محمد حنظلہ حسان: سلامتی ہے ان آنکھوں پہ جو ہدایت پہ نظریں جمائے بیٹھی ہیں، ان کانوں پہ جو ذکر خیر کی منتظر رہتے ہیں، اور ان قدموں پہ جو ہدایت کی راہ پہ گامزن ہیں۔ تمام تعریفیں خدائے بزرگ و برتر کے لیے جو وحدہٗ لا شریک ہے، نہ کوئی ثانی ہے نہ کوئی ہمسر، درود لامحدود محبوبِ رب الودود حضور سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم پر ۔ ناظرین! آپ دیکھ رہے ہیں بن کعبؓ اسٹوڈیو، میں ہوں آپ کا ہوسٹ محمد حنظلہ حسان۔ آج ہمارے ساتھ جو شخصیت موجود ہیں، آپ عالم ابن عالم ہیں الحمد للہ، شیخ ابن شیخ ہیں، آپ صاحبزادہ ہیں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے، حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب۔ شیخ محترم! ممنون ہوں آپ کا!
مولانا راشدی: شکریہ جناب، جزاکم اللہ۔
محمد حنظلہ حسان: آمین۔ شیخ محترم، آپ کا بہت شکریہ آپ نے ہمیں اپنے قیمتی ٹائم سے وقت دیا، جزاک اللہ۔
مولانا راشدی: یہ سعادت کی بات ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ادارہ میں بیٹھا ہوں۔
محمد حنظلہ حسان: الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ۔
محمد حنظلہ حسان: شیخ محترم! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں، قرآن کریم کے ساتھ کیسی محبت تھی ان کی؟ ان کے بارے میں کیسا کیسا حدیث میں آپ نے پڑھ رکھا ہے؟
مولانا راشدی: یہ تو، اس میں بیسیوں باتیں ہیں، لیکن میں گفتگو کا آغاز کروں گا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد گرامی سے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ ”من کان منکم مستنا فلیستن بمن قد مات“ ، ایک بات تو یہ فرمائی، جو آدمی کسی کو مقتدا بنانا چاہتا ہے نا، جس کو آئیڈیل کہتے ہیں ہمارے دور میں، آئیڈیل جس کو ہم کہتے ہیں، وہ جو فوت ہو چکا ہے نا، اس کو بنائے۔ ”فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ“ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے۔ بڑا بنیادی اصول بیان فرمایا ہے۔ یہ اصول بیان فرما کر ”من کان منکم مستنا فلیستن بمن قد مات“ جو دین پر فوت ہوئے ہیں، ان میں سے کسی کو آئیڈیل بناتا ہے تو بنائے۔ ’’ان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ‘‘ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے۔
پھر اس کی تشریح فرمائی ”اولئک اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کانوا ابرھا قلوباً واعمقھا علماً“۔ اقتدا کے قابل صحابہؓ کی جماعت ہے، دل کے انتہائی نیک تھے اور علم میں گہرے تھے۔ ان کے علم کی گہرائی کیسی، کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم اور وحی الہٰی کے اولین راوی وہ ہیں۔ قرآن پاک بھی ان سے روایت ہے، حدیث بھی ان سے روایت ہے، سنت بھی ان سے روایت ہے۔ وہ اگر درمیان سے خدانخواستہ نکال دیے جائیں تو نہ قرآن کا ہمیں کوئی سورس ملتا ہے، نہ حدیث و سنت کا، اور نہ اس دور کی سوسائٹی کا۔
قرآن پاک نے اس بارے میں یہ واضح فرمایا ہے، صحابہ کرامؓ سے خطاب کر کے، اس وقت کے مومنین صحابہ ہی تھے۔ ’’ان آمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق‘‘ باقی دنیا کو دعوت دی ہے کہ ایمان کیسا لاؤ، جیسے یہ لائے ہیں۔ ’’فان آمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا ‘‘ جیسے تم ایمان لائے ہو، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اگر ایسا ایمان لائے تو ہدایت پر ہیں۔ ’’وان تولوا‘‘ اگر وہ اس معیار سے ہٹ گئے ’’فانماھم فی شقاق‘‘ تو اختلاف میں ہیں۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حق، صداقت اور دین کا معیار خود قرآن پاک نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور الحمد للہ امت مسلمہ کی اکثریت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنا مقتدا، پیشوا، رہنما اور اتھارٹی سمجھتی ہے۔
ایک پہلو اور عرض کروں گا۔ دین کی بنیاد قرآن پاک ہے ۔ سنتِ رسول ہے، صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جماعتِ صحابہؓ ہے۔ کس حوالے سے؟ قرآن پاک تو اصول ہیں، اللہ پاک نے قوانین و ضوابط بیان کیے ہیں۔ ان قوانین و ضوابط کی پریکٹیکل شکل سنت ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ ارشاد معروف ہے، ان سے پوچھا گیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیا تھی، اخلاق کیا تھے؟ فرمایا ’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ اس کا میں اپنی زبان میں ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ وہ فرماتی ہیں، جو قرآن پاک میں تھیوری کے طور پر ہے وہ سنت میں پریکٹیکل کے طور پر ہے۔
قرآن پاک کو اگر پریکٹیکل کے طور پر دیکھنا چاہے تو حضورؐ کی زندگی ہے۔ حضورؐ کی ساری زندگی کو اگر تھیوری میں دیکھنا چاہیں تو قرآن پاک ہے۔ اور اس کی عملی شکل صحابہ کرامؓ ہیں۔ اصول و قوانین قرآن پاک ہیں۔ اس کی پریکٹیکل شکل سنتِ رسول ہے، صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور سوسائٹی کی پریکٹیکل شکل صحابہ کرامؓ کا دور ہے۔ اصول کیا ہیں؟ قرآن پاک ہے۔ اس کی پریکٹیکل شکل کیا ہے؟ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کی اجتماعی، سماجی شکل کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ کا دور۔ اور صحابہ کرامؓ سارے کے سارے۔
دیکھیں، کسی بھی طبقے میں مختلف مزاج کے مختلف افکار کے لوگ ہوتے ہیں، کوئی طبقہ خالی نہیں ہے۔ لیکن صحابہ کرام بحیثیت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، جن کو بھی امت نے صحابہ کرامؓ (کہا ہے)۔ یہ واضح ہے اس میں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
پچھلے دنوں ایک بحث چلی کہ ہمیں صحابیؓ کی ’’تعریف‘‘ کرنی چاہیے، کیا ہے؟ میں نے کہا وہ ہو چکی بھئی! یہ ری اوپن نہیں ہو گی۔ کسی صاحب نے سوال اٹھایا کہ ہم صحابہؓ کا احترام کرتے ہیں لیکن صحابیؓ کی ’’تعریف‘‘ بتاؤ کیا ہے۔ میں نے جی ہم اس کو ری اوپن نہیں کرنے دیں گے۔ وہ ہو چکی۔ امت چودہ سو سال سے جن کو صحابہ کرامؓ کہتی ہے، ان میں مہاجرین بھی ہیں، انصار بھی ہیں، ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ بھی ہیں، ان میں اہلِ بیت بھی ہیں، ان میں دنیا بھر کے صحابہ کرامؓ ہیں، جن کو امت نے چودہ سو سال سے صحابہ کرامؓ سمجھا ہے، اور جن کا محدثین نے اسمائے رجال کی کتابوں میں صحابہ کرامؓ کے طور پر درجہ بندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ وہ وہی رہے گا۔ ان کا دائرہ بھی وہی رہے گا، ان کی تعریف بھی وہی رہے گی۔ اگر صحابیؓ کی ’’تعریف‘‘ کو ری اوپن کیا جائے گا تو دین کی بنیادیں اکھڑ جائیں گی۔
صحابہ کرامؓ ، دین کے اصل راوی وہی ہیں۔ میں قرآن پاک کی بات کر رہا ہوں۔ دیکھیے! قرآن پاک جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کتابی شکل میں لکھا گیا ہے۔ تحریک کرنے والے بھی صحابی ہیں، حضرت عمرؓ۔ آرڈر دینے والے بھی صحابی ہیں، حضرت ابوبکرؓ۔ لکھنے والے بھی صحابی ہیں، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ اور بڑے مباحثے کے بعد۔ بڑا لمبا مباحثہ ہے اس پر۔ اور وہ کہتے ہیں میں نے کہاں سے لکھا ہے۔
بڑا مزے کا قصہ ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بلا کر کہا، یار حفاظ کرام شہید ہوتے جا رہے ہیں، حضرت عمرؓ نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر حافظ شہید ہوتے گئے تو قرآن پاک کے بارے میں کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے۔ تو اس لیے ہمارا مشورہ ہوا ہے کہ ہم قرآن پاک کو لکھ کر ایک ’’اسٹینڈرڈ نسخہ‘‘ رکھ لیں۔ (فرمایا کہ) تم لکھ دو، تم حضورؐ کے بڑے کاتب ہو۔ انہیں بھی اشکال تھا لیکن بہرحال دور ہو گیا۔
اب وہ اپنی کہانی سناتے ہیں کہ میں نے کیسے لکھا۔ کہتے ہیں میں خود حافظ تھا، مجھے یاد تھا، لیکن بہرحال میں ایک شخص ہوں، ایک آدمی ہوں۔ میں نے ایک اصول طے کیا کہ قرآن پاک کی کوئی آیت، کوئی سورت، کوئی جملہ، کوئی ترتیب، جو مجھے یاد ہے، میں نے خود حضورؐ سے سنی ہوئی ہے، لیکن اپنے سوا دو گواہ اور تلاش کروں گا، تاکہ شہادت کا نصاب مکمل ہو۔ جو یہ کہیں کہ جیسے تم نے سنا ہے ویسے ہی ہم نے بھی سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فارمولا طے کیا، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کہ یا حضرت! میرا (یہ منصوبہ ہے)۔ فرمایا، بالکل ٹھیک ہے۔ (حضرت زید بن ثابتؓ :) بالکل سنا ہے میں نے حضورؐ سے، مجھے یاد ہے، لیکن ایک انسان ہوں، آگے پیچھے ہو سکتی ہے بات۔ کم از کم دو گواہ مجھے اور ملیں گے کہ وہ یہ کہیں کہ جیسے تم نے سنا ہے نا، ویسے ہی ہم نے بھی سنا ہے۔ تب لکھوں گا۔
کہتے ہیں، مجھے چھ مہینے لگے۔ کسی کے پاس لکھی ہوئی تھی سورت، کسی کے پاس ہڈی پہ، کسی پتے پہ، کسی کے پاس کھال پر، سارے جمع کیے۔ چھ مہینے مجھے لگے جمع کرنے میں اور تقابل کرنے میں۔ پورا قرآن پاک مکمل کر لیا میں نے۔ لیکن دو آیتوں پر آکر میرا گیئر پھنس گیا۔ وہ جو فارمولا طے کیا تھا نا۔ سورۃ یونس کی آخری آیات ہیں ’’لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم‘‘ دو آیتیں یہ۔ اور ایک سورۃ الاحزاب کی ہے ’’من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ‘‘۔ مجھے یاد ہے، میں حضورؐ سے سنا ہے، اور اس پر گواہ ایک مل رہا ہے۔ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ دوسرا نہیں مل رہا۔ بہت تلاش کیا، لیکن ان دو آیتوں پر مجھے دوسرا گواہ نہیں مل رہا۔
بہت محنت کی لیکن نہیں مل رہا، اب کیا کروں؟ تو میں نے وہی رپورٹ اسی حالت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دی۔ یا حضرت! آپ کے حکم کے مطابق، اور آپ سے طے شدہ اصول کے مطابق میں نے سارا قرآن پاک مرتب کر لیا ہے، لیکن ان دو آیتوں پر ہمارا وہ فارمولا فٹ نہیں ہو رہا کہ میرے سوا دو گواہ ہوں۔
(حضرت صدیق اکبرؓ نے) فرمایا: وہ ایک گواہ کون سا ہے؟
جی، خزیمہ بن ثابتؓ۔
وہ جو شہادتین (والے ہیں)؟
جی، وہی ہے۔
ہو گیا کام۔ جس کی گواہی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گواہوں کے قائم مقام قرار دیا تھا۔
یہ میں عرض کرتا ہوں، اگر آپ قرآن پاک پڑھتے ہیں تو اس کا راوی کون ہے، سورس کون ہے ہمارے پاس؟ زید بن ثابتؓ ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں۔ جو کہتے ہیں میں نے یہ سنا ہے، میں نے یہ سنا ہے۔ اور سنتِ رسولؐ اور حدیثِ رسولؐ کے تو وہ صرف راوی نہیں ہیں، گواہ بھی ہیں۔ کسی صحابیؓ نے حضورؐ سے بات سنی ہے وہ نقل کر رہا ہے، حدیث ہے۔ کسی صحابیؓ نے حضورؐ کو کام کرتے دیکھا ہے، نقل کر رہا ہے، سنت ہے۔ وہ صرف راوی نہیں ہیں، گواہ بھی ہیں۔
اس لیے ایک بزرگ کا قول مجھے بہت اچھا لگا، غالباً امام رازیؒ کا ہے یا کسی (اور) بزرگ کا ہے، کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دین کے گواہ ہیں۔ قرآن پاک کے نزول کے بھی گواہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شب و روز کے بھی گواہ ہیں۔ حضورؐ کے ارشادات کے بھی گواہ ہیں۔ حضورؐ کے اعمال کے بھی گواہ ہیں۔ کسی مقدمے کو کمزور کرنے کے لیے گواہوں کو کمزور کیا جاتا ہے۔ ’’اذا رايت الرجل ينتقص احداً من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ غالباً امام زرعہ رازیؒ کا قول ہے یہ۔ اگر کسی کو دیکھو کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا نقص نکال رہا ہے، کسی کی کمزوریاں بیان کر رہا ہے، کسی کی حیثیت کو مجروح کر رہا ہے، تو سمجھ لو کہ وہ دین کے گواہوں کو مجروح کر رہا ہے۔ جیسے عدالت میں کھڑے ہو کر گواہ پر جرح کی جاتی ہے۔ وہ گواہوں پر جرح کر رہا ہے۔ اور گواہوں پر جرح کرنے سے اثر کس پر پڑتا ہے؟ کیس پر۔
اس لیے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب، اہلِ بیتِ عظام بھی، مہاجرین بھی، انصار بھی، اور ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں، سب ایک دائرے میں ہیں۔ درجہ بندی ہے، درجہ بندی سے انکار نہیں ہے۔ لیکن بطور حجت ہونے میں، بطور آئیڈیل ہونے میں، بطور راہنما ہونے میں۔ بلکہ ایک بات اور میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جب اس پر بات ہوتی ہے، میں کہتا ہوں یار! مہاجرین کی تعداد گن لیں، انصار کی تعداد گن لیں، اور ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ کی گن لیں۔ بڑا گروپ کون سا ہے؟ ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘۔ غالباً اَسّی فیصد ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ ہیں۔ فتح مکہ کے بعد ہی سارے مسلمان ہوئے ہیں۔ تو یہ صحابہ کرامؓ تو ہمارا ایمان ہیں اور ایمان کی بنیاد ہیں۔
محمد حنظلہ حسان: بالکل ٹھیک ہے۔ شیخ محترم! بہت اہم سوال ہے۔ ہم ایک وقت تھا کہ تین سو تیرہ تھے اور سامنے ہزار کا لشکر تھا، لیکن تین سو تیرہ غالب آ گئے۔ ہم اس وقت اتنی کثیر تعداد میں علماء کرام ہیں، جو الحمد للہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، سب کے سب صحابہؓ کو مانتے ہیں۔ نعوذ باللہ بن ذالک، نعوذ باللہ، العیاذ باللہ۔ ’’نقلِ کفر، کفر نہ باشد‘‘۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں سوشل میڈیا پہ، وہ مناظرے کر رہے ہیں، چیلنج کر رہے ہیں کہ جی آپ نعوذ باللہ نعوذ باللہ حضرت عمرؓ کا ایمان ثابت کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا، ماں جی کا ایمان ثابت کریں۔ شیخ محترم! ان کو جواب دینے والا کوئی بھی نہیں ہے؟ حکمران کیوں خاموش ہیں ایسے لوگوں پر، پابندی کیوں نہیں ہے؟
مولانا راشدی: حکمران تو نہیں کریں گے لیکن اہلِ علم نے تو ہر دور میں جواب دیا ہے، کوئی دور خالی نہیں ہے، اس قسم کے سوالات بھی ہوئے ہیں، جوابات بھی ہوئے ہیں، آپ کسی بھی دور کے اہلِ علم کا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو خالی نہیں ملے گا۔ اصل بات یہ ہے، دو وجہیں ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ ایک نیا رجحان جو پیدا ہو گیا جی آزادئ رائے، آزادئ رائے، کسی قدغن کے بغیر، کسی پابندی کے بغیر، اس نے یہ زبانیں کھولی ہیں کہ اس پہ بھی بحث کرو، اس پہ بھی بحث کرو، اس پہ بھی بحث کرو۔ بہرحال ’’کل جدید لذیذ‘‘ ہر نئی چیز پہ جی چاہتا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم جو اہلِ علم کہلاتے ہیں، پرانے بزرگوں کی بات نہیں کرتا، ہمیں مطالعے کا ذوق نہیں رہا۔ ہم بھی سنی سنائی بات کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں متقدمین سے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر اب تک ہمارے اہلِ علم نے مسائل کا، سوالات کا جواب نہ دیا ہو، ہر دور میں دیا ہے۔ اصل میں ضرورت ہے مطالعے کی۔ اس میں ہمارے نوجوان اہلِ علم جو ہیں نا، وہ مطالعہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ ہم مطالعہ کریں گے تو میں کہا کرتا ہوں کہ دو چار بڑوں کو، جیسے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں، انہوں نے اس موضوع پہ کام کیا ہے، شاہ ولی اللہؒ ہیں، شاہ عبد العزیزؒ ہیں، جنہوں نے کام کیا ہے۔ ان لوگوں کا کام مطالعہ کریں، اس کے بعد کوئی سوال رہ گیا ہو تو مجھ سے پوچھ لیں۔ کوئی خلا نہیں ہے، کوئی کمی نہیں ہے، صرف مطالعہ کی کمی ہے۔ اور سنی سنائی باتوں پر متاثر ہو جانا، اور سنی سنائی باتوں کو نقل کرنا اور موضوع بنا لینا۔ یہ بلا وجہ موضوع بنا لینا، ایک تو یہ بے خبری کی وجہ سے ہوتا ہے، اور بعض دفعہ موضوع بنایا جاتا ہے ’’بے خبری‘‘ کو فروغ دینے کے لیے، پروگرام بھی ہوتا ہے۔
بات متعلقہ نہیں ہے لیکن ابھی مجھ سے یہاں آتے آتے ایک دوست نے سوال کیا فلسطینیوں کے بارے میں۔ ابھی جواب دیا ہے میں نے، آپ کے بیٹھے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جی یہ فلسطینیوں کے دو گروپوں میں اختلاف ہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟ میں نے کہا یار! بھائی اگر نہر میں ڈوب رہا ہو تو اس سے اختلاف نہیں پوچھے جاتے، اس کو نکالا جاتا ہے پہلے۔ وہ ڈوب رہا ہے، ڈبکیاں کھا رہا ہے اور ہم اس سے پوچھ رہے ہیں کہ کیوں؟ اللہ کے بندے! پہلے اس کو نکالو پھر پوچھ لینا۔ ایک آدمی اپنی غلطی سے گر گیا ہے، پہلے نکالیں گے یا غلطی پر ڈانٹیں گے؟
یہ بات اس لیے عرض کی ہے کہ ہمارا مزاج بن گیا ہے، سوال جواب، سوال جواب، صورتحال دیکھے بغیر۔ ہمارا مطالعہ ہوتا نہیں ہے، سنی سنائی باتیں کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ پھر ادھورے سوال، ادھورے جواب کنفیوژن میں اضافہ کرتے ہیں۔ پہلے مطالعہ کرنا چاہیے، اپنے بزرگوں کو پڑھنا چاہیے، میں کہتا ہوں کوئی سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب موجود نہ ہو، لیکن ہمیں تھوڑا تھوڑا ان کو پڑھنا بھی چاہیے۔
محمد حنظلہ حسان: بالکل ٹھیک ہے۔ شیخ! حالات، اسباب اور علماء کی ذمہ داریاں، اس پہ آپ ذرا روشنی ڈال دیں۔
مولانا راشدی: گزارش یہ ہے کہ علماء کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ حالات کو سمجھیں۔ وہ ہمارا اصولِ فقہ کا معروف ’’من لم یعرف اہل زمانہ فھو جاہل‘‘ جب ہم افتاء کے کورس پڑھاتے ہیں تو پہلے یہ۔ جو زمانے کو نہیں جانتا، کتاب کو جانتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کتاب کو جانتے ہیں، کتابی مباحث کو جانتے ہیں۔ جس سوسائٹی پہ اطلاق کرنا ہے، سوسائٹی کو نہیں جانتے۔
محمد حنظلہ حسان: شیخ آپ سمجھتے ہیں کہ علماء میں یہ کمزوری ہے؟ تو اس کا کوئی سدباب؟
مولانا راشدی: بالکل ہے۔ ہم سوسائٹی سے واقف ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ دیکھیے! ایک بیج کو میں جانتا ہوں، بیج کے تقاضے سارے سمجھتا ہوں۔ زمین کو نہیں جانتا، کس زمین پہ بیج بو رہا ہوں۔ میں صرف بیج تو نہیں دیکھوں گا، زمین بھی دیکھوں گا۔ اس کے مطابق محنت بھی زمین اور بیج دونوں کو دیکھ کر کروں گا۔ کتنا پانی ڈالنا ہے، کتنی گوڈی کرنی ہے۔ ایک ہے کتاب کا علم، وہ تو لازمی بات ہے۔ لیکن جہاں اس بیج کو لگانا ہے اس زمین کو بھی تو جانو! کہاں کون سا بیج ڈال رہے ہو، یہ ہضم ہو گا، نہیں ہو گا، چلے گا، نہیں چلے گا، کیا ہو گا۔ اس سوسائٹی سے واقف ہونا، پہلی بات یہ ہے۔
میں نے ایک بات عرض کی تھی کہ ہم مطالعہ نہیں کرتے۔ ہمارا ماحول میں اس کے ساتھ خلا ہے۔ جو اہلِ دین ہم کہلاتے ہیں، ہماری زندگی اور سوسائٹی کی عام زندگی میں بہرحال فرق موجود ہے۔ یہ فرق تو میں کہتا ہوں قائم رہنا چاہیے، لیکن فرق کی وجوہات تو معلوم ہونی چاہئیں نا۔ یہ مجھ سے مختلف کیوں ہے؟ میں اس سے مختلف کیوں ہوں؟ اس خلا کو کیسے پر کیا جا سکتا ہے۔ تو سوسائٹی سے، ماحول سے، ماحول کے تقاضوں سے واقف ہونا اور اس کو سامنے رکھ کر مسئلے کو ڈیل کرنا۔ اصل میں تفقہ اسے ہی، فقہ اسے ہی کہتے ہیں۔
محمد حنظلہ حسان: ہمارے مدارس نے الحمد للہ الحمد للہ، اس میں تو کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں کہ ہمارے مدارس نے ہمیں کیا دیا ہے۔ الحمد للہ کثیر تعداد میں بہت کچھ دیا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، جو کچھ ہمارے پاس ہونا چاہیے، وہ ہمارے مدارس نے ہمیں دیا ہے۔ لیکن سوسائٹی اور ماحول کے مطابق ہمارے علماء کو کیا کرنا چاہیے؟
مولانا راشدی: میں دو گزارشات کیا کرتا ہوں، وہ یہاں بھی عرض کر دیتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں، اس سوسائٹی کی نفسیات سمجھیں، ان کی فریکونسی میں بات کریں ان سے۔
دوسری بات، بہرحال مسائل میں اختلاف تو ہوتا ہے، فطری بات ہے، جہاں عقل ہو گی وہاں اختلاف بھی ہو گا، اختلاف نہ ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے، اختلاف ہونا نیچر ہے۔ لیکن اختلاف کو اختلاف سمجھیں، اختلاف کو جھگڑا نہ بنائیں۔
مثلاً یہاں ہمارے ہاں تین چار مکاتب فکر ہیں، میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے یار! علاقے کے علماء کبھی مل بیٹھ کر چائے پی لیا کرو بس۔ میری تقریباً چالیس پچاس سال سے یہ کمپین ہے پورے ملک میں۔ (اور) کچھ نہ کرو یار۔ اور ہم نے اپنا ماحول بنایا ہوا ہے، گوجرانوالہ میں ہمارا ماحول ہے۔ ہمارے اہل حدیث بھائی بھی، بریلوی دوست بھی، شیعہ بھی بسا اوقات، ہم سارے، جماعت اسلامی بھی، ہم وقتاً فوقتاً اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ اور کبھی دیر ہو جائے، چونکہ داعی میں ہوتا ہوں، گزشتہ نصف صدی سے ایسی مجالس کا داعی میں ہوں الحمد للہ، دوست کہتے ہیں یار، کافی عرصہ ہو گیا ہے چا نئیں پیائی تساں۔
میں یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک علاقے کے علماء کرام صرف دو مہینے کے بعد اکٹھے چائے پر لوگوں کو نظر آجائیں، پچاس فیصد کام آپ کا ہو گیا۔ (اور) کچھ نہ کریں آپ۔ صرف لوگوں کو نظر آئے کہ علاقے کے پندرہ بیس علماء کرام آپس بیٹھے چائے پی رہے ہیں اور خوش دلی سے گپ شپ کر رہے ہیں، یہ نظر آجائے بس۔ تو آپ کا آدھا کام تو ہو جاتا ہے۔ یہ آپس کی ہم آہنگی۔
یہ دو گزارشات کی ہیں۔ ایک گزارش یہ کی ہے کہ سوسائٹی، لوگوں کی نفسیات، اس کی ضروریات سے واقفیت۔ اور دوسری بات، دین کی بات کرنے والوں کو باہمی ہم آہنگی شو کرتے رہنا چاہیے۔ ان شاء اللہ ہمارے کام کے اثرات ہوں گے۔ (اثرات) ہیں بھی، ایسی (بات نہیں ہے)۔
محمد حنظلہ حسان: الحمد للہ۔ شیخ محترم! یہی بات ہے، دیکھیں میں نے جو آپ سے سوال کیا کہ علماء نے بہت کچھ ہمیں دیا، مدارس نے بہت کچھ دیا ہے، لیکن اب چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے، وہ جو آپ نے بات کی ’’کل جدید لذیذ‘‘ ہر نئی چیز وہ ایک نیا ٹیسٹ دیتی ہے، اور ہمارے نوجوان تو اس کو خوشی سے ایکسپٹ کرتے ہیں، فار ایزیمپل، ٹک ٹاک ہے، فیس بک ہے، سوشل میڈیا کے جتنے بھی پلیٹ فارمز ہیں، آج کل ایک ایسی شخصیت ہے، ایک ایسے عالم ہیں، میں ان کو عالم کہوں، یا ان کو شخصیت کہہ لوں، مرزا محمد علی جہلمی صاحب، انہوں نے لبرل ازم، ینگ جنریشن کو کس طرح اپنے قابو میں کر رکھا ہے، اس کے پیچھے وجہ کیا ہے؟
مولانا راشدی: نہیں، میرے خیال میں ایسی بات نہیں ہے، کچھ لوگوں ان کے قابو میں ہیں۔ لیکن میں ایک بات عرض کرتا ہوں، میں ایک اصول (بتاتا ہوں)، کسی شخصیت کا نام لیے بغیر۔
سوشل میڈیا پہ بہت سے لوگ آتے ہیں، میں کہتا ہوں جو آدمی نئی نسل کے ذہن سے شکوک ختم کرنے کی بات کر رہا ہے وہ حق کی بات کر رہا ہے، جو اضافے کی بات کر رہا ہے وہ گمراہی کی بات کر رہا ہے۔ کسے باشد۔ جس کی گفتگو سے شکوک دور ہوتے ہیں وہ حق کا نمائندہ ہے، جس کی گفتگو سے شکوک میں اضافہ ہوتا ہے وہ باطل کی (نمائندگی کرتا ہے)۔ میں اصولی (بات کرتا ہوں) ، میں کسی شخصیت کی (بات نہیں کرتا)۔
میرا اصول یہ ہے، میں خود، مجھے موقع ملتا ہے تو میں کہتا ہوں یار ، بہت سے دوست رابطے میں رہتے ہیں، میں کہتا ہوں یار، ایسی کوشش کرو کہ جو شکوک موجود ہیں نا، ان کو کم کرنے کی کوشش کرو، اپنی گفتگو سے، اپنی تحریر سے، اپنے طرز عمل سے۔ ان میں اضافے کی کوشش نہ کرو یار۔ نئی نسل، پہلے ہی ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا جنگل ہے۔ کانٹے چنو یار! کانٹے پھینکو نہیں۔
اور نئی نسل کے بارے ایک بات میں آپ سے بھی عرض کروں گا، نئی نسل بے قصور ہے (کیونکہ) بے خبر ہے، بے علم ہے۔ علم ہم نے دیا نہیں، شکوک دے رہے ہیں۔ میں ایک چھوٹی سی مثال (دیتا ہوں) کل ہی میرا ایک کالم چھپا ہے۔ جس بات کا ان کا علم نہیں ہے، اس کے بارے میں ان کے ذہن بات ڈالو گے، شک ہی پیدا ہو گا۔ ایک بڑا دلچسپ سوال ہے، کل اخبار میں چھپا بھی ہے میرا کالم۔
ایک نوجوان ملا مجھے، کہتا ہے جی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبرِ واحد کی حفاظت کا اہتمام کیا تھا؟
میں سمجھ گیا کہاں سے بول رہا ہے یہ۔ میں نے کہا بیٹا! یہ بتاؤ، تمہاری تعلیم کیا ہے؟ کہنے لگا، تھرڈ ایئر کا طالب علم ہوں۔ میں نے کہا، اچھا، علمِ حدیث پڑھا ہے؟ نہیں۔ میں نے کہا علمِ حدیث کے بارے میں کوئی اردو کی کتاب بھی پڑھی ہے؟ نہیں۔ واقف ہو علمِ حدیث( سے)؟ نہیں میں نہیں واقف۔ تو یہ سوال تمہارے ذہن میں کیسے آیا کہ خبرِ واحد کی حفاظت کا حضورؐ نے کوئی اہتمام نہیں کیا تھا، یہ کیسے آ گیا؟ کہنے لگا کہ ایک صاحب گفتگو فرما رہے تھے، انہوں نے کہا، خبرِ واحد کا تو حضورؐ نے حفاظت کا اہتمام ہی نہیں کیا، تو یہ کہاں سے آگئی؟
اب ایک آدمی جو بالکل نہیں جانتا، نہ حدیث کو، نہ حدیث کے اصول کو، کچھ نہیں پڑھا ہوا ، اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دو، کیا کرے گا وہ؟
میں نے کہا بیٹا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظت کا اہتمام (جیسے) تم کہتے ہو، قرآن کریم کا کیا تھا؟ کہتا ہے جی نہیں۔ میں نے کہا قرآن پاک کو نکال دو گے درمیان سے؟ یہ صحابہؓ نے کیا ہے، جب ضرورت پڑی ہے۔ خدا کے بندے کیا کر رہے ہو، جو تمہارا لیول نہیں ہے۔ پرائمری کے بچے سے ایم اے کے لیول کا سوال کرو گے تو مصیبت میں پڑے گا۔
محمد حنظلہ حسان: ظاہر ہے اس کو پتہ ہی نہیں تو وہ کیا جواب دے گا، پریشان ہو جائے گا۔
مولانا راشدی: ایک شخص کے پاس علم نہیں ہے، آپ اس کے پاس فلسفے کا سوال کر رہے ہیں، وہ گمراہ ہو گا۔ اور بے قصور ہو گا۔ قصور ہے اس کو بے علم رکھنے والوں میں، اور قصور ہے اس کے علم کے دائرے سے اوپر کے سوالات کرنے والوں میں۔ میں اس معاملے میں نئی نسل کا وکیل ہوں، ان کا قصور کوئی نہیں ہے، وہ بے قصور ہیں۔
اب خالی برتن ہے، چوک میں رکھ دیں گے تو جو جس کا جی چاہے گا ڈالے گا۔ آپ کا برتن اگر پُر ہو گا تو سب دور ہٹیں گے، یار اس میں پڑا ہوا ہے۔ آپ اپنی نئی نسل کے خالی دلوں کو، خالی دماغوں کو، سوشل میڈیا کے سامنے پھینک رہے ہیں، وہ کیا ڈالیں گے؟ جو وہ ڈالیں گے، وہی لیں گے وہ۔ بیچاروں کا قصور کوئی نہیں ہے۔
اس لیے ہمیں سب سے پہلے نئی نسل کو دین سے مثبت انداز میں مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔ آج مجھ سے کوئی پوچھتا ہے، میں کہتا ہوں یار! نئی نسل، بچہ ہو یا بچی، جو کالج کی عمر کو پہنچ گیا ہے نا، اس کو نو مسلم سمجھ کر ڈیل کرو۔ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اور ہمدردی سے، محبت سے، پیار سے۔ اس کے سوالات پر گبھراؤ نہیں، گالیاں مت دو، فتوے مت لگاؤ۔ محبت سے سمجھاؤ بیٹا! بات یوں نہیں، یوں ہے، ایسے نہیں، ایسے ہے۔ وہ سوال کرتا ہے، ہم ڈانٹ دیتے ہیں۔ تو میرے ڈانٹنے سے اس کا شک کم ہو گا یا زیادہ ہوگا؟ اور ادھورا جواب دینے سے کیا ہو گا؟
دو باتیں علماء کرام سے۔ ایک تو نئی نسل سے نفرت نہیں کریں، محبت سے پیار سے بات کریں۔ اور سوال کو سمجھ کر۔ ایک ہماری نفسیات یہ بھی ہے کہ میں نے یہ نہیں کہنا کہ مجھے اس وقت معلوم نہیں ہے، معلوم کر کے بتاؤں گا۔ فوری طور پر جو جواب ذہن میں آیا، دے دیا۔ وہ شکوک میں اضافہ کرتا ہے۔ مجھے اسٹڈی کرنا چاہیے۔
محمد حنظلہ حسان: حضور، سود کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے، اس کی حرمت کا، لیکن اس پر عملدرآمد کیوں نہیں؟
مولانا راشدی: فیصلے تو کئی دفعہ ہوئے۔ دستور میں واضح لکھا ہوا ہے، گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد سودی قوانین اور نظام کو ختم کرے۔ دستور کا یہ حکم کسی فیصلے کا محتاج نہیں ہے۔ دستور کہہ رہا ہے۔ اچھا، پارلیمنٹ نے طے کیا ہوا ہے، وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا ہوا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہوا ہے، ایک دفعہ نہیں دو دفعہ دیا ہے۔ عمل اس لیے نہیں ہو رہا کہ وہ اسٹے در اسٹے کے چکر میں۔ میں اس پر ایک مثال دوں گا۔ میں خود انسدادِ سود کی تحریک سے وابستہ ہوں، گزشتہ تیس سال سے، اور الحمد للہ اس وقت ’’تحریکِ انسدادِ سود‘‘ کے نام سے مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کا جو فورم ہے، اس کا کنوینر ہوں، الحمد للہ۔
میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک تو ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہ فلاں فلاں قوانین سودی ہیں، ختم کرو۔ وہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دے دیا کہ فیصلہ ٹھیک ہے، عمل کرو۔ وہ دوبارہ نظرِ ثانی کے لیے چلا گیا۔ میں طریقۂ واردات آپ کو بتا رہا ہوں۔ ہماری روایت یہ ہے، جس بینچ نے فیصلہ کیا ہے ، نظرِ ثانی کی اپیل بھی وہی سنتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ جو بینچ تھا، جس نے سنا تھا۔ یہ سپریم کورٹ کا شریعت ایپلیٹ بینچ ہو، یا وفاقی شرعی عدالت ، یہ جج مستقل نہیں ہوتے، ایڈہاک پر ہوتے ہیں۔ انتظار کیا گیا، نظرِ ثانی کی اپیل ایکسپٹ کر لی گئی، جن ججوں نے فیصلہ کیا ہے، وہ اپنی مدت پوری کریں، نئے جج آئیں، وہ فیصلہ کریں۔ ڈیڑھ دو سال انتظار کیا گیا، سب کی مدتیں ختم ہو گئیں، نئے بینچ میں ان میں سے ایک بھی نہیں لیا گیا۔ نئے جج لیے گئے، انہوں نے اپیل سنی، نظرِ ثانی کی اپیل ہے، فیصلہ کیا دیا کہ سماعت میں سقم رہ گیا ہے، اس کو ازسرِنو سماعت کیا جائے۔ بس اتنی سی بات۔
اس سے کیا ہوا؟ انیس سال سے وہ کیس چل رہا تھا ،اب زیرو پوائنٹ پہ چلے گئے۔ اس ایک جملے سے (کہ) سماعت میں فلاں جگہ سقم رہ گیا ہے، گواہوں پہ جرح نہیں ہوئی یا کیا ہوا تو ازسرِنو غور کیا جائے۔ انیس سال پہلے کے زیرو پوائنٹ پہ چلے گئے۔ میں نے اس پہ لکھا کہ ہمیں لڈو کا سانپ لڑ گیا ہے۔ ہم کھیلتے کھیلتے ننانوے تک پہنچے تھے، سانپ لڑا ہے، ہم زیرو پر آ گئے ہیں۔ یہ ہمارا طریقِ واردات ہے۔
ایک اور بات شامل کر لیں۔ جن ججوں نے یہ فیصلہ کیا، ان میں سے ایک جج صاحب ریٹائر ہوئے، میری ملاقات ہوئی ان سے، اب فوت ہو گئے ہیں، اللہ پاک غریقِ رحمت کرے، میں دعا کروں گا ان کے لیے۔ میں نے کہا جناب آپ نے یہ کیا کیا؟ آپ سیدھا کہہ دیتے کہ فیصلہ غلط ہے۔ یہ آپ نے ٹیکنیکل راستہ اختیار کیا، یہ کیوں کیا؟ آپ کہہ دیتے فیصلہ غلط ہے۔ تو ان کا ارشاد یہ تھا کہ یہ بات لکھ کر ہم نے کافر ہونا تھا؟ یہ جج صاحب نے کہا کہ یار یہ بات لکھ کر ہم نے کافر ہونا تھا کہ فیصلہ تو ٹھیک تھا۔ ہم نے صرف روکنا تھا، روک دیا۔
سود کے مسئلے پر اتنی زیادتی ہو رہی ہے، اتنی زیادتی ہو رہی ہے، کوئی ابہام نہیں ہے کسی معاملے میں، قوانین کے حوالے سے، سسٹم کے حوالے سے، کوئی ابہام نہیں ہے۔ صرف پالیسی ہے کہ نہیں ہونے دینا۔
محمد حنظلہ حسان: صرف پالیسی ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، عملدرآمد تو نہیں ہو سکتا نا، بالکل نہیں ہو سکتا۔
مولانا راشدی: بالکل نہیں ہو سکتا، اسٹے پڑا ہوا ہے۔ اب وہ چل رہی ہے بات۔ اس میں ہم کہتے ہیں شروع کرو یار، شروع کرو۔ نہیں، جب جی چاہے گا شروع کریں گے۔ کب شروع کریں گے؟ جب بینچ ان کی مرضی کا بنے گا۔
محمد حنظلہ حسان: تو اپنی مرضی کا پھر وہ فیصلہ کریں گے، بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پہ رحم فرمائے، بس یہی کہہ سکتا ہوں میں تو اس پہ۔
مولانا راشدی: میں صرف علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں یار آواز لگاتے رہا کرو، آواز لگاتے رہو، خاموش نہ ہو۔
محمد حنظلہ حسان: اپنا حق ادا کریں، باقی اللہ پہ چھوڑ دیں، بس یہی بات ہے۔ حضور، بہت اہم سوال ہے۔ لڑکا اور لڑکی اور کورٹ میرج۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
مولانا راشدی: دیکھیں، ایک کورٹ میرج ہے مغرب کا، وہ تو مذہب سے آزاد ہیں۔ مغرب کا کورٹ میرج یہ ہے کہ کوئی مذہب کی پابندی نہیں ہے۔… کورٹ میرج میں اگر شرعی طریقے سے جج نکاح کروا دے تو ہو جاتا ہے۔ لیکن شرعی قوانین کو نظر انداز کر کے، مغرب کی طرز پہ ہے، تو نہیں ہو گا۔
محمد حنظلہ حسان: شرعی، مثلاً اس کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔
مولانا راشدی : ایجاب و قبول، گواہ، مسلمان ہونا۔ اس کی جو شرائط ہیں۔ دونوں مسلمان ہوں، اور ایجاب قبول شرعی طریقے سے ہو، اور گواہ شرعی طریقے سے ہوں۔ اگر جج نے اس کا اہتمام کیا ہے تو نکاح ہو جائے گا۔ اور اگر نہیں، ٹھیک ہے جی آ گئے ہیں، نہیں نہیں یہ نہیں۔
محمد حنظلہ حسان: بالکل ٹھیک ہے، مطلب پھر تو وہ آپ حرام کہہ سکتے ہیں اس کو، بالکل ٹھیک ہو گیا۔
مولانا راشدی: جو ’’شرعی ایس او پیز‘‘ ہیں، وہ پورے کریں گے۔
محمد حنظلہ حسان: شیخ محترم! آخری سوال ہے۔ مدارس کے طلباء کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
مولانا راشدی: مدارس کے طلباء سے میں یہ عرض کروں گا کہ، بنیادی بات وہی جو علماء سے عرض کی ہے، کہ جس سوسائٹی میں آپ جا رہے ہیں، اس کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کی فریکونسی میں بات کریں۔ ہماری فریکونسی الگ ہے، سوسائٹی کی فریکونسی الگ ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔
ایک صاحب نے نیویارک میں مجھ سے سوال کیا قادیانیوں کے بارے میں، قادیانی کافر کیوں ہیں؟ اب اس پر ایک ہمارا روایتی انداز ہے، میں اس پر قرآن پاک کی آیت پڑھ سکتا ہوں، سو حدیثیں پڑھ سکتا ہوں۔ یہ سوال کرنے والا یہودی تھا۔ اب وہ دلیلیں اس کی تو نہیں ہیں۔ اس کو نہ قرآن پاک کی آیت کا کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس کو کامن سینس میں بات کرنی ہے۔ میں سوال عرض کرتا ہوں کہ آج کی ضرورت کیا ہے۔ کامن سینس میں بات کریں اور لوگوں کی فریکونسی سمجھ کر بات کریں۔ اپنی روایتیں، وہ ہمارے لیے دلائل ہیں، سارے ہیں، ان کے لیے نہیں ہیں۔
اس نے سوال کیا کہ قادیانی رسول اللہ کو مانتے ہیں، قرآن کو مانتے ہیں، تو آپ انہیں مسلمان کیوں نہیں سمجھتے؟ سوال کرنے والا یہودی ہے اور جرنلسٹ ہے۔ میں نے کہا یار بات سنو کہ آپ یہودی ہیں؟ کہا، ہاں۔ کیوں یہودی ہیں، موسیٰ علیہ السلام کو مناتے ہیں، توراۃ کو مانتے ہیں۔ کہا، ہاں۔ میں نے کہا وہ تو میں بھی مانتا ہوں، تم سے زیادہ مانتا ہوں۔ اگر میں خدانخواستہ کہیں کلیم کروں کہ مجھے یہودی تسلیم کرو، کرو گے؟ اس نے کہا، نو۔ وائے؟
میں نے کہا عیسائی، عیسائی کیوں ہیں کہ انجیل کو مانتے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ (میں نے کہا) میں بھی مانتا ہوں یار۔ ان سے زیادہ مانتا ہوں عیسیٰ علیہ السلام کو۔ وہ تو ماضی کا پیغمبر مانتے ہیں، میں مستقبل کا بھی مانتا ہوں۔ اگر میں خدانخواستہ کہیں کلیم کروں (عیسائی ہونے کا)۔ کہتا ہے، نہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ تم بتاؤ۔
اس نے کہا ٹھیک ہے، تم موسیٰ اور تورات کو مانتے ہو، لیکن اس کے بعد نیا نبی بھی مانتے ہو نا۔ تم عیسیٰ اور انجیل کو مانتے ہو، اس کے بعد نیا نبی تو مانتے ہو نا۔ نیا نبی ماننے سے، نئی وحی ماننے سے تم الگ ہو گئے ہو۔ نہ تم یہودی کہلا سکتے ہو، نہ عیسائی کہلا سکتے ہو۔ میں نے کہا، اصول یہ طے ہوا کہ نیا نبی، نئی وحی، اس سے مذہب الگ ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے، یس۔
میں نے کہا، یہی دلیل میری ہے۔ (قادیانی) قرآن کو مانتے ہوں گے میں انکار نہیں کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانتے ہوں گے، لیکن اس کے بعد نیا نبی مانتے ہیں، نئی وحی مانتے ہیں، ان کا مذہب الگ ہے۔ کہتا ہے، انڈراسٹینڈ۔ جو مرضی کہلائیں، مسلمان نہ کہلائیں۔ جیسے میں یہودی نہیں کہلا سکتا، عیسائی نہیں کہلا سکتا، وہ بھی نہیں کہلا سکتے۔
میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ مخاطب کی فریکونسی پر بات کریں، کامن سینس میں بات کریں۔ یہ سیکھیں، یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ ہم میڈیا سیکھتے ہیں کہ نہیں سیکھتے، تو کامن سینس سیکھیں، آج کی جو زبان ہے ، دین کی بات کریں لیکن آج کے لہجے میں بات کریں۔ ایک مثال اور دے کر میں بات ختم کرتا ہوں۔
ایک دفعہ برطانیہ میں، برمنگھم میں ایک سیمینار تھا، عورت کے حقوق کی بات ہو رہی ہے۔ عورت کی آزادی، عورت کے حقوق۔ میں بھی بیٹھا تھا۔ میں نے کہا یار عورت کہتے کس کو ہیں، ڈیفنیشن کرو پہلے۔ جس عورت کی رائے اور آزادی کی آپ بات کرتے ہیں، عورت کسے کہتے ہیں، پہلے ڈیفنیشن کیا ہے اس کی؟ میں نے کہا آپ کے ملک کے قانون میں سولہ سال تک تو وہ اسکول کی پابند ہے، اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہے، جبری تعلیم ہے ۔ برطانیہ میں سولہ سال تک جو اسکول نے کہنا وہ کرنا ہے اس نے۔ آزادئ رائے گئی۔ پینتالیس سال، چالیس سال کے بعد وہ اولڈ پیپلز ہوم میں چھوڑ آئے گا بیٹا شادی کرنے کے بعد کہ اماں جی آپ وہاں رہیں۔ اس کے بعد اولڈ پیپلز ہوم کے قوانین چلیں گے اس پر۔ سولہ سال تک کی ایج اسکول ایجوکیشن کی ہے، اور پینتالیس کے بعد اولڈ پیپلز ہوم کی ہے، اس کے ایس اوپیز میں رہے گی، اپنی کوئی مرضی نہیں ہے۔ درمیان والی کو عورت کہتے ہو؟ بہت سٹپٹائے اس پر۔ میں نے کہا سولہ اور پینتالیس کے درمیان، یہ عورت ہوتی ہے؟ اس کی آزادئ رائے کی بات کرتے ہو۔ پہلے عورت کی ڈیفنیشن تو کرو۔
میں یہ اس لیے (کہتا ہوں کہ) آج کی زبان کو سمجھ کر، مخاطب کی فریکونسی کو سمجھ کر اس میں بات کریں۔ یہ میری نوجوان علماء سے، آج کی زبان، آج کی زبان سے مراد، انگریزی ضروری ہے، لیکن آج کی نفسیات، قوم کی نفسیات کیا ہیں، انٹرنیشنل نفسیات کیا ہیں، آج کی فریکونسی کیا ہے، اس کے مطابق بات کریں۔ اور دین کی بات ہماری ذمہ داری ہے، ’’الناس‘‘ تک پہنچانا، ہم صرف اپنا نہیں، اسلام کا خطاب ’’ایہا الناس‘‘ ہے، نسلِ انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، لیکن اس کے تقاضے پورے کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
محمد حنظلہ حسان: بالکل ٹھیک ہو گیا شیخ محترم! شیخ ممنون ہوں آپ کا، آپ نے ہمیں ٹائم دیا۔
مولانا راشدی: بہت شکریہ، مجھے باتیں کرنے کا موقع دے دیا۔
محمد حنظلہ حسان: جی جی، جزاک اللہ۔ شیخ، بن کعبؓ اسٹوڈیو کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو؟
مولانا راشدی: مجھے خوشی ہوئی، سب سے پہلے تو نام پر۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ہمارے تو سب سے بڑے قاری وہی ہیں، استاذ القرآء ہیں۔ اور دوسرا اس بات پر کہ آپ نوجوان نسل کی راہنمائی کی کوشش کر رہے ہیں، جو آج کی بہت بڑی ضرورت ہے، اور مثبت انداز میں۔ میں یہاں آ کر خوشی محسوس کر رہا ہوں، اللہ پاک یہ جذبہ اور عمل مبارک کریں، اور تسلسل کے ساتھ کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
محمد حنظلہ حسان: آمین، آمین، ناظرین! ابھی کے لیے اجازت دیجیے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔