۱۲ جولائی کے قومی اخبارات میں اے ایف پی کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں او آئی سی کے زیر اہتمام ۱۰۰ کے لگ بھگ مسلم اسکالرز کے ایک اجتماع میں افغان حکومت اور طالبان سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنے کی اپیل کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف امارت اسلامیہ افغانستان نے بھی اس سلسلہ میں اپنا موقف جاری کیا ہے، صورتحال کو معروضی تناظر میں صحیح طور پر سمجھنے کے لیے دونوں کا مطالعہ ضروری ہے اس لیے ہم سردست یہ دونوں موقف قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، ضرورت محسوس ہوئی تو ہم اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار مناسب موقع پر کر دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
او آئی سی کے زیر اہتمام منعقدہ اسکالرز کانفرنس کا موقف:
’’مکہ (اے ایف پی) مکہ مکرمہ میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میں ۱۰۰ سے زائد مسلم اسکالرز نے افغانستان میں فوری قیام امن کی اپیل کر دی۔ او آئی سی کی طرف سے منعقد کی جانے والی عالمی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم سب افغان حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ امن و استحکام کے لیے افغان حکومت اور طالبان کو امن کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے، عسکریت پسندوں کی حکومت کے خلاف جنگ غیر قانونی ہے، عسکریت پسند ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہوں اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ او آئی سی افغان حکومت کو ہر قسم کی مدد دے گی۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل یوسف العثیمین نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فریقین فوری عارضی جنگ بندی کا معاہدہ کریں اور اس کا احترام کرتے ہوئے براہ راست مذاکرات کریں۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے منعقدہ اجلاس کا مرکزی نکتہ افغانستان میں قیام امن کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ سعودی نیوز ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان نے دنیا بھر سے آنے والے مسلم اسکالرز کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سعودی عرب افغان مسئلے کا پر امن حل کے لیے پرعزم ہے۔ سعودی اخبار کے مطابق طالبان نے او آئی سی کی جانب سے مکہ کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ نظر انداز کر دیا تھا۔‘‘ (روزنامہ دنیا، گوجرانوالہ ۔ ۱۲ جولائی ۲۰۱۸ء)
افغان طالبان کا موقف:
’’سعودی عرب میں علماء کانفرنس کے حوالے سے امارت اسلامیہ کا اعلامیہ
رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں کہ افغانستان سے متعلق عنقریب مملکت العربیہ السعودیہ کے جدہ شہر میں کوئی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس کے بارے میں امارت اسلامیہ افغانستان درج ذیل چند نکات کو قابل توجہ سمجھتی ہے۔
افغانستان میں امریکی محارب غاصبوں کے خلاف موجودہ جہاد اسلام کی نگاہ سے کفری تہاجم کے خلاف فرض عین دفاعی جہاد ہے۔ دین اسلام کے تمام اصول اور فقہی مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محارب کافروں کی تجاوز کی صورت میں مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ یہ وہ واضح الہی حکم ہے ،جس پر ہر باایمان شخص کا کامل یقین ہے۔
افغانستان میں موجودہ جہاد بین الافغانی جنگ یا قتال بین المسلمین نہیں ہے۔ یہ جنگ سترہ سال قبل اس وقت شروع ہوئی تھی، جب امریکہ نے فضائی اور زمینی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر جارحیت کی اور افغان مجاہد عوام نے اس کے خلاف دفاعی جہاد شروع کیا ۔ اسی دن سے افغان عوام کے خلاف اس لڑائی کے تمام منصوبہ بندی، پالیسی، اخراجات اور پیشرفت امریکہ کے ذمہ ہے، اگر بین الافغانی جنگ ہوتی، تو اس پر ڈیڑھ ٹریلین امریکی ڈالر خرچ نہیں ہوتے، اس میں ہزاروں امریکی فوجیں نہیں مارے جاتیں اور ہزاروں زخمی نہیں ہوتیں۔
فی الحال بھی اس جنگ کی نئی پالیسی امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ڈیزائن اور عملی ہو رہی ہے اور اس میں طول لانے کی خاطر فوجی بجٹ امریکی کانگریس کی جانب سے منظور کیاجارہا ہے۔ افغان عوام چشم دید گواہ کے طور پر مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ان کے سروں پر امریکی ہیلی کاپٹر، ڈرون اور جیٹ طیارے منڈلا رہے ہیں۔ غاصب امریکی افواج کی موجودگی افغان عوام دیکھ کر رہی ہیں۔ یہ بات حقائق سے بہت بعید ہوگی ، جب کسی اور ملک میں افغان مسئلے کو بین الافغانی مسئلہ متعارف کروایا جائے۔
امریکہ کے وہ حواری جو افغانستان میں غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے ، جو اپنے دین، عوام، ملکی اور ملی اقدار کے خلاف لڑ رہے ہیں اور امریکہ ان کا سپورٹ کر رہا ہے۔ استعمار کی جانب ان کی موجودگی جنگی ماہیت کو بدل نہیں دے سکتی ، کیونکہ وہ مستقل اور خودمختار لوگ نہیں ہے، بلکہ امریکہ کی جانب سے افغانوں پر مسلط کیے جاتے ہیں، امریکی پالیسی کو اپنا رہی ہے، یہ لڑائی ابتداء ہی میں ان کے خلاف شروع ہوئی ہے، وہ مزدور ہیں، جسطرح افغان کمیونسٹوں کی موجودگی نے سوویت یونین کے زمانے میں افغان جہاد پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ واضح الہی ارشادات موجود ہیں ،کہ اگر کوئی مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دیں، تو ان کے خلاف مقابلہ مقدس جہاد ہے۔
امارت اسلامیہ کوئی باغی یا دہشت گرد گروہ نہیں ہے، بلکہ امارت اسلامیہ 30 ملین عوام کے اسلامی مطالبے اور حریت پسند مزاحمت کا نام ہے۔ امارت اسلامیہ کی عوام میں گہرے جڑیں ہیں۔ اب ملک کا 70 فیصد رقبے پر مجاہدین کی حکمرانی ہے۔ افغانستان میں امارت اسلامیہ کا افغان عوام کی امنگوں کے مطابق خودمختار اسلامی نظام کا ہدف ہے، امارت اسلامیہ شریعت کی روشنی میں عالمی تعلقات، اچھے ہمسائیہ، دوستانہ تعلقات اور اقوام کی مشترکہ پرامن زندگی کا احترام رکھتی ہے اور دنیا کیساتھ مثبت تعلقات چاہتی ہے۔ یہ بہت ناانصافی اور غیر منطقی ہوگا کہ ایک مکمل ملت جو مایہ ناز تاریخ کا حامل ہے، وہ دہشت گردی اور بغاوت سے مسمی ہوجائے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے اور انہیں ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے۔
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں اگر کوئی بھی صرف امریکی صدر ٹرمپ اور اس کے حامیوں کی خوشی کی خاطر دین کے صریح احکام کو باطل اعلان کرتا ہے اور اللہ تعالی کی راہ کے مجاہد ملت کو باغی اور دہشت گرد کہتا ہے۔ یہ عمل امریکی غاصبوں کیساتھ جارحیت میں تعاون اور ضعیف مسلمانوں کی بیخ کنی ہے اور اللہ تعالی فرماتے ہیں :
ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار و ما لکم من دون اللہ من اولیاء ثم لا تنصرون۔ (ھود ۱۱۳)
نیز رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
من مشی مع ظالم لیقویہ وہو یعلم انہ ظالم، فقد خرج من الاسلام۔ (رواہ البیہقی)
افغان عوام کو مملکت سعودیہ کے حکام اور علماء سے یہ امید نہیں ہے کہ وہ اسلام اور کفر کے درمیان جنگ میں امریکی غاصبوں کا ساتھ دیں۔ افغان عوام اسلامی اخوت کی وجہ سے امید کرتی ہے کہ سعودی حکومت روسی کے خلاف جہاد کے مانند اس کٹھن حالت میں بھی افغان مستضعف عوام کا ہاتھ تھام کر ان سے تعاون کریں، افغان عوام اب بھی سعودی عرب کے ان امداد کا مشکور ہے، جب روسی جارحیت کے دوران افغان مجاہد عوام کیساتھ کیا گیا تھا۔
جس طر ح اسلامی کانفرنس نے کمیونزم کے خلاف جہاد میں افغان عوام کی حمایت کی اور افغان عوام تاحال اس کے احسان کا مشکور ہے۔ موجودہ المیہ بھی میں اس کمیونٹی کو افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے اور افغان عوام کے برحق مزاحمت کی حمایت کریں۔
آخر میں مسلمان عوام اور مجاہدین کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے ناصر اور قادر رب تعالی پر یقین ہے، جس طرح اللہ تعالی نے ہمارے جہاد کو انگریز اور کیمونزم کے خلاف کامیاب کیا اور اس وقت کی سپر طاقتیں صفر ہوئیں، ان کی تمام سازشیں ناکارہ ہوئیں، اسی طرح امریکی قیادت میں استعمار بھی ناکام اور ذلیل ہو کر رہیگا، ان کی سازشیں ہماری مشروع مزاحمت پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالے گی اور ان کے خلاف افغان عوام کا موجودہ جہاد کامیابی کی ساحل کی جانب بہت سرخروئی سے پہنچ جائیگا۔ ان شاءاللہ تعالی و ماذالک علی اللہ بعزیز
(امارت اسلامیہ افغانستان ۔ ۱۴۳۹/۱۰/۲۵هـ ق ۔ ۱۳۹۷/۴/۱۸هـ ش ــ 2018/7/9م)‘‘