مولانا منظور احمد چنیوٹی نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر تحریکِ ختمِ نبوت کے سلسلہ میں جو نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں وہ کسی پر مخفی نہیں ہیں۔ حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کے بعد یہ اعزاز مولانا چنیوٹی ہی کے حصہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیرون ممالک میں قادیانیت کا تعاقب کرنے اور تحریکِ ختمِ نبوت منظم کرنے کے مواقع میسر فرمائے۔
مولانا موصوف اس سے قبل بھی متعدد بار سعودی عرب تشریف لے جا چکے ہیں، اور انہوں نے سعودی حکومت کے ذمہ دار افراد اور وہاں کے مشائخ کو قادیانیت سے متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور حرم پاک میں درس و تدریس کے علاوہ مدینہ یونیورسٹی کے طلباء کو بھی قادیانیت کے مسئلہ پر تربیت دینے کا شرف حاصل کیا ہے۔ گزشتہ حج کے بعد مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحب اسی غرض سے سعودی عرب کے دورے پر گئے اور وہاں تحریکِ ختمِ نبوت کے سلسلہ میں قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں:
(۱) آپ نے وہاں حرم شریف میں عوام کے متعدد اجتماعات سے خطاب کیا اور عوام کو قادیانی فتنہ سے روشناس کرایا۔
(۲) سعودی حکومت کی طرف سے سعودی عرب میں قادیانیوں کے داخلہ پر پابندی کے باوجود وہاں چوری چھپے چلا جانے والے قادیانیوں کا تعاقب کیا۔ کئی ایک کو گرفتار کرایا اور عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کی۔
(۳) سعودی حکومت کی طرف سے افریقہ بھیجے جانے والے قراء کرام کو مسلسل ڈیڑھ ماہ تک قادیانی مسئلہ پر تربیت دی۔
(۴) رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری صالح القزاز سے رابطہ قائم کر کے انہیں قادیانیت سے متعلق دستاویزی ثبوت بہم پہنچائے۔ اور رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی تنظیموں کی کانفرنس میں شرکت کر کے ’’باطل نظریات کی سب کمیٹی‘‘ کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ یاد رہے کہ رابطہ کے اسی اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر مسلمانوں سے ان کے سوشل بائیکاٹ اور مسلم حکومتوں سے انہیں کلیدی عہدوں سے برطرف کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔
(۵) مدینہ یونیورسٹی میں تعطیلات سے قبل تمام بیرونی طلبہ کو، جن میں امریکہ، افریقہ، یورپ اور ایشیا کے متعدد ممالک کے ۱۷۰۰ کے قریب طلبہ شامل ہیں، ایک مفصل لیکچر کے ذریعہ قادیانیت کے فتنہ سے روشناس کرایا۔ اور تعطیلات کے دوران ہوسٹل میں رہ جانے والے طلبہ کو ۳ ماہ تک قادیانیت سے متعلق مسائل پر تربیت دی۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی میں بھی متعدد اجتماعات سے خطاب کیا۔
(۶) پاکستان میں ۲۹ مئی کے بعد تحریکِ ختمِ نبوت کا آغاز ہونے پر سعودی حکومت کے ذمہ دار افراد کے علاوہ رابطہ عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل صالح قزاز اور ان کی معرفت شاہ فیصل، رئیس اشراف دینیہ، مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ عبد العزیز بن باز اور دیگر سربرآوردہ شخصیتوں کو قادیانیت کے متعلق صحیح صورتحال سے آگاہ کیا۔ اور پاکستانی باشندوں کے وفد ترتیب دے کر پاکستانی سفیر اور دیگر حضرات سے ملاقات کی۔ اور پاکستانی حکومت کے ذمہ دار افراد کے علاوہ مجلس عمل کے قائدین کو ٹیلیگرام اور یادداشتیں ارسال کیں۔
(۷) اس دوران دوبئی، شارجہ، عجمان، بحرین وغیرہ ریاستوں کا دورہ بھی کیا اور وہاں کے عوام کو قادیانیت سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ وہاں مجلس تحفظ ختم نبوت کی باقاعدہ شاخیں قائم کیں۔
(۸) اخبارات میں مضامین اور مراسلات کا سلسلہ جاری رکھا۔ سعودی دارالحکومت ریاض کے جریدہ الندوۃ نے مولانا منظور احمد صاحب کا قادیانی مسئلہ پر تفصیلی انٹرویو شائع کیا۔ جسے قاہرہ ریڈیو نے بھی نشر کیا۔ اور رابطہ عالمِ اسلامی کے اخبار ’’العالم الاسلامی‘‘ نے اس کے اقتباسات نقل کیے۔
(۹) ’’القادیانی و معتقداتہ‘‘ کے نام سے ایک عربی رسالہ ترتیب دیا۔ اس کا دیباچہ حضرت الشیخ مولانا محمد یوسف بنوری مدظلہ نے لکھا ہے۔ اور یہ رسالہ مصر کے ایک ادارے نے شائع کر دیا ہے۔
(۱۰) مدینہ یونیورسٹی کے حکام سے گزشتہ کئی سالوں سے اس مسئلہ پر رابطہ رکھا کہ تقابلِ ادیان کے ضمن میں قادیانیت کو کورس میں شامل کیا جائے۔ چنانچہ یونیورسٹی نے اسے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔
اس ساری مہم کے بعد جب مولانا منظور احمد چنیوٹی ۷ ستمبر کو کراچی پہنچے تو سب سے پہلے یہ خبر سنی کہ قادیانیوں کو پاکستان میں خلافِ قانون قرار دے دیا گیا ہے۔ مولانا موصوف کی واپسی پر جمعیۃ علماء اسلام لاہور نے مدرسہ قاسم العلوم میں آپ کے اعزاز میں دعوتِ افطار کا اہتمام کیا۔ جس میں حضرت الامیر مولانا عبید اللہ انور دامت برکاتہم بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر مولانا منظور احمد نے اپنے بیرونی ممالک کے سات ماہ کے تفصیلی دورہ کے تاثرات بیان کیے۔ پارلیمنٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس سلسلہ میں شاہ فیصل، صالح قزاز، شیخ بن باز اور حسن التہامی کی خصوصی توجہات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
(۱) مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت فوری طور پر بیرونی ممالک میں اپنا ایک وفد بھیجے جو بیرونی ممالک کے عوام کو اس فیصلہ کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرے اور قادیانی گروہ کے گمراہ کن پروپیگنڈا کا سدباب کرے۔
(۲) قادیانیوں کے اوقاف کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔ بیرونی ممالک میں ان کے تمام مراکز بھی سرکاری قبضہ میں لیے جائیں اور ان سے اسلامی تبلیغ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کا کام لیا جائے جنہیں بے خبری میں قادیانی گمراہ کر چکے ہیں۔
(۳) قادیانی جب تک پارلیمنٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے اور ملک سے غیر مشروط وفاداری کا اعلان نہیں کرتے، ان کا بائیکاٹ جاری رہنا چاہیے۔
(۴) قرآن کریم، مسجد، اذان شعائرِ اسلام ہیں، قادیانیوں کو قانوناً ان کے استعمال سے روک دیا جائے۔ مساجد مسلمانوں کی تحویل میں دے دی جائیں۔
(۵) ربوہ شہر کا نام تبدیل کیا جائے کیونکہ یہ نام محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت عیسٰی بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ’’ربوہ‘‘ کا ذکر ہے، اور مرزا غلام احمد نے عیسٰی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
(۶) قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کو آئین میں ترمیم کے مطابق نشستیں دی جائیں اور باقی نشستوں سے سبکدوش کر دیا جائے۔
(۷) قادیانی افسران کو جلد از جلد کلیدی عہدوں سے سبکدوش کر دیا جائے۔
(۸) ان کی نیم فوجی تنظیموں فرقان فورس اور خدام الاحمدیہ کو خلافِ قانون قرار دے کر ان کا تمام اسلحہ ضبط کیا جائے۔
(۹) ربوہ میں اس فیصلہ کی یادگار تعمیر کی جائے۔
(۱۰) حج کے سلسلہ میں حکومت فوری اعلان کرے کہ کوئی قادیانی حج پر نہ جائے۔ اور اگر کوئی قادیانی منافقت کرتے ہوئے چلا جائے تو حکومتِ پاکستان اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کر دے۔
(۱۱) ربوہ تعلیم الاسلام کالج میں ابھی تک قادیانیوں کی مذہبی تعلیم پریڈ جاری ہے، اسے ختم کیا جائے۔ اور کالج کے مسلم طلباء کے مطالبات منظور کیے جائیں۔