جامعہ محمدیہ چوبرجی لاہور کا استاذ مولوی عبد الشکور توہین رسالت کے کیس میں گرفتار ہے، اس کے خلاف ایف آئی اے نے سوشل میڈیا قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کیا ہے، اور اس میں توہینِ رسالت کی دفعات بھی شامل ہیں۔ ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے ،اور اس بات کا فیصلہ اب عدالت نے کرنا ہے کہ وہ مجرم ہے یا نہیں۔ ملزم مولوی عبد الشکور کے والد محترم مولانا حافظ عبد الصبورؒ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سالہا سال پڑھتے رہے ہیں اور جامع مسجد نور کے امام بھی رہے ہیں۔ جبکہ ملزم کے تایا شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی محمد اسلمؒ ہمارے بزرگ اساتذہ میں سے ہیں، انہیں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے شرفِ تلمذ حاصل تھا، ہری پور ہزارہ سے تعلق تھا، کئی سال جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور اس کے بعد دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ کے شیخ الحدیث رہے ہیں۔
ملزم کے خلاف استغاثہ کا موقف یہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ایسے گروپوں سے منسلک چلا آرہا تھا جن میں نعوذ باللہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کھلم کھلا گستاخی کی جاتی رہی ہے، اس لیے وہ اس سنگین جرم میں ملوث ہے اور سزا کا مستحق ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام، حضرات صحابہ کرامؓ، ازواجِ مطہراتؓ اور اہلِ بیتِ عظامؓ کی کسی بھی درجہ میں اہانت، تحقیر اور گستاخی سنگین اور شنیع جرم ہے، جس کی کسی بھی صورت اور کسی بھی درجے میں حمایت خود شرعی جرم ہے، اس لیے ہم نے کیس شروع ہوتے ہی مطالبہ کیا تھا کہ اگر جرم ثابت ہو جائے تو ملزم کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے۔
ہم اس مطالبے پر آج بھی قائم ہیں، مگر ہمارے ہاں چونکہ اس قسم کے کیس جھوٹے الزامات پر بھی بن جاتے ہیں جن پر اشتعال کی فضا میں ماورائے عدالت کارروائیاں بھی ہوتی چلی آرہی ہیں، اس لیے مذکورہ کیس میں اشتعال اور نفرت کی فضا گرم کرنے کے بجائے عدالت کو آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر جتنی سنگین سزا بھی دی جا سکے وہ ہمارے نزدیک کم ہو گی۔ مگر عدالت کے کسی فیصلے سے قبل مجرم قرار دے کر اس کے خلاف ایک ماحول قائم کر دینا جو کہ بہت سے دیگر افسوسناک واقعات کی طرح کسی ماورائے عدالت اشتعال انگیز کارروائی کا سبب بن سکتا ہے، یہ ہمارے نزدیک درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے قبل بعض واقعات میں ایسا ہو چکا ہے اس لیے اس حوالے سے انتہائی احتیاط ضروری ہے۔ مثلاً:
- ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں ایک حافظِ قرآن کریم کو قرآن کریم کی توہین کے الزام میں مشتعل لوگوں نے سڑک پر گھسیٹا اور گھسیٹ کر مار ڈالا، جبکہ بعد میں یہ پتہ چلا کہ وہ الزام مقامی سطح کی کسی باہمی فرقہ وارانہ کشیدگی کا شاخسانہ تھا۔
- گوجرانوالہ میں ہی ایک بڑے دینی ادارہ جامعہ قاسمیہ کے دروازے پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی پر مشتمل پرچیاں تقسیم ہوئیں جن کے بارے میں لوگوں کا ذہن قریب کی مسیحی آبادی کی طرف منتقل ہو گیا جس سے علاقے میں اشتعال پھیلا اور لوگ سڑکوں پر آگئے۔ ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں بحمد اللہ تعالی کافی عرصہ سے یہ ماحول چلا آرہا ہے کہ اس قسم کے معاملات میں مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام مل بیٹھتے ہیں اور باہمی اعتماد و مشاورت کے ساتھ پیش آمدہ مسئلہ پر کوئی مثبت حل نکال لیتے ہیں۔ اس موقع پر بھی مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام نے فوری طور پر مل بیٹھ کر صورتحال کو کنٹرول کیا جس سے شہر کسی بڑے فساد سے بچ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ گستاخانہ پرچیاں مقامی سطح کی کسی کاروباری رقابت کا نتیجہ تھیں۔
- ابھی کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں سری لنکا کے ایک شہری کو توہینِ رسالت کے الزام میں لوگوں نے گھیر کر مار ڈالا جس کے بارے میں تحقیقات کے بعد وہ الزام درست ثابت نہ ہوا۔ جبکہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا اور حکومتی وضاحت اور معذرت کے ساتھ ساتھ ملک کے سرکردہ علماء کرام کے ایک بھرپور وفد نے بھی اسلام آباد میں سری لنکا کے ہائی کمشنر سے ملاقات کر کے ان سے وضاحت و معذرت کی، اس وفد میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔
اس قسم کی کاروائیاں ملک کے مختلف حصوں میں ہو چکی ہیں جو ملک اور قوم کی بدنامی کا باعث بنی ہیں، اس لیے ہم نے ہر موقع پر یہ عرض کیا ہے کہ توہینِ رسالت کے سنگین ترین جرم ہونے اور اس میں قطعی طور پر موت کی سزا کے بارے میں کسی لچک اور نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر توہینِ رسالت کے غلط الزام پر کسی کو مجرم قرار دے کر اس قسم کی کوئی حرکت بھی سنگینی میں اس سے کم نہیں ہے۔
مذکورہ کیس کے ملزم عبد الشکور کے بارے میں ایک معاملہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ علماء، وکلاء اور دینی کارکنوں کے وفود کو ایف آئی اے کے دفتر میں لے جا کر انہیں استغاثہ کے جمع کردہ شواہد دکھائے جا رہے ہیں اور ان سے تصدیق کروائی جا رہی ہے کہ یہ مواد انتہائی گستاخانہ ہے اور ملزم نے توہینِ رسالت کے سنگین جرم کا فی الواقع ارتکاب کیا ہے،۔ ہمارے خیال میں یہ سلسلہ بھی قانونی شرعی یا اخلاقی کسی حوالے سے درست نہیں ہے۔ استغاثہ نے ملزم کے خلاف جو مواد بھی جمع کر رکھا ہے اس کی حیثیت استغاثہ کے موقف کی ہے، اسے جو بھی دیکھے گا اس کا تاثر وہی ہوگا جو دیکھنے والے حضرات نے ظاہر کیا ہے۔ اس لیے ان تبصروں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، ملزم کے بارے میں جب تک عدالت فیصلہ نہیں کرتی وہ ملزم ہی رہے گا، اسے مجرم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسی طرح اس مواد کی بنیاد پر عدالتی فیصلے سے قبل ملزم کے خلاف نفرت خیز اور اشتعال انگیز مہم بھی کسی سطح پر کوئی جواز نہیں رکھتی، اس لیے ہماری متعلقہ حلقوں سے گزارش ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر کوئی ایسا ماحول پیدا کرنے سے گریز کریں جو اس سے قبل مختلف مواقع پر ملک و قوم کی بدنامی اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا باعث بن چکا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اپنا یہ موقف اور مطالبہ پھر دہراتے ہیں کہ اس کیس میں ملزم عبد الشکور عدالتی طور پر مجرم ثابت ہو تو اسے سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے، البتہ اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی ہم شامل کرنا چاہیں گے کہ ملک کی مختلف عدالتوں سے اب تک جو بدبخت افراد توہینِ رسالت کے مجرم قرار پا چکے ہیں اور تمام تر عدالتی مراحل سے گزر کر سزا کے اطلاق کے آخری مرحلے میں ہیں، انہیں بھی فی الفور سزا دی جائے، کیونکہ مجرم قرار پائے جانے والے افراد میں کسی قسم کا امتیاز شریعت اور قانون کے تقاضوں کے منافی ہو گا، جس پر خاموشی اختیار کرنا کسی طرح روا نہیں ہے۔