بروکلین نیویارک کی مکی مسجد میں تراویح کے دوران حافظ صاحبان نے گیارہواں پارہ پڑھا، تراویح کے بعد مجھے کچھ بیان کرنا تھا، میں نے انہی آیات کریمہ میں سے ایک واقعہ کا انتخاب کیا اور قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا۔ قارئین کو بھی اس میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔
یہ واقعہ تین صحابہ کرامؓ حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیعؓ کا ہے جو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پچاس دن تک سوشل بائیکاٹ کی سزا دی تھی۔ قرآن کریم کی سورہ التوبہ کی آیت ۱۱۸ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے اور بخاری شریف کی تفصیلی روایت میں خود حضرت کعب بن مالکؓ نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک ایسے موقع پر پیش آیا جب فصلیں پک چکی تھیں، گرمی کا موسم تھا اور سفر لمبا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ کسی غزوہ پر جاتے ہوئے اپنے ہدف کا اعلان نہیں کرتے تھے تاکہ دشمن کو کسی ذریعے سے خبر نہ ہو جائے۔ مگر تبوک کا سفر چونکہ رومیوں سے جنگ کے لیے تھا جس کے لیے شام کی سرحد تبوک تک جانا تھا۔ ایک ماہ کا سفر تھا اور واپسی پر بھی ایک ماہ لگنا تھا جبکہ وہاں کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں تھا اس لیے کہ قیصر روم خود ایک لاکھ فوج لے کر شام میں پہنچ چکا تھا اور مسلمانوں پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ مگر جناب نبی اکرمؐ اسے حملے کا موقع دینے کی بجائے خود وہاں جا کر سرحد پر اس سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ مقابلہ بڑی طاقت سے تھا اس لیے نبی اکرمؐ نے عام لام بندی کا اعلان کر دیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ رومیوں کے مقابلے میں جانا ہے تاکہ سب لوگ پوری طرح تیار ہو جائیں، حکم یہ تھا کہ جو بھی لڑنے کے قابل ہے وہ ساتھ چلے۔
کعب بن مالکؓ کا کہنا ہے کہ میں پوری طرح تیار تھا، دو سواریاں بھی خرید رکھی تھیں اور ویسے بھی ٹھیک حال میں تھا لیکن روانگی کے موقع پر مجھ سے سستی ہوگئی کہ آج تیاری کرتا ہوں، کل سامان خریدوں گا اور اسی آج کل میں جناب نبی اکرمؐ روانہ ہوگئے۔ میں پھر بھی مطمئن تھا کہ اچھی سواری رکھتا ہوں، ایک دو روز بعد بھی روانہ ہوا تو قافلے سے جا ملوں گا مگر سستی بدستور چلتی رہی حتیٰ کہ کئی روز گزر گئے اور میں نے یہ اندازہ کر لیا کہ اب نہیں پہنچ سکوں گا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد مدینہ منورہ میں یا معذور لوگ رہ گئے تھے یا ایسے لوگ جنہیں ہم منافقین شمار کرتے تھے۔ مجھے اپنے آپ کو ان کے درمیان دیکھ کر شرمندگی سی ہوتی تھی مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ دورانِ سفر ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کعبؓ نے کیا کیا؟ ایک شخص نے کہا کہ اس کو مزاج کی نزاکت اور نخرے نے روک لیا ہے۔ حضرت جابرؓ بھی موجود تھے انہوں نے ٹوک دیا کہ وہ مخلص صحابی ہے اس کے بارے میں ایسی بات کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جوں جوں جناب رسول اللہؐ کی واپسی کی خبریں مل رہی تھیں مجھے فکر لاحق تھی کہ آپؐ کے سامنے کیا عذر پیش کروں گا؟ اتنے میں تقریباً تین ماہ کے بعد رسول اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لے آئے جبکہ میں نے ایک روز پہلے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ کوئی بہانہ نہیں تراشوں گا اور صاف صاف اصل بات عرض کر دوں گا اس پر جو فیصلہ ہوگا وہ میرے لیے بہتر ہی ہوگا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد گھر تشریف لے جاتے تھے۔ آپؐ جب تشریف لا کر مسجد میں بیٹھے تو لوگوں نے آنا شروع کر دیا جو مختلف قسم کے عذر بہانے کر کے اس غزوہ میں اپنی غیر حاضری پر معذرت کرتے اور حضور علیہ السلام اسے قبول فرما لیتے۔ یہ کم و بیش ۸۰ افراد تھے جنہیں ہمارے ہاں عام طور پر منافقین میں شمار کیا جاتا تھا۔ میں بھی حاضر ہوا، جناب نبی اکرمؐ نے غضب آلود تبسم کے ساتھ میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کہ میں ان کے ساتھ سفر پر کیوں نہیں گیا جبکہ میری تیاری بھی حضورؐ کے علم میں تھی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں بھی بظاہر کوئی معقول بہانہ پیش کر کے وقتی طور پر آپؐ کو مطمئن کر سکتا ہوں لیکن اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کل وحی کے ذریعے آپؐ کو اصل صورتحال سے آگاہ کر دیا جائے گا تو میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اس لیے سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ میرا کوئی عذر نہیں تھا اور کوئی رکاوٹ نہیں تھی بس آج کل کرتے کرتے سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا تم نے چونکہ سچ بولا ہے اس لیے تم اپنے بارے میں فیصلے کا انتظار کرو اور عام مسلمانوں کو حکم دیا کہ تاحکم ثانی اس کے ساتھ بول چال اور لین دین بند رکھو۔
کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ اس سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے مدینہ منورہ کی سرزمین میرے لیے تنگ ہوگئی۔ نہ کوئی مجھ سے بات کرتا ہے، نہ سلام کہتا ہے، نہ سلام کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی میری طرف متوجہ ہوتا ہے۔ مجھے مدینہ منورہ کے درودیوار اجنبی لگ رہے تھے اور میں اپنے ہی شہر میں انجانا مسافر ہو کر رہ گیا تھا۔ چند ہی روز میں میرا سانس گھٹنے لگا۔ میری پریشانی کی دو بڑی وجہیں تھیں۔ ایک یہ کہ اگر اس دوران میرا انتقال ہوگیا تو نبی اکرمؐ میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ اور اگر خدانخواستہ اس کیفیت میں خود جناب نبی اکرمؐ چل بسے تو میری باقی ساری زندگی اس سوشل بائیکاٹ کے ماحول میں گزرے گی۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ دو اور بدری صحابی حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیعؓ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں تو پریشانی کچھ کم ہوئی کہ میں اس سزا میں اکیلا نہیں ہوں۔ وہ دونوں کمزور اور بوڑھے تھے اس لیے گھروں میں بیٹھ گئے جبکہ میں نسبتاً جوان اور صحت مند تھا اس لیے مسجد نبوی میں نمازوں میں حاضری اور بازار میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
ایک روز میں بازار جا رہا تھا تو دیکھا کہ شام سے آنے والا ایک قبطی تاجر آواز دے رہا ہے کہ کوئی مجھے کعب بن مالکؓ کا گھر بتائے گا؟ بازار سے گزرنے والے کسی شخص نے اشارے سے میرے بارے میں بتایا کہ وہ جا رہا ہے۔ وہ قبطی آ کر مجھ سے ملا اور ایک خط پیش کیا جو غسان کے بادشاہ کی طرف سے تھا اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے سردار کی طرف سے ذلت اور توہین کا سامنا کر رہے ہو حالانکہ تم محترم شخصیت ہو اور ایسے سلوک کے مستحق نہیں ہو۔ اس لیے میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہیں سیاسی پناہ دیں گے اور عزت و اکرام کا معاملہ کریں گے۔ میں نے خط پڑھ کر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا کہ کیا یہ امتحان ابھی باقی رہ گیا تھا؟ میں اس قبطی کو ساتھ لے کر اپنے محلے کے ایک تنور پر گیا جس میں آگ جل رہی تھی، میں نے وہ خط جلتی ہوئی آگ میں پھینک کر اس قبطی سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے جا کر کہہ دینا کہ یہ اس کے خط کا جواب ہے۔
ہم مسلسل چالیس روز تک اسی کیفیت میں رہے کہ ایک روز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام آیا کہ اپنی بیویوں سے الگ ہو جاؤ اور ان کے قریب نہ جاؤ ۔ ہلال بن امیہؓ کی بیوی نے یہ کہہ کر گھر میں رہنے کی اجازت لے لی کہ یا رسول اللہؐ! اس کا تو روٹی پکانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ آپؐ نے یہ فرما کر اجازت دے دی کہ ضروری کاموں کے لیے تم گھر میں رہ سکتی ہو لیکن تم ایک دوسرے کے قریب نہیں جاؤ گے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ اس قسم کی اجازت میں بھی حاصل کر لوں مگر میں نے کہا کہ میں جوان آدمی ہوں نباہ نہیں سکوں گا۔ اس لیے میں نے بیوی سے کہا کہ تم میکے چلی جاؤ اور کوئی فیصلہ ہونے تک وہیں رہو۔ اس دوران میں مسجد نبوی میں جاتا رہا، نماز میں شریک ہوتا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا تھا۔ حاضر ہو کر آنحضرتؐ کی خدمت میں سلام عرض کرتا اور منہ دوسری طرف کر کے کن انکھیوں سے دیکھتا کہ کیا آپؐ نے میرے سلام کا جواب دیا ہے؟ مگر ادھر مکمل خاموشی رہتی تھی۔
اسی امتحان و آزمائش میں روز و شب گزر رہے تھے کہ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی اور گہرے دوست ابوقتادہؓ کے پاس اس کے گھر چلا گیا۔ میں نے سلام کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم اس بات کو نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ قلبی محبت رکھتا ہوں؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے دوبارہ سہ بارہ قسم دلا کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس پر میں انتہائی مایوسی کے عالم میں روتے ہوئے اس گھر سے نکل آیا۔
ہمارے ساتھ مدینہ منورہ کے لوگوں کے اس سوشل بائیکاٹ پر پچاس راتیں گزر چکی تھیں اور ہماری پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا کہ ایک روز میں فجر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو مجھے گھر کے سامنے کے پہاڑ ’’سلع‘‘ سے آواز سنائی دی کہ اے کعب! خوش ہو جاؤ! میں سمجھ گیا کہ ہماری معافی کا اعلان آگیا ہے۔ ہوا یوں کہ رات کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا فیصلہ سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے ذریعے صادر فرما دیا تھا اور جناب نبی اکرمؐ نے صبح نماز فجر کے بعد جب مسجد نبوی میں اس کا اعلان فرمایا تو دو حضرات مجھے اس کی خبر دینے کے لیے دوڑ پڑے اور ان میں مجھے یہ خبر پہلے دینے میں مقابلہ ہوگیا۔ ایک گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے میری طرف تیزی سے آرہا تھا جبکہ دوسرا پیدل ہی دوڑ پڑا اور درمیانی راستوں سے ہوتے ہوئے میرے گھر کے بالکل قریب جبل سلع تک پہنچ گیا، یہ صاحب حضرت حمزہ اسلمیؓ تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ گھڑ سوار ان سے پہلے کعبؓ کے گھر پہنچ جائے گا تو انہوں نے اسی پہاڑ سے میرے گھر کی طرف رخ کر کے میرے لیے خوشخبری کی آواز لگا دی جو مجھے فورًا پہنچ گئی اور وہ گھڑ سوار پر سبقت لے گئے۔
میں دیوانہ وار گھر سے نکلا، اپنے کپڑے خوشخبری دینے والے کو انعام کے طور پر دیے اور خود پڑوسی سے مانگ کر کپڑے پہنے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا تو وہ صحابہ کرامؓ کے جھرمٹ میں انتہائی خوشی کے عالم میں تشریف فرما تھے۔ حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور جناب رسول اللہؐ نے مجھے اس آزمائش میں سرخرو ہونے پر مبارکباد دی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے سچ بولنے کی وجہ سے یہ اعزاز ملا ہے اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ اس خوشی میں میرا سارا مال و جائیداد اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ سارا نہیں اپنے لیے بھی کچھ روک لو، میں نے عرض کیا ٹھیک ہے، خیبر میں ملنے والا باغ میں اپنے لیے روک لیتا ہوں اس کے سوا باقی میرا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔