم دنیا میں نئی نسل کو عریانی اور بے حیائی کا خوگر بنا کر اسلامی اقدار و اخلاق سے بیگانہ کیا جائے۔ اور عالمِ اسلام میں دینی بیداری کی لہر کے مقابلہ میں فحاشی اور خواہش پرستی کی لہر ابھار کر اس کے ذریعے اسلامی ثقافت کو دبانے کی راہ ہموار کی جائے۔ جبکہ مسلم ممالک کی بیشتر حکومتیں عالمی ثقافت کے فروغ اور عوام کو تفریحی سہولتیں مہیا کرنے کے نام سے مغرب اور بھارت کی اس ثقافتی یلغار میں خود ان کی آلۂ کار بن کر رہ گئی ہیں۔
مغربی فلموں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ کے پروگراموں کا رخ بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے فروغ کی طرف ہے، جبکہ بھارت کے ذرائع ابلاغ اس کے ساتھ بت پرستی اور ہندوانہ ثقافت کے رجحانات کی آمیزش کر کے مسلمانوں کی دینی اور اعتقادی روایات پر بھی ضرب لگا رہے ہیں۔ اور صرف ملائیشیا میں نہیں بلکہ اردگرد کے تمام مسلم ممالک اور پاکستان میں بھی بھارت کی اس ثقافتی یلغار کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتیں اور مراکز اس طرف خصوصی توجہ دیں اور حکومتوں سے مطالبات پر قناعت کرنے کی بجائے عامۃ الناس کو اس ثقافتی جنگ کے نقصانات کا احساس دلاتے ہوئے انہیں اس کے خلاف بیدار و منظم کرنے کی مہم چلائیں۔ حکومتیں اس سلسلہ میں کچھ نہیں کریں گی، البتہ عام مسلمانوں کو اگر اس ثقافتی یلغار کے مقاصد اور نقصانات سے صحیح طور پر آگاہ کیا جا سکے تو تحفظ اور مزاحمت کے لیے مناسب صف بندی اب بھی کی جا سکتی ہے۔