اگرچہ مولانا شبلی نعمانیؒ اور دیگر مستند مؤرخین کی تحقیق کے مطابق جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ۹ ربیع الاول ہے لیکن عام طور پر ۱۲ ربیع الاول کو ہی آنحضرتؐ کا یوم ولادت سمجھا جاتا ہے اور اسی روز اہتمام کے ساتھ دنیائے اسلام کے مختلف حصوں میں آپؐ کی یاد میں محافل و مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلام میں شرعی طور پر یوم ولادت کا کوئی تصور نہیں ہے اور اسی وجہ سے خیرالقرون یعنی صحابہ کرامؒ ، تابعینؒ اور اتباع تابعینؒ کے ادوار میں اس قسم کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ مگر چونکہ دنیا کی بعض دوسری اقوام اپنے پیشواؤں کا یوم ولادت اور یوم وفات وغیرہ مناتی ہیں اس لیے ان کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی یہ روایت سی بن گئی ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کو اور اس کے ساتھ تقریباً ربیع الاول کا سارا مہینہ ولادت نبویؐ اور سیرت نبویؐ کے عنوان سے محافل و منعقد ہوتی ہیں اور حضورؐ کی سیرت طیبہ اور حالات و مناقب کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اگر رسم و رواج کے مروجہ طریقوں کا اہتمام ضروری نہ سمجھا جائے تو جناب نبی اکرمؐ کا تذکرہ کسی بھی محفل میں اجر و ثواب اور رحمت و برکات کا باعث ہوتا ہے۔ اور یہ ہماری دینی ضرورت بھی ہے کہ ہم زندگی کے کسی مرحلہ میں کوئی بھی کام کرتے ہوئے جناب رسول اللہؐ کو یاد کریں، آپؐ کی سنتوں کو ذہن میں تازہ کریں اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ قرآن کریم نے آنحضرتؐ کی حیات مبارکہ کو ہمارے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے اور اس کا معنٰی یہی ہے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے اور ہر سانس میں حضورؐ کو یاد کرنے اور آپؐ کی سنت و اسوہ کے مطابق ہر کام کرنے کے پابند رہیں۔
چنانچہ جب یاد نبیؐ کا شرعی طور پر یہ معیار ہے تو پھر نبیؐ کے تذکرہ اور یاد کے لیے کسی دن یا مہینہ کو مخصوص کرنے کا کوئی معنٰی باقی نہیں رہ جاتا۔ تاہم اس کے باوجود یہ ایک معاشرتی روایت سی بن گئی ہے اور کم و بیش ہر مکتبہ فکر کے افراد کسی نہ کسی عنوان سے اس روایت کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ جناب نبی اکرمؐ کا تذکرہ کسی حوالہ سے بھی ہو اور ان کی حیات مبارکہ کے کسی بھی پہلو کا تذکرہ کیا جائے، یہ اجر و ثواب ، خیر و برکت اور بے پایاں رحمتوں کے نزول کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن سیرت نبویؐ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا تعلق کس انداز کا تھا اور حضرات صحابہ کرامؓ کس طرح حضورؐ کی باتوں کو یاد کیا کرتے تھے؟ اس کی چند جھلکیاں آج کی محفل میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور سیرت و سنت کے ساتھ مسلمان کا اصل تعلق یہی ہے۔ اور سنت نبویؐ کے ساتھ ہمارا یہی تعلق بحال ہوگا تو ہماری زندگیاں انقلاب سے روشناس ہوں گی، وہی انقلاب جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں آیا تھا تو انہوں نے عرب کی جاہلی تہذیب اور قیصر و کسریٰ کی پرشکوہ سلطنتوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اور وہ انقلاب جو ہماری زندگیوں میں نہیں آیا تو ہم دنیا کے ہر خطے میں ظلم و کفر کی قوتوں کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کوئی یہ دریافت کرے کہ جناب رسول اللہؐ کا چہرہ مبارک کیسا تھا تو میں اس سوال کا جواب نہیں دے پاؤں گا اور آپؐ کے چہرہ مبارک کی تفصیلات بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ جب میں کافر تھا تو میرے دل میں حضرت محمدؐ کے لیے اس قدر شدید نفرت تھی کہ میں ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا، لیکن جب میں مسلمان ہوا تو میرے دل میں آقائے نا مدارؐ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے رعب کی وجہ سے میں ان کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ اور اسی کیفیت میں زندگی بسر ہوگئی کہ میں ایک بار بھی رسول اکرمؐ کے چہرہ مبارک کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا اور اسی وجہ سے آنحضرتؐ کے چہرۂ انور کی تفصیلات اور سراپا بیان کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ جناب نبی ا کرمؐ کے ذاتی خادموں میں سے تھے جنہیں دس سال کی عمر میں ان کی والدہ محترمہ حضرت ام سلیمؓ نے اس مقصد کے لیے رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا کہ میرا یہ بچہ آپؐ کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی انصاری صحابیؓ نے حضورؐ کی دعوت کی۔ بطور خادم میں بھی ساتھ تھا، صاحب خانہ نے خشک کیے ہوئے گوشت (قدید) کی بوٹیوں کے ساتھ شوربے والا کدو پکا رکھا تھا جو آنحضرتؐ کی مرغوب غذا تھی۔ دسترخوان بچھا کر ایک بڑا پیالہ رکھ دیا گیا جس میں کدو اور شوربے والا گوشت تھا۔ انس بن مالکؓ ؓ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ پیالے میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھانے لگے، یہ دیکھ کر میں نے شوربے میں سے کدو کے ٹکڑے نکال کر آپؐ کے سامنے رکھنے شروع کر دیے۔ اور پھر اس کے بعد مجھے کدو سے محبت سے ہوگئی اس لیے کہ جناب رسول اللہؐ اسے پسند فرماتے تھے، پھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر والوں نے مجھ سے کوئی چیز پکانے کے لیے پوچھا ہو اور میں کدو کے علاوہ کسی اور چیز کی فرمائش کی ہو۔
حتیٰ کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں جب بصرہ نئے شہر کے طور پر آباد ہوا اور وہاں امیر المومنینؓ نے بہت سے دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ حضرت انس بن مالکؓ کو بھی بصرہ میں بھیج دیا اور وہاں انہیں کچھ زمین عنایت فرمائی تو حضرت انسؓ نے اس زمین میں کدو ہی کاشت کرنا شروع کر دیے۔ حضرت انسؓ کی زمین میں فاصلے کے ساتھ کھجور کے درخت اور درمیان میں کدو کی بیلیں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی پسند کے ساتھ محبت اور رسالت مآبؐ کی دعا کا اثر تھا کہ باقی لوگوں کی کھیتیاں سال میں ایک بار فصل دیتی تھیں جبکہ میری فصل سال میں دو بار فصل دیتی تھی اور بسا اوقات اتنے بڑے بڑے کدو ہوتے تھے کہ ایک کدو کو کاٹ کر گدھے پر لاد کر گھر لے جانا پڑتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد اور خادم خاص حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ آخر عمر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نابینا ہوگئے تھے لیکن حج کے سفر پر متواتر جاتے تھے۔ اور حج بھی اس ترتیب کے ساتھ کرتے تھے کہ جہاں رسول اللہؐ نے احرام باندھا وہیں احرام باندھنا ہے، جہاں غسل کیا تھا وہیں غسل کرنا ہے، جہاں ظہر پڑھی تھی وہیں ظہر پڑھنی ہے، جہاں پہلی رات قیام کیا تھا وہیں پہلی رات قیام کرنا ہے، اور جہاں دوسرے دن ظہر پڑھی تھی دوسرے دن ظہر پڑھنی ہے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ذوق تھا جس پر وہ آخر عمر تک عمل کرتے رہے۔ حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ ایک بار سفر حج میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک جگہ مجھ سے پوچھا کہ یہاں سے فلاں جانب اتنے فاصلے پر ایک بڑا پتھر ہوگا کیا وہ تمہیں نظر آ رہا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ مجھے وہاں لے چلو، میں انہیں اس پتھر تک لے گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اس کے قریب ایک طرف رخ کر کے اس طرح تھوڑی دیر بیٹھے جیسے پیشاب کرنا چاہ رہے ہوں، مگر پیشاب کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا تو بتایا کہ جناب نبی اکرمؐ نے اس مقام پر بیٹھ کر پیشاب کیا تھا، مجھے پیشاب کی حاجت نہیں تھی مگر جی چاہتا تھا کہ یہاں کچھ دیر ضرور بیٹھوں اس لیے میں یہاں بیٹھا ہوں۔
حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جب نابینا ہوگئے تھے، ایک روز مجھ سے کہا کہ ذرا بازار تک لے چلو۔ میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار لے آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس چلو۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت کام تو آپ نے کوئی بھی نہیں کیا۔ فرمایا کہ آتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ سلام جواب ہوا ہے اور واپسی پر بھی کچھ لوگوں کے ساتھ گزرتے ہوئے سلام کلام ہوگا۔ بس اسی کام کے لیے آیا تھا کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام کہنے اور سلام کا جواب دینے کی اس سنت پر عمل ہو جائے گا جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے بیٹھے عمل نہیں ہو رہا تھا۔
حضرت عمرو بن العاصؓ مصر کے فاتح تھے۔ وہ جب مصر میں یلغار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور شہر و قلعے فتح کرتے ہوئے بڑھتے جا رہے تھے کہ بویس نامی ایک قلعہ پر ان کے قدم رک گئے۔ آٹھ ہزار کا لشکر پاس تھا قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے مگر قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی قلعہ فتح ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں خط دے کر قاصد روانہ کیا اور صورتحال عرض کر کے ان سے رہنمائی چاہی تو حضرت عمرؓ نے جواب میں چار افراد پر مشتمل کمک بھیجی جن میں زبیر بن العوامؓ، حضرت مقداد بن اسودؓ، حضرت خارجہ بن حذافہؓ اور حضرت بسر بن اوطاہؓ شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے جوابی خط میں لکھا کہ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آٹھ ہزار کا صحابہؓ کا لشکر ہو اور قلعہ فتح نہ ہو، ضرور تم سے رسول اللہؐ کی کوئی سنت ترک ہو گئی ہے جس کی وجہ سے برکت نہیں رہی اس لیے اس بات کی فکر کرو۔ امیر المومنین کا خط ملنے کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے لشکر کو خط سنایا اور کہا کہ امیر المومنین کی بات غلط نہیں ہو سکتی، ضرور ہم سے کوئی سنت نبویؐ ترک ہو گئی ہے جس کی وجہ ہم فتح کی برکت سے ابھی تک محروم ہیں۔ اس پر سارے لشکر نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے لشکر کے بہت سے لوگوں سے سے مسواک رہ جاتی ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سارے لشکر کو حکم دیا کہ مسواکیں پکڑو اور قریب ندی کے کنارے بیٹھ کر مسواک کرو۔ اب جو قلعہ کے اندر محصور لوگوں نے آٹھ ہزار کے لشکر کو اجتماعی طور پر مسواک کرتے یا دانت تیز کرتے دیکھا تو اسے کوئی نئی جنگی چال سمجھا اور خوف زدہ ہو کر لڑائی کے بغیر قلعہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کے لیے صلح کا پرچم بلند کر دیا۔
یہ صحابہ کرامؓ کا جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ کے ساتھ عملی تعلق تھے۔ وہ اس صاف اور شفاف آئینے میں اپنے چہرے دیکھتے تھے اور اس کی روشنی میں اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کرتے تھے۔ آج بھی حضورؐ کی سیرت و سنت میں ہمارے لیے یہی سبق ہے۔ ہم اگر اپنی عملی زندگی اور کردار و اخلاق میں اس سے راہنمائی حاصل کریں اور اس کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنے کے لیے تیار ہو جائیں تو رحمتوں اور برکتوں کا نزول آج بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے اندر جو کمی ہے وہ پاور ہاؤس کی طرف سے نہیں ہے کہ وہ تو سدا بہار پاور ہاؤ س ہے۔ ضرورت راستے کے کنکشن کو چیک کرنے کی ہے کہ کنکشن کی تاریں ٹوٹی ہوئی ہوں تو پاور حاصل نہیں ہوتی۔