مذہبی شدت پسندی کے خلاف امریکی مہم

   
جون ۱۹۹۸ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۶ مئی ۱۹۹۸ء کے مطابق امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ اس قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایسے تمام ممالک پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی جو مذہبی اعتبار سے جبر و استبداد کی کاروائیوں کے حامل ہوں، یا اس کی اجازت دیتے ہوں۔ وائس آف امریکہ کے مطابق قانون کے بل کے حق میں ۳۷۵ اور مخالفت میں ۴۱ ووٹ ڈالے گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قانون اسلامی ممالک میں شدت پسندی کی کاروائیوں کے خلاف لایا گیا ہے۔

امریکہ کے نزدیک مذہب کا تعلق انسان کے شخصی معاملات کے ساتھ ہے کہ وہ جو چاہے عقیدہ رکھے، جیسے چاہے عبادت کرے، اور جن مذہبی اخلاقیات کی چاہے پیروی کرے، لیکن اجتماعی معاملات بالخصوص ریاستی فرائض کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور جہاں مذہب شخصی حدود سے تجاوز کر کے اجتماعی اور ریاستی امور میں دخیل ہو گا، امریکہ اور اس کے حواریوں کے نزدیک مذہبی شدت پسندی کی حدود شروع ہو جائیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے، زنا اور شراب کی سزاؤں، اور دیگر اسلامی قوانین کے نفاذ کی امریکہ کی طرف سے مسلسل مخالفت کی جا رہی ہے، اور ایسے اقدامات کو انسانی حقوق کے منافی اور مذہبی شدت پسندی پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ سب معاملات امریکی فلسفہ کی رو سے انفرادی اور شخصی معاملات ہیں، اور ریاستی قوت اور قانون کو ان معاملات میں شریک کرنا اور ریاستی طاقت کے زور پر ان پر عملدرآمد کرانا ان حدود سے تجاوز ہے جو آج کی دنیا نے ریاست اور حکومت کے کردار کے لیے طے کر رکھی ہیں۔

اس پس منظر میں امریکی کانگریس کا منظور کردہ یہ قانون صرف اور صرف اس لیے ہے کہ مسلم ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے امکانات کو روکا جائے اور اسلامی تحریکات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ لیکن اس قانون کا امریکہ کو اس سے زیادہ کوئی عملی فائدہ حاصل نہیں ہو گا کہ جو مسلم حکومتیں امریکہ کے خوف سے پہلے ہی اسلامی قانون کی فائل کو ہاتھ لگانے سے گریز کر رہی ہیں، وہ مزید مرعوب اور خوفزدہ ہو جائیں گی اور اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی تحریکات کو کچلنے کا عمل تیز کر دیں گی۔ جہاں تک اسلامی تحریکات کا تعلق ہے، انہوں نے اس سے پہلے بھی امریکہ کے اس فلسفے کو کبھی تسلیم نہیں کیا، اور آئندہ بھی امریکہ یا اس کے حواریوں کی کوئی معاندانہ کاروائی اسلام کے غلبہ و نفاذ کے لیے ان کی جدوجہد کا راستہ نہیں روک سکے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter