روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جون ۲۰۰۵ء کی ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے دائمی ارکان کی توسیع کی صورت میں مسلم ممالک کو نمائندگی ملنی چاہیے۔ انہوں نے ریاض میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر سلامتی کونسل میں توسیع کا مقصد سب کو نمائندگی مہیا کرنا اور مبنی بر انصاف رکنیت دینا ہے تو ایسی صورت میں مسلم ممالک کا حق ہے کہ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے جس کے پانچ ارکان مستقل اور دائمی ہیں، امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور فرانس، ان ممالک کو ویٹو پاور بھی حاصل ہے کہ اگر سلامتی کونسل کے باقی ارکان متفقہ طور پر کوئی فیصلہ کر دیں تو ان پانچ میں سے کسی ایک کی طرف سے مسترد کیے جانے کی صورت میں وہ فیصلہ کالعدم ہو جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کو اس وقت عملی طور پر دنیا کے سب سے بڑے کنٹرولنگ ادارے کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے ذریعے سلامتی کونسل بلکہ اس کے پانچ مستقل ارکان دنیا کی سب سے زیادہ بااختیار اتھارٹی کا درجہ اختیار کر چکے ہیں، جبکہ رفتہ رفتہ اقوام متحدہ کو ایک عالمی حکومت کا درجہ دینے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، معاشی وسائل، صنعت و تجارت اور عسکری قوت میں واضح برتری کے باعث چند ترقی یافتہ ممالک دنیا پر عملاً حکومت کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اس حکمرانی، بالادستی اور اجارہ داری کے قیام اور بقا میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار، ذریعہ اور چھتری ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام کو مجموعی طور پر یا اس کے کسی ایک ملک کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے فیصلوں اور پالیسی میں کوئی اختیار اور اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔
- جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسلام کے حوالہ سے مسلمانوں کے جداگانہ وجود اور مسلم ممالک کی امتیازی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
- اور اس کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس دور میں اقوام متحدہ وجود میں آئی تھی اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ اور فیصلوں کا طریق کار طے کیا جا رہا تھا، اس وقت چند ملکوں کے سوا باقی مسلم ممالک استعماری طاقتوں کے غلام یا ان کے ماتحت تھے اور عالم اسلام کی اکثریت اقوام متحدہ کی تشکیل اور اس کی پالیسی اور طریق کار کی تدوین میں شریک نہیں تھی۔ اس لیے چند بڑے ممالک کو نہ صرف اقوام متحدہ کا تنظیمی ڈھانچہ اور قواعد و ضوابط یکطرفہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق طے کرنے کا موقع مل گیا بلکہ انسانی حقوق کا جو چارٹر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا اس کی بنیاد مغرب کے فلسفہ و ثقافت پر رکھی گئی اور اسلامی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کے اس عالمی چارٹر کی بہت سی دفعات قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم ہیں جبکہ اس چارٹر کو اس وقت عالمی قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے جس کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر ادارے فیصلے کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے ذریعے ان کا سب ممالک پر نفاذ کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کا یہ مطالبہ درست اور ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان میں توسیع کی صورت میں عالم اسلام کو بھی سلامتی کونسل میں مستقل نشست دی جائے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ مطالبہ جائز اور ضروری ہونے کے باوجود نامکمل اور ادھورا ہے اور صرف اس بات سے اقوام متحدہ کا ڈھانچہ اور طریق کار عالم اسلام کے لیے مبنی بر انصاف اور قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ ہمارے نزدیک اقوام متحدہ کے حوالہ سے عالم اسلام کو کم از کم تین حوالوں سے صورتحال کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اپنے مستقبل کے کردار کا فیصلہ کرنا چاہیے :
- انسانی حقوق کا چارٹر صرف اور صرف مغرب کے فلسفہ و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے اور اس میں متعدد اسلامی احکام و قوانین کی نفی کی گئی ہے، اس لیے اس پر اور دیگر متعلقہ بین الاقوامی معاہدات پر نظرثانی ضروری ہے۔
- عسکری ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت پر چند ممالک نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ ایٹمی ہتھیار ذخیرہ کرنے کے بعد دوسرے تمام ممالک پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندی لگا دی ہے جس سے عالم اسلام سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، اس لیے یہ قانون غیر منصفانہ، جانبدارانہ اور عالم اسلام کی حق تلفی کے مترادف ہے، اس پر نظر ثانی ضروری ہے۔
- سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور جن ممالک کو حاصل ہے ان میں دنیا کی ایک ربع کے لگ بھگ آبادی اور ساٹھ کے قریب مستقل حکومتیں رکھنے والے عالم اسلام کو ایک نشست بھی حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے عالمی فیصلوں میں عدم توازن کی مستقل کیفیت دکھائی دے رہی ہے اور مسلم ممالک کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ عالم اسلام کو اس کی آبادی اور رکن ممالک کے تناسب سے سلامتی کونسل میں نشستیں دی جائیں اور یہ مستقل رکنیت نمائشی اور غیر اختیاری نہ ہو بلکہ ویٹو پاور کے ساتھ ہو کیونکہ اس کے بغیر توازن اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ہم سعودی وزیر خارجہ کی اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے تمام مسلم حکومتوں اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کی قیادت سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سالِ رواں میں جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اقوام متحدہ میں اصلاحات کا ایک پیکیج پیش ہونے والا ہے جس میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں توسیع کی تجویز بھی شامل ہے، اس موقع پر مسلم حکومتوں کو باہمی مشاورت کے ساتھ جامع اور مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے اور صرف سلامتی کونسل کی نمائشی نشست کی بھیک مانگنے کی بجائے مجموعی صورتحال کے تناظر میں عالم اسلام کے جائز حقوق اور مطالبات کا پیکج خود طے کرکے اسے او آئی سی کی طرف سے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کرنا چاہیے۔