’’نبویؐ لیل و نہار‘‘
تالیف: امام احمد بن شعیب النسائیؒ (المتوفی ۳۰۳ھ)
ترجمہ: مولانا محمد اشرف، فاضل نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
خوبصورت و مضبوط جلد، کتابت و طباعت عمدہ ۔ صفحات ۶۷۰ قیمت ۱۳۰ روپے
ملنے کا پتہ: مکتبہ حسینیہ، قذافی روڈ، گرجاکھ، گوجرانوالہ
یہ کتاب امام نسائیؒ کی معروف تصنیف ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس میں امام نسائی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے شب و روز کے اذکار اور روزمرہ ضروریات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و ہدایات کو جمع فرما دیا ہے۔ امام نسائیؒ امتِ مسلمہ کے عظیم محدثین میں سے ہیں جن کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’سنن نسائی‘‘ کو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ سب سے بڑی اور مستند کتابوں (صحاح ستہ) میں شمولیت کا درجہ حاصل ہے۔ اور امام نسائیؒ جیسے جلیل القدر محدث کا نام سامنے آ جانے کے بعد کتاب کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل استاذ مولانا محمد اشرف نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے اور ہمارے مخدوم و محترم حضرت مولانا سید نفیس شاہ صاحب مدظلہ العالی کی تجویز پر اس کا نام ’’نبویؐ لیل و نہار‘‘ رکھا گیا ہے۔ کتاب عرصہ سے نایاب تھی، مولانا محمد اشرف علمی حلقوں کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ کا اردو ترجمہ اصل متن کے ساتھ شائع کر کے اہلِ علم کو اس سے استفادہ کا موقع فراہم کیا ہے۔
’’تقویٰ باطنی کمال کا معیار‘‘
افادات: شیخ الاسلام مولانا محمد عبد اللہ درخواستی
مرتب: مولانا فضل الرحمٰن درخواستی
ناشر: جامعہ مخزن العلوم، عیدگاہ، خانپور، ضلع رحیم یار خان
حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم ہمارے دور کی ان برگزیدہ علمی اور روحانی شخصیات میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کے متنوع کمالات سے نوازا ہے اور انہیں مخلوقِ خدا کے ایک بڑے حصہ کی ہدایت اور راہنمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ حضرت درخواستی مدظلہ نے درس و تدریس، وعظ و نصیحت، ذکرِ الٰہی اور علماء کی سیاسی قیادت کے محاذوں پر پون صدی سے زیادہ عرصہ تک متحرک کردار ادا کیا ہے اور اب بھی بڑھاپے، بیماریوں اور کمزوریوں کے باوجود اس سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا وعظ و خطاب کا اپنا ایک مخصوص انداز ہے جس میں جذب کا پہلو غالب ہوتا ہے اور وعظ و نصیحت کے بے باک انداز پر جذب کا یہ پرتو ہی ان کی امتیازی خصوصیت ہے جو ان کے عقیدت مندوں کے لیے کشش کا باعث بنتی ہے اور ان کے سامعین گھنٹوں ان کے سامنے محوِ کیف رہتے ہیں۔
زیرِنظر رسالہ حضرت درخواستی مدظلہ کے ایک خطاب پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے تقوٰی کی حقیقت، متقین کی صفات، اور تقوٰی کے تقاضوں پر اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی ہے اور ان کے ہونہار فرزند مولانا فضل الرحمٰن درخواستی نے اسے مرتب کر کے انتہائی عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ رنگین آرٹ پیپر پر شائع کیا ہے۔ رسالہ کے صفحات ۳۸ ہیں اور جامعہ مخزن العلوم خانپور کے علاوہ البدر جنرل سٹور بازار سیدنگری گوجرانوالہ سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
’’سوانح حیات مولانا غلام رسولؒ‘‘
مصنف: مولانا عبد القادر
ناشر: فضل بکڈپو، اردو بازار، گوجرانوالہ
صفحات ۱۸۰ قیمت ۱۸ روپے
قلعہ میاں سنگھ ضلع گوجرانوالہ میں ایک باکمال بزرگ مولانا غلام رسولؒ گزرے ہیں جن کا تعلق اہلحدیث مکتب فکر سے تھا لیکن روایتی انداز سے ہٹ کر وہ معتدل اور صوفی مزاج بزرگ تھے۔ حدیث میں حضرت میاں نذیر حسین دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے شاگرد تھے۔ حق گو عالم تھے۔ ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں شرکت کے الزام میں گرفتاری اور نظربندی کے مراحل سے بھی گزرے۔ صاحبِ نسبت تھے اور ان کی کرامات کا بھی دور دور تک شہرہ تھا۔ پنجابی، اردو اور فارسی کے شاعر تھے اور اپنے دور کے کی مقبولِ خلائق شخصیات میں سے تھے۔ ان کے فرزند مولانا عبد القادرؒ نے اپنے والدِ محترمؒ کے حالات کو اس کتابچہ میں جمع کیا ہے۔ اس قسم کے بزرگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ اصلاحِ نفس اور عبرت و نصیحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔
’’زعیمِ ملت مولانا ہزارویؒ‘‘
مرتب: مولانا محمد سعید الرحمٰن علوی
صفحات ۲۰ کتابت و طباعت معیاری
ملنے کا پتہ: مکتبہ حنفیہ، اردو بازار، گوجرانوالہ
بزم شیخ الہند گوجرانوالہ نے گذشتہ سال مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں مولانا محمد سعید الرحمٰن علوی نے اپنے مخصوص انداز میں ایک مضمون پڑھا، یہ مضمون ان کی نظرثانی کے بعد زیرنظر رسالہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔
برصغیر کی تحریکِ آزادی اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ ایک زندہ اور متحرک کردار کا نام ہے۔ اس بے لوث اور فعال کردار کے مختلف زاویوں کو صحیح طور پر نئی نسل کے سامنے لانا نہ صرف ان کا بلکہ نئی نسل کا بھی حق ہے، اور مولانا علوی نے اپنے مضمون میں ایک حد تک کوشش بھی کی ہے لیکن مضمون پر ان کا مخصوص ناقدانہ رنگ غالب ہے، اگر اس کے ساتھ وہ معلوماتی مواد کا توازن بھی قائم کر لیتے تو مضمون کی افادیت بڑھ جاتی۔ بہرحال مولانا علوی اور بزم شیخ الہند تبریک و تحسین کے مستحق ہیں کہ اس نفسانفسی کے دور میں جبکہ بزرگوں کو بھول جانے کی روایت فیشن کا رنگ اختیار کر چکی ہے، انہوں نے مولانا ہزارویؒ کی یاد کو تازہ رکھنے کی کوئی صورت تو نکالی۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔