روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۷ جنوری ۲۰۰۰ء کے مطابق جامعہ ازہر قاہرہ کے سرکردہ علماء کرام نے مصر کے صدر حسنی مبارک کے نام ایک خط میں ان سے کہا ہے کہ وہ مصر کی قومی اسمبلی میں گزشتہ دنوں پیش ہونے والے اس بل پر بحث کو تین ماہ کے لیے مؤخر کر دیں جس کے ذریعے عورتوں کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ خاوندوں کے ساتھ تنازعہ کی صورت میں آسانی کے ساتھ طلاق لے سکیں گی، اور انہیں بیرون ملک جانے کے لیے بھی خاوند کی اجازت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جامعہ ازہر کے علماء نے مصری صدر سے اپیل کی ہے کہ اس بل پر علماء کرام کی رائے لی جائے اور اس مقصد کے لیے بل پر غور تین ماہ کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔
ہم اس سے قبل بھی اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ مسلم ممالک میں نکاح و طلاق اور وراثت سے متعلق قوانین میں ردوبدل اور انہیں مغربی ثقافت اور روایات کے قریب لانے کا یہ عمل ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد مسلمانوں کو قرآن و سنت کے خاندانی قوانین سے محروم کر کے ان پر مغربی ثقافت کو مسلط کرنا ہے، اور اس سازش کا دائرہ دنیا کے اکثر مسلم ممالک تک وسیع ہو چکا ہے۔ خود ہمارے ہاں مسلسل ایسے اقدامات، مطالبات اور سفارشات سامنے آ رہی ہیں جن کا مقصد نکاح و طلاق اور وراثت کے شرعی احکام کی مکمل تبدیلی اور انہیں مغربی کلچر کی روایات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
اس لیے دینی و علمی حلقوں کو اس سلسلہ میں بیداری اور جرأت سے کام لینا ہو گا اور ایسے معاملات میں خود آگے بڑھ کر رائے دینا ہو گی تاکہ کم از کم مسلم ممالک کی رائے عام کی راہنمائی تو بروقت ہوتی رہے۔