(متحدہ علماء کونسل حلقہ کھاوڑہ مظفر آباد کے زیرِ اہتمام ’’بیدارئ امت علماء کنونشن‘‘ سے ”عصرِ حاضر میں علماء کرام کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں متحدہ علماء کونسل کھاوڑہ آزادکشمیر کی قیادت اور رفقاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس اجتماعی محفل میں علماء کرام کی زیارت، ملاقات اور گفتگو کی دعوت دی۔ یہ حاضری میرے لیے سعادت کی بات ہے۔ ایک عالم کی زیارت بھی ثواب کا باعث ہوتی ہے، یہاں آ کر بہت سے علماء کرام کی زیارت و ملاقات سے فیضیاب ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور ہم جس مقصد کے لیے مل بیٹھے ہیں، اس پر غور و فکر کے ساتھ کچھ باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں، اور دینِ حق کی جو بات، مطالبہ اور جو ضرورت علم میں آئے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے بھی نوازیں، آمین۔
متحدہ علماء کونسل کھاوڑہ کے تحت آپ علماء کرام کام کر رہے ہیں، میرا تعلق بھی متحدہ علماء کونسل سے ہے جو ملکی سطح پر تمام علماء کی مشترکہ تنظیم ہے، ہم بیس سال سے کام کر رہے ہیں۔ جب بھی کوئی اجتماعی اور قومی ضرورت پیش آتی ہے تو متحدہ علماء کونسل کے علماء اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کرتے ہیں اور ایک مشترکہ موقف پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات نہ ہوں۔ مشترکہ موقف کی ضرورت و اہمیت پر ایک مثال دیتا ہوں۔
حالیہ دنوں سپریم کورٹ میں قادیانیت کے حوالے سے مسئلہ چل رہا ہے۔ اس سے جو کنفیوژن پیدا ہوئی ہے اس پر مختلف حلقے اپنا اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔ اس پر سب کو کام کرنا چاہیے، لیکن ہم نے لاہور میں سرکردہ علماء کرام کا مشترکہ اجتماع کیا جس میں طے کیا گیا کہ سب موقف درست ہیں لیکن ایک مشترکہ موقف بھی ریکارڈ پر لانا چاہیے، یہ کسی بھی کیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر جدا جدا موقف ہوں، الگ الگ موقف دیے جائیں، اگرچہ اصولی طور پر سب متفق ہوں گے، مگر چند باتوں میں کچھ فرق ہوگا۔ اور یہ جسٹس منیر کے زمانے میں بھگت چکے ہیں کہ الگ الگ موقف دیے تھے تو ان میں فرق کو بنیاد بنا کر ۱۹۵۳ء کے عدالتی کمیشن نے کہا تھا کہ علماء خود متفق نہیں ہیں، ہم کیا فیصلہ دیں۔
ہمارے ہاں لاہور اور گوجرانوالہ میں یہ ماحول ہے کہ جب کوئی اجتماعی ضرورت پیش آتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سب اپنا اپنا موقف دیں، لیکن تمام مکاتب فکر کا ایک مشترکہ اور اجتماعی موقف سب کے دستخطوں کے ساتھ بھی جانا چاہیے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اس مسئلے میں علماء کا آپس میں اختلاف ہے۔
آپ علماء کرام متحدہ علماء کونسل کھاوڑہ کے زیر انتظام اس اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ میں چند گزارشات کرنا چاہوں گا کہ اس وقت علماء کرام سے حالات کا تقاضا کیا ہے، ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور انہیں کس انداز سے کام کرنا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ علماء کرام جہاں کہیں بھی اکٹھے مل بیٹھتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ میری پورے ملک میں مہم ہوتی ہے کہ علماء کرام کو وقتاً فوقتاً کسی عنوان سے اکٹھے ہونا چاہیے، اور اگر کوئی عنوان نہ ہو تب بھی۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ اگر کسی علاقے کے علماء کرام دو تین ماہ بعد اکٹھے مل بیٹھ کر صرف چائے پی لیں تو ان کا پچاس فیصد کام اسی سے ہو جاتا ہے۔ اس سے کام کرنے والوں کو بھی حوصلہ ہوتا ہے اور مخالف کو بھی نظر آ جاتا ہے کہ علماء کرام اکٹھے ہیں، اس کے اثرات و ثمرات آپ کو نظر آ جائیں گے۔
ہم نے لاہور اور گوجرانوالہ میں یہ دونوں محاذ رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری مسلکی دائرے میں جمعیت اہل سنت ہے، دیوبندی کہلانے والے تمام حلقے جمعیت علماء اسلام، سپاہ صحابہ، تحریک ختم نبوت، مجلس احرار اسلام وغیرہ اس کا حصہ ہیں، سب ایک فورم پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی دینی و مسلکی مسئلہ ہوتا ہے تو مشترکہ موقف دیتے ہیں اور مشترکہ مہم کا اہتمام کرتے ہیں۔ الحمد للہ اس کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر بعض مسائل مشترکہ ہوتے ہیں، اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء اکٹھے ہوتے ہیں، میں اس کی ایک تازہ مثال عرض کرتا ہوں۔
کسی غیر مسلم رہنما کی طرف سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر لٹریچر تقسیم ہو تو کیا حال ہوگا؟ چند روز قبل کی بات ہے، ایک عیسائی پادری صاحب کی طرف سے پرچیاں تقسیم ہوئیں جو توہینِ رسالت پر مبنی تھیں۔ ہماری مشاورت ہوئی کہ کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے کہا کہ دیکھو اصل مسئلہ کیا ہے؟ تین چار گھنٹے کی تفتیش سے بات واضح ہو گئی کہ سسر اور داماد کا جھگڑا تھا، جو دونوں عیسائی ہیں، اس جھگڑے میں داماد نے سسر سے بدلہ لینے کے لیے حرکت کی جو پکڑی گئی ۔ یہ بہت بڑی بات تھی لیکن الحمد للہ قابو میں رہی۔ میں نے عرض کیا ہے کہ علماء کرام کا محض اکٹھے ہونا اور اکٹھا دکھائی دینا کافی حد تک کام بنا دیتا ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنی ڈیوٹی تک محدود نہیں رہنا چاہیے، ہماری ڈیوٹی صرف نماز اور سبق نہیں ہے۔ علماء کرام حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے نمائندے ہیں اور سوسائٹی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھائی ہیں، تعلیم دی ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی جو بہت سے کام سرانجام دیے ہیں، ان سب کاموں میں علماء کرام کو جناب نبی کریمؐ کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ میں اس کے دو تین دائرے عرض کرتا ہوں۔
(۱) لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح علماء کرام کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن اس سے ہٹ کر معاشرتی مسائل اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونا بھی علماء کرام کی ضرورت ہے۔ اس کی حیثیت کیا ہے، اس پر اشارتاً عرض کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور پیغمبر پہلا تعارف یہ ہے کہ غارِ حرا میں آپ پر وحی آئی تھی جو سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں، وہ ہمارا پہلا سبق ہے۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ کا دوسرا تعارف کیا ہے؟ چونکہ غار حرا کا سارا معاملہ اچانک اور خلافِ توقع ہوا تھا اس لیے آپ گھبراہٹ کے عالم میں گھر گئے اور اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قصہ سنایا اور یہ بھی فرمایا کہ ’’خشیت علٰی نفسی‘‘ کہ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ اس پر حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ نے نبی کریمؐ کو یہ کہہ کر تسلی دی ’’کلا واللہ لا یخزیک اللہ ابدا‘‘ آپ مت گھبرائیں، بخدا! اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا، کیوں کہ ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق‘‘۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بوجھ تلے دبے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کریں گے۔ یہ حضور اکرمؐ کا دوسرا تعارف ہے۔ جناب نبی کریمؐ کا بحیثیت نبی پہلا تعارف وحی ہے اور اس کے کچھ دیر بعد اسی دن کا دوسرا تعارف یہ ہے جو حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے اوصاف ذکر کیے۔ وہ پانچ آیات ہیں اور یہ پانچ صفات ہیں۔
اسی حوالے سے اشارتاً یہ بات ذکر کرتا ہوں کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق یہ جملے جو حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے حضور اکرمؐ کو تسلی دیتے ہوئے عرض کیے تھے، بعینہٖ یہی جملے ایک کافر سردار نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہے تھے۔ جب مکہ مکرمہ میں مظالم کی انتہا ہو گئی اور حضرت صدیق اکبرؓ نے بھی مجبور ہو کر ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر تیاری کر کے ہجرت کے قصد سے گھر سے نکل گئے۔ دو دن کا سفر کر لیا تھا کہ راستے میں برک غماد نامی جگہ پر آپؓ کو ایک کافر سردار ابن الدغنہ ملا، اس نے حضرت صدیق اکبرؓ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ آپؓ نے بتایا کہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس نے پوچھا کیوں؟ تو اسے بتایا کہ مکہ کے لوگ عبادت نہیں کرنے دیتے، قرآن مجید نہیں پڑھنے دیتے، ظلم اور زیادتیاں کرتے ہیں، میں بے بس ہو گیا ہوں اور شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اس پر ابن الدغنہ نے کہا نہیں! میں آپ کو نہیں جانے دوں گا ’’مثلک لا یَخرج و لایُخرج‘‘ آپ جیسے آدمی شہر چھوڑ کر نہیں جایا کرتے اور آپ جیسے آدمیوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور بھی نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف وتعین علی نوائب الحق‘‘ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بوجھ میں دبے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں، ضرورت مندوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں، اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں۔ جو جملے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بولے تھے، وہی جملے ابن الدغنہ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے لیے بولے اور کہا کہ میں آپ کو شہر چھوڑ کر نہیں جانے دوں گا، آپ میری ضمانت پر واپس چلیں، مکہ والوں سے میں بات کر لوں گا۔
میں نے یہ واقعہ اس حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جو تعارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ نے کرایا تھا وہی تعارف حضرت صدیق اکبرؓ کا ابن الدغنہ نے کرایا۔ میں اس کی تعبیر یوں کرتا ہوں کہ جو مزاج نبوت کا تھا وہی مزاج خلافت کا تھا۔ نبوت کا تعارف بھی یہی تھا اور خلافت کا تعارف بھی یہی تھا۔ اس لیے میں نے پہلی گزارش یہ کی ہے کہ علماء کرام کو معاشرتی مسائل سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے، بلکہ لوگوں کے مسائل و مشکلات میں شریک ہونا چاہیے۔
(۲) دوسرا دائرہ قومی مسائل کا ہے۔ مثلاً کشمیریوں کا سب سے بڑا قومی مسئلہ آزادئ کشمیر کا ہے۔ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد قومی، ملی اور دینی مسئلہ ہے۔ کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ کشمیر کی وحدت بھی قومی مسئلہ ہے۔ آپ کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے، آپ سے زیادہ کون سمجھتا ہے کہ کشمیر کی وحدت سے میری کیا مراد ہے؟ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت تمام علاقے جو اس علاقہ کے تقسیم ہوتے وقت متنازعہ تھے وہ سارا کشمیر ہے۔ یہ ہم پاکستانیوں کا مسئلہ بھی ہے، لیکن ہمارا مسئلہ ثانوی ہے آپ کا اولین ہے کیونکہ مبتلیٰ بہ آپ ہیں۔
اسی سے متعلقہ یہ بات عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین آج کا کرنٹ ایشو ہے۔ ہمارے ایک سابق محترم وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہمیں فلسطین میں دو ریاستی نظریہ تسلیم کر لینا چاہیے، اگر قائد اعظم مرحوم نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے، تو یہ قائد اعظم کی رائے تھی، اسرائیل کے معاملے پر قائد اعظم رائے سے اختلاف کرنا کفر نہیں ہے۔ اس پر میں نے وزیر اعظم صاحب سے گزارش کی تھی کہ یہ قائد اعظم مرحوم کی صرف رائے نہیں تھی، بلکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا یہ فیصلہ پون صدی سے اب تک ہمارا قومی موقف چلا آ رہا ہے، اسے محض قائد اعظم کی رائے کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش نہ کریں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دو ریاستی حل ہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے، اگر ہم فلسطین کا دو ریاستی حل تسلیم کر لیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ فلسطین کے لیے دو ریاستی فارمولا دے رہے ہیں، یہ بات کرتے ہوئے آپ کو تین ریاستی کشمیر بھی یاد رکھنا چاہیے۔ کشمیر تین ریاستوں میں تقسیم ہے۔ آپ کہیں دو ریاستی فلسطین کی بات کرتے ہوئے تین ریاستی کشمیر پر مہر تو نہیں لگا رہے؟
جبکہ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی آزادی کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔
(۳) اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اسلام کا نفاذ بھی ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ ہم تو ابھی تک کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں اسلام نافذ ہو، جبکہ آپ کے ہاں کشمیر میں کچھ نہ کچھ شرعی احکام کا نفاذ ہے، یہ جتنا کچھ نافذ ہے، اسے بچانا بھی آپ کا مسئلہ اور ذمہ داری ہے۔
میں نے یہ عرض کیا ہے کہ معاشرتی مسائل ہوں یا قومی یا ملی مسائل ہوں، علماء کرام کو ان سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے۔ میں فتویٰ نہیں دیا کرتا لیکن یہ بات ضرور کہوں گا کہ عالمِ دین کہلانے والے کا اپنے ماحول میں ملی، دینی اور معاشرتی مسائل سے لاتعلق رہنا بالکل جائز نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ آپ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ حدیث میں ہے ”العلماء ورثۃ الانبیاء“۔ تو وراثت میں صرف جائے نماز نہیں آتی بلکہ ساری چیزیں وراثت میں آتی ہیں۔ اس لیے میں نے گزارش یہ کی ہے علماء کرام کو ملی، قومی، معاشرتی مسائل سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے، کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے اور لوگوں کو نظر آنا چاہیے کہ علماء کرام ہمارے مسائل میں ہمارے ساتھ ہیں۔
اس کے بعد یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ دینی جدوجہد کے متعدد دائرے ہیں۔ جس میں تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ، نفاذ اسلام کی جدوجہد، ناموس رسالتؐ اور ناموس صحابہؓ کا تحفظ اور جہاد وغیرہ شامل ہیں۔ آپ اپنے ذوق کے مطابق ایک ہی دائرہ میں کام کریں گے اور اپنے دائرہ میں ہی کام کرنا چاہیے، لیکن اپنے دائرے میں دین کی جدوجہد کرتے ہوئے دوسرے دائروں کی نفی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ دوسروں کا مذاق مت اڑائیں، تذلیل مت کریں اور استخفاف نہ کریں۔ ہمارے بیشتر مسائل اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔ میں اسے خون کے گروپ کہا کرتا ہوں کہ جیسے خون کے گروپ مختلف ہوتے ہیں، آپس میں نہیں ملتے، لیکن ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں ہے، اسی طرح دینی جدوجہد کے تمام شعبے ضروری ہیں، ان میں سے کوئی غلط نہیں ہے، سبھی دین کا کام کر رہے ہیں۔
میرا مزاج ہے کہ اگر کسی جگہ مسجد والے کہیں کہ ہمیں امام و خطیب چاہیے تو میں ان سے خون کا گروپ پوچھتا ہوں کہ کیسا آدمی چاہیے۔ تبلیغی ہو، سپاہی ہو یا جہادی ہو؟ یہ بھی دیکھنا چاہیے، جہاں جس کی ضرورت ہو اسے جانا چاہیے۔ خون کے سب گروپ صحیح ہیں لیکن ایک کی جگہ دوسرے لگا دیں گے تو کیا ہوگا؟ اس لیے خون لگانے سے قبل ڈاکٹر سب سے پہلے خون کا گروپ چیک کرتا ہے۔ اسی طرح دینی جدوجہد کے مختلف دائرے ہیں، جو سبھی ٹھیک ہیں، آپ اپنے ذوق کے مطابق اپنے دائرہ میں دلجمعی کے ساتھ کام کریں لیکن دوسروں کے کام کی نفی نہ کریں، ان کا مذاق مت اڑائیں۔ اگر دوسروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں تو کریں، اگر نہیں کر سکتے تو کم از کم زبان بند رکھیں۔
میں نے تین گزارشات کیں کہ علماء کرام کو اکٹھے مل بیٹھنا اور اکٹھے نظر آنا چاہیے، علماء کرام کو قومی، دینی اور معاشرتی جدوجہد سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے، اور اپنے دائرے میں کام کرتے ہوئے دوسرے شعبوں کی نفی نہیں کرنی چاہیے۔
اس کے بعد یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کی نئی نسل کو الحاد اور بے دینی کے ماحول سے بچانے کی فکر بھی علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ نئی نسل کے متعلق ہمارا کہنا یہ ہوتا ہے کہ گمراہ اور ملحد ہو گئی ہے، الحاد پھیل رہا ہے۔ اس لیے اس وقت تمام دینی حلقوں کا سب سے بڑا محاذ یہ ہے کہ الحاد کو کیسے روکا جائے۔ نئی نسل شکوک و شبہات سے دوچار ہے۔ جو بچہ یا بچی کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ گئے ہیں ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا جنگل ہے۔ ان میں سے کوئی پوچھنے کی ہمت کر لیتا ہے، مگر اکثر پوچھنے کی ہمت نہیں کرتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر بات کروں گا تو مولوی صاحب اگر ڈانٹیں گے نہیں تو کم از کم فتویٰ تو لگا ہی دیں گے۔ یہ آج کی عمومی صورتحال ہے، آپ کسی نوجوان کو چیک کر کے دیکھ لیں۔
ان سوالات کی نوعیت کیا ہے؟ میں اپنی بات کرتا ہوں۔ چند دن قبل ایک یونیورسٹی میں گیا، وہاں ایک سیمینار میں ایک لڑکی نے کھڑے ہو کر کہا سر! ایک سوال ہے۔ میں نے کہا بیٹا پوچھو۔ اس نے کہا یہ بتائیں کہ اللہ میاں کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو ہم عموماً دیا کرتے ہیں کہ الٹے ہاتھ کی منہ پر ماریں اور کہیں خاموش ہو جاؤ، بکواس کرتی ہو، یہ گمراہ ہو گئی ہے اسے نکالو۔ میں نے بڑے پیار سے کہا بیٹا! آپ کو اپنی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ اس نے کہا جی ہے۔ میں نے کہا آپ کے مینوفیکچرر کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ہے؟ آپ کی ضرورت ہے تو کیا آپ کے بنانے والی کی ضرورت نہیں ہے؟
نئی نسل کے ذہنوں میں اس طرح کے سوالات اور شکوک و شبہات کیوں آئے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بچہ یا بچی جسے دین کی بنیادی تعلیم نہیں دی گئی، وہ اللہ، رسول، صحابہ، قیامت اور قرآن تک سے بے خبر ہے، اور کالج تک پہنچتے پہنچتے موبائل اس کی جیب میں ہوتا ہے تو وہ کیوں گمراہ نہیں ہوگا۔ اس گمراہی کے ذمہ دار اس کے والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کا برتن خالی رکھا تھا۔ اپنا قصور نہیں مانتے، اسے گالیاں دیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان جسے دین کی بنیادی باتیں معلوم نہیں اور موبائل اس کی جیب میں ہے جو دنیا بھر کی ہر اچھی اور بری چیز بتاتا ہے، تو اسے گمراہ ہونے سے کون بچا سکتا ہے؟ اور قصور اس کا ہے یا ہمارا ہے؟ والدین، سسٹم آف ایجوکیشن اور سوسائٹی کو اپنا قصور ماننا چاہیے کہ نئی نسل کو گمراہ کرنے والے ہم ہیں۔ خالی برتن چوک میں رکھ دیا جائے تو جس کی جو مرضی ہو اس میں ڈال سکتا ہے۔ جب ہم نے اس کا ذہن دینی بنیادی معلومات سے خالی رکھا اور اسے موبائل دے دیا جو ان کا مبلغ علم ہے، تو اس کا کیا قصور ہے؟ بلکہ اب تو ہمارا مبلغ علم بھی یہی ہے، ہم بھی حوالہ بخاری شریف، مسلم شریف یا ہدایہ میں تلاش نہیں کرتے بلکہ گوگل پر تلاش کرتے ہیں۔
ان حالات میں جب کہ شکوک و شبہات پیدا ہو گئے، کوئی نوجوان شک کا اظہار کرتا ہے تو ہمیں نئی نسل کو گمراہ اور ملحد سمجھ کر ڈیل نہ کرنا چاہیے، بلکہ اسے بے قصور سمجھ کر ایک نومسلم اور بے خبر کے طور پر ڈیل کرنا چاہیے۔ الحمد للہ میرے بارے میں نوجوانوں کا خیال ہے کہ میں ان کی کڑوی کسیلی بات سن لیتا ہوں، برداشت کر لیتا ہوں اور جواب بھی ٹھنڈا ٹھنڈا دیتا ہوں۔ بعض نوجوان ایسے سوال کرتے ہیں کہ میرا خون بھی کھول اٹھتا ہے، لیکن میں تب بھی انتہائی نرمی سے کہتا ہوں بیٹا! یوں نہیں یوں بات ہے۔ اگر میں فتویٰ لگا کر بات کروں گا تو اس کا شک دور ہونے کی بجائے مزید پختہ ہو جائے گا، اور اگر میں اسے ادھورا جواب دوں گا کہ میری اسٹڈی نہیں ہے تب بھی اس کا شک دور نہیں ہوگا، بلکہ پکا ہو گا۔ اس لیے ہمیں آج کے سوالات پر اسٹڈی کرنی چاہیے۔
تیسرا یہ کہ ہمیں اس کی فریکوینسی میں بات کرنا ہوگی۔ یہ بھی بڑی وجہ ہے کہ ہم ہدایہ کی زبان میں بات کرتے ہیں جبکہ وہ آج کی زبان سمجھتا ہے، ہماری اصطلاحات اسے سمجھ نہیں آتیں۔ اس پر ایک لطیفہ کی بات ذکر کرتا ہوں۔ طالب علمی کے زمانے میں ہمارے ایک ساتھی ایک جگہ جمعہ پڑھاتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پاس جمعہ پڑھیں، میں تقریر کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اس نے جمعہ کی تقریر کی۔ شام کو مجھ سے پوچھا کہ میں نے کیسی تقریر کی ہے؟ میں نے کہا بیڑہ غرق کیا ہے۔ وہ حیران ہوا کہ میں نے اتنی اچھی علمی تقریر کی ہے، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا یہ لوہاروں کا علاقہ ہے۔ یہاں نماز پڑھنے والے سب لوہا کوٹتے ہیں، ان کے سامنے آپ اس زبان میں بات کی ہے کہ یہ بات بشرط شے کے درجے کی ہے، یہ لا بشرط شے کے درجے کی ہے، یہ موجبہ کلیہ ہے، یہ سالبہ کلیہ ہے۔ خدا کے بندے! وہ کیا سمجھے ہوں گے؟ وہ لوگ جنہیں صرف یہ پتہ ہے کہ لوہا کیسے کوٹنا ہے اور ڈنڈی کیسے مارنی ہے، آپ نے ان کے سامنے ”ملا حسن“ کا کل والا سبق سنا دیا ہے۔
اس لیے میں نے عرض کیا ہے کہ علماء کرام نسلِ نو کے شکوک و شبہات کو دور اور کم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ اس میں پہلی بات یہ کہ اس سے محبت اور اعتماد کے ساتھ بات کریں۔ دوسرا یہ کہ اس کی بے خبری دور کریں جو اس شک کی وجہ ہے، بے خبری دور کر دیں گے تو اس کا شک دور ہو جائے گا۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اس کی فریکوینسی میں بات کریں، جو زبان وہ سمجھتا ہے اس میں بات کریں۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے، انہیں ’’امامِ اہل سنت‘‘ کا لقب کراچی کے اکابر علماء نے دیا تھا۔ آپؒ پٹھان تھے لیکن گکھڑ میں ۱۹۴۲ء میں تشریف لائے تو ٹھیٹھ پنجابی میں عام لہجے میں درس دیتے تھے کہ جاہل سے جاہل آدمی بھی سمجھتا کہ مولوی صاحب کیا مسئلہ سمجھا رہے ہیں۔ ان کے دروس اور خطبات سب پنجابی میں ہیں۔ ہمارے دوست مولانا محمد نواز بلوچ نے محنت کر کے ان کے دروس اردو میں مرتب کیے ہیں، لیکن سینکڑوں کی تعداد میں خطبات جمعہ پنجابی میں موجود ہیں، ان کو اردو میں منتقل کرنا مسئلہ ہے۔ بات کرنے کا اصول یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ سامنے بیٹھا ہوا آدمی کونسی زبان سمجھتا ہے۔ اپنی علمیت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ مخاطب کو بات سمجھانی چاہیے۔ میں اس پر بہت زور دیتا ہوں کہ مخاطب کی ذہنی سطح پر بات کرنی چاہیے، اپنی ذہنی سطح پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ اس پر ایک مثال دیتا ہوں۔ مجھے چونکہ اس طرح کے سوالات کا سامنا رہتا ہے تو ایک سوال جواب کا ذکر کر دیتا ہوں۔
۱۹۸۷ء میں نیویارک میں میری قادیانیت کے مسئلے پر ایک یہودی صحافی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ پاکستان سے ایک مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں اور ختم نبوت کی تحریک سے ان کا تعلق ہے۔ وہ میرے پاس آئے۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ جب قادیانی قرآن کو مانتے ہیں، اللہ کو، محمد رسول اللہ کو اور بیت اللہ کو مانتے ہیں تو آپ کے نزدیک وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ اب جواب دینے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ میں دو چار آیتیں اور پانچ چھ حدیثیں پڑھتا، مگر اسے اس سے کیا فرق پڑنا تھا؟ قرآن مجید، حدیث و سنت اور ائمہ کے اقوال ہماری دلیل ہیں، اس کی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ مناظرہ اور مکالمہ کا اصول ہے کہ دلیل وہ ہوتی ہے جو فریقین کے ہاں مسلم ہو۔
اس لیے میں نے عقلی دلیل سے بات کی۔ میں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ماننا ضروری تو ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اس کے بعد کسی اور کو نہ ماننا بھی ضروری ہے۔ میں نے اس سے مثال کے طور پر بات کی کہ آپ اس لیے یہودی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور تورات کو مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی حضرت موسٰیؑ اور تورات کو مانتا ہوں، تو کیا آپ مجھے یہودی تسلیم کریں گے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے کہا کیونکہ آپ اس کے بعد ایک اور نبی اور کتاب مانتے ہیں اس لیے آپ کو یہودی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پھر میں نے کہا کہ مسیحی اسی لیے عیسائی کہلاتے ہیں کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو مانتے ہیں، حالانکہ میں بھی انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو مانتا ہوں بلکہ ہم مسلمان عیسائیوں سے بڑھ کر انہیں مانتے ہیں، ہم نے روضۂ اطہر میں ان کی قبر کی جگہ بھی رکھی ہوئی ہے ’’ھذا موضع قبر النبی عیسی ابن مریم علیہ السلام‘’۔ عیسائی حضرت عیسیٰؑ کو ماضی کے حوالے سے مانتے ہیں، میں انہیں مستقبل کے حوالے سے بھی مانتا ہوں، تو کیا اگر خدانخواستہ دنیا کے کسی فورم پر میں دعویٰ کروں کہ مجھے عیسائی تسلیم کیا جائے، تو کیا تسلیم کرو گے؟ اس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ تو اس نے کہا کہ آپ حضرت عیسٰیؑ اور انجیل کو تو مانتے ہیں لیکن چونکہ ان کے بعد حضرت محمدؐ کو اور قرآن مجید کو بھی مانتے ہیں اس لیے آپ عیسائی کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔
میں نے کہا کہ اس سے معلوم ہوا کہ نئی کتاب اور نئی وحی ماننے سے مذہب بدل جاتا ہے۔ ہمیں تورات اور حضرت موسٰیؑ کو ماننے، انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو ماننے کے باوجود یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں، کیونکہ ہم اس کے بعد نیا نبی اور نئی وحی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر چونکہ قرآن مجید کے بعد اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قادیانی نئی وحی اور نیا نبی مانتے ہیں، اس لیے وہ بھی مسلمانوں سے الگ ہو گئے ہیں۔ اب وہ جو چاہے کہلائیں لیکن انہیں مسلمان کہلانے کا حق نہیں ہے۔ اس پر اس نے کہا بات سمجھ آ گئی ہے۔ یہ واقعہ میں نے اس پر ذکر کیا ہے کہ مخاطب کی فریکوینسی اور ذہنی سطح پر بات کرنی چاہیے۔
میں نے آپ حضرات سے گزارش کی ہے کہ علماء کرام نئی نسل کی فکر کریں، ان کی فکر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ ان کی بے خبری اور لا علمی دور کریں، انہیں محبت، پیار اور اعتماد کا ماحول فراہم کریں کہ انہیں محسوس ہو مولوی صاحب مجھے ڈانٹ نہیں رہے بلکہ مجھ سے ہمدردی کر رہے ہیں، اور جو زبان اور لہجہ وہ سمجھتے ہیں اس میں بات کریں۔ آج کے معاشرے میں علماء کرام کی ذمہ داریاں کیا ہیں، اس پر میں نے یہ گزارشات پیش کی ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ میں متحدہ علماء کونسل پاکستان کے صدر کی حیثیت سے متحدہ علماء کونسل کھاوڑہ کا ایک بار پھر شکرگزار ہوں کہ مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔