افغانستان پر امریکی حملے کی معاونت ۔ صدر پرویز مشرف کی خود فریبی

   
۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جن ترجیحات کا اعلان کیا ہے وہ صرف ان کی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہری کی ترجیحات ہیں۔ میں خود ان لوگوں میں شامل ہوں جو پاکستان کی سالمیت اور قومی وحدت کے تحفظ کو دوسری ہر چیز پر مقدم قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی عسکری اور ایٹمی صلاحیت کو ہر حالت میں برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر دینا کہ جو لوگ امریکہ اور افغانستان کے حالیہ تنازعہ کے تناظر میں صدر پرویز مشرف سے اختلاف کر رہے ہیں ان کی ترجیحات اس سے مختلف ہیں، قطعی طور پر غلط بات ہے۔ بات ترجیحات کی نہیں بلکہ انہیں بروئے کار لانے کے لیے طریق کار کی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان ترجیحات پر عملدرآمد کے لیے صدر صاحب نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور اپنے خطاب میں جس طریق کار کا عندیہ دیا ہے وہ ان ترجیحات کے نفاذ و عملداری کا نہیں بلکہ خدانخواستہ انہیں سبوتاژ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس طریق کار سے پوری دیانتداری اور شرح صدر کے ساتھ اختلاف کر رہے ہیں۔

صدر پرویز مشرف نے امارت اسلامی افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ کو سہولتیں فراہم کرنے کی پالیسی کے حق میں کہا ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بھارت یہ کر گزرے گا اور وہ امریکہ کو اس مقصد کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی پیشکش کر چکا ہے، اس لیے ہم بھارت کو سبقت کا موقع نہیں دینا چاہتے کیونکہ اس سے امریکہ بھارت کے ساتھ ہو جائے گا اور ہمارے ’’کشمیر کاز‘‘ کو نقصان پہنچے گا۔

سچی بات ہے کہ صدر صاحب کے اس بھولپن پر مجھے ہنسی آتی ہے اس لیے کہ یہ بات وہ شخص تو کہہ سکتا ہے جس نے امریکہ کو پہلی بار دیکھا ہو، اس کی تاریخ، اس کے قومی مزاج سے کوئی واقفیت نہ رکھتا ہو مگر ایسے ملک کے سربراہ کے منہ سے یہ بات بھولپن اور سادگی ہی کہلائے گی جو گزشتہ نصف صدی سے ’’امریکہ دوستی‘‘ کے مسلسل چرکے کھا رہا ہے۔ امریکہ کے بارے میں یہ توقع رکھنا خود فریبی کی انتہا ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف پاکستان کی زمین یا فضا استعمال کرنے کے بعد اس خطہ میں اپنی ترجیحات بدل دے گا اور بھارت کو اپنے مخالفین میں شمار کر کے کشمیر کو آزادی دلوانے کے لیے پاکستان کی سپورٹ کرے گا۔

پاکستان کے ساتھ اس وقت امریکہ کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی نظریاتی وحدت کو توڑنا چاہتا ہے، ان کی باہمی دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے وسطی ایشیا کے ساتھ روابط کو ختم کرنا چاہتا ہے، اور چین کے خلاف اپنے مجوزہ حصار کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ حاصل ہوجانے کے بعد امریکہ کی ترجیحات بدستور وہی رہیں گی جو پہلے چلی آرہی ہیں اور جن ترجیحات میں پاکستان کو بھارت پر ترجیح دینا یا کم از کم اس کے برابر رکھنا بھی امریکی مفادات سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی لیے صدر مشرف اور ان کے ساتھ اس مسئلہ کو پاک بھارت تنازعہ اور کشمکش کے تناظر میں دیکھنے والے دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی سوچ اور مطالعہ کا دائرہ کشادہ کریں اور وسیع تر عالمی تناظر میں امریکہ کے مفادات، پالیسیوں اور عزائم کا جائزہ لیں۔

جنرل پرویز مشرف سے زیادہ کون اس بات سے واقف ہوگا کہ عربوں نے بھی اسی غلط فہمی میں امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے عروج کے دور میں روس کے کیمپ میں شمار ہونے والے بعض عرب ممالک اسی توقع پر امریکی کیمپ میں چلے گئے تھے کہ ہم اس خطہ میں امریکہ کو سہولتیں فراہم کریں گے تو امریکہ ہمارے ساتھ ہو جائے گا، اور جب امریکہ ہمارے ساتھ ہوگا تو فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں رعایتیں دے گا اور اسرائیل کے مقابلہ میں ہمیں ترجیح دے گا۔ لیکن اس کا نتیجہ کا ہوا؟ صدر صاحب کو اگر خود واقفیت نہ ہو تو برادر مسلم ملک عرب جمہوریہ مصر کے صدر جناب حسنی مبارک سے کسی وقت رازداری کے ساتھ پوچھ لیں کہ اسرائیل کے مقابلہ میں ترجیح اور مسئلہ فلسطین کے حل میں تعاون کی توقع پر امریکہ کے ساتھی بننے والے ملکوں کے ساتھ امریکہ بہادر نے کیا سلوک کیا ہے؟

فلسطین کی صورتحال سب کے سامنے ہے، وہاں اسرائیل کے جبر و تشدد، فلسطینیوں کے قتل عام، اور مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی مسلسل سازشیں کسی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں ہیں۔ جبکہ اسرائیل کے مقابل جو عرب ممالک کھڑے ہیں وہ سب کے سب امریکہ کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو تیل کے چشموں پر بالادستی دلائی ہے، فوجی استعمال کے لیے زمین اور اڈے فراہم کر رکھے ہیں، اور امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، صرف اس لیے کہ اسرائیل کے مقابلہ میں امریکہ انہیں بھی کچھ رعایت دے دے۔ لیکن ’’امریکی دوستی‘‘ کے اس فریب نے انہیں معروف محاورے ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کے مصداق اقوام عالم کی برادری میں بے بسی اور عبرت کی تصویر بنا کر رکھ دیا ہے۔

اس لیے جنرل پرویز مشرف سے گزارش ہے کہ ہماری ترجیحات بھی وہی ہیں جو انہوں نے بیان کی ہیں، ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے، ہمیں بھی اس بات کا شعور ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہماری اولین ضرورت ہے، ہم بھی پاکستان کے حساس مراکز ایٹمی تنصیبات اور میزائل پروگرام کا ہر قیمت پر تحفظ چاہتے ہیں، اور ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر جلد از جلد حل ہو اور امریکہ سمیت سب عالمی قوتیں اس میں انصاف کا ساتھ دیں۔ لیکن اس کا صحیح راستہ امریکہ کے ساتھ قرب بڑھانا اور اسے اپنی داخلی حدود میں عسکری دخل اندازی اور رسائی کے مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ فاصلہ قائم رکھنا ہے۔ ہم اس وقت انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہیں، جس طرف بھی مڑ گئے واپسی کے لیے دور دور تک کوئی ’’یو ٹرن‘‘ نہیں ہے، اس لیے فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter