اعمالِ خیر کی حفاظت بھی ضروری ہے

   
مرکزی جامع مسجد، واپڈا ٹاؤن، گوجرانوالہ
۲۱ اپریل ۲۰۲۳ء

(۳۰ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ کو بعد از نماز عصر مرکزی جامع مسجد واپڈا ٹاؤن گوجرانوالہ میں نمازیوں سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رمضان المبارک آج ہم سے رخصت ہونے والا ہے، گھنٹہ ڈیڑھ کا مہمان ہے، یہ برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ اللہ تعالیٰ سال کے بعد ہمیں عطا فرماتے ہیں، اس میں اعمالِ خیر کی توفیق بھی زیادہ ملتی ہے اور مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو جیسے کیسے بھی ہیں اور جتنے بھی ہیں محض اپنے فضل و کرم کے ساتھ قبول فرمائیں اور صحت و عافیت اور توفیق کے ساتھ بار بار رمضان المبارک نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ اس موقع پر تین گزارشات مختصراً پیش کرنا چاہتا ہوں، خود اپنے لیے بھی اور آپ حضرات سے بھی کہ ہمیں ان کا لحاظ کرنا چاہیے۔

پہلی بات یہ کہ ہم جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو تکمیل سے پہلے اس پورے عمل پر ایک نظر ضرور ڈالتے ہیں تاکہ اگر کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو اسے پورا کرنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔ مثال کے طور پر مکان بنایا ہے تو اس کی تکمیل کے آخری مرحلہ میں ایک نظر مجموعی کام پر ڈال لیتے ہیں کہ کون سا کام ہوگیا ہے اور کون سا رہ گیا ہے تاکہ اس کی تلافی کی جا سکے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں یہ بات روزمرہ معمولات کے حوالے سے فرمائی ہے کہ رات کو سونے سے پہلے جب بستر پر لیٹو تو پورے دن کے اعمال پر ایک نظر ڈال لیا کرو کہ صبح بیدار ہونے کے بعد سے اب رات سونے تک دن میں کون کون سے کام کیے ہیں؟ ان میں سے کتنے کام صحیح ہوئے ہیں اور کون سے غلط ہوگئے ہیں؟ تاکہ دن کی مجموعی پوزیشن سامنے رہے کہ خیر کے اعمال زیادہ ہوئے ہیں یا غلطیوں کا ارتکاب زیادہ ہوا ہے؟

ہمارے ہاں کاروباری دنیا میں اسے روکٹر ملانا کہتے ہیں کہ کوئی بھی تاجر شام کو اپنا کام بند کرنے سے پہلے دن کی مجموعی کیفیت کا ایک نظر میں ضرور جائزہ لیتا ہے کہ آج کا دن نفع کا تھا یا گھاٹے کا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تلقین نیکیوں کے بارے میں فرمائی ہے کہ رات کو سونے سے قبل دن بھر کی نیکیوں اور گناہوں کا روکٹر ملایا کرو تاکہ اس کی روشنی میں اگلے دن کی ترتیب طے کر سکو۔

یہی بات میں رمضان المبارک کے حوالہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رمضان المبارک مکمل ہوتے وقت ہم سب کو اس ماہ کے دوران اپنے معمولات اور مصروفیات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے تاکہ یہ بات ذہن میں آجائے کہ ہم نے خیر کے کام زیادہ کیے ہیں یا غلطیاں اور گناہ زیادہ ہوئے ہیں۔ یہ بات ہمارے لیے اگلے پروگراموں کے لیے راہنما بنے گی اور ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکیں گے۔

دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ رمضان المبارک میں باقی سال سے زیادہ اعمالِ خیر کی توفیق ملتی ہے اور الحمد للہ پورے عالمِ اسلام میں رمضان المبارک کا ماحول باقی مہینوں سے مختلف ہوتا ہے۔ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی ہمارا ماحول بدل جاتا ہے، مصروفیات بدل جاتی ہیں اور کھانے پینے، سونے جاگنے اور باقی معمولات کی ترتیب بدل جاتی ہے، جو یقیناً خیر کا باعث ہے۔ مگر رمضان المبارک رخصت ہوتے ہی ہم سابقہ پوزیشن پر واپس چلے جاتے ہیں، اس میں یہ فرق بھی سامنے رہنا چاہیے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں تو اس کے ماحول کا عادی ہونے میں دوچار دن لگ جاتے ہیں مگر عید کے چاند کا اعلان ہونے پر ماحول بدلنے میں کوئی وقت نہیں لگتا فوراً پوری صورتحال بدل جاتی ہے۔

اس سے قطع نظر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بہرحال رمضان المبارک میں نیک اعمال کرنے اور نیکیاں کمانے کا موقع زیادہ ملتا ہے اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر و ثواب جمع کر لیں، مگر نیکیاں کمانے کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت کی فکر بھی ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ جس طرح نیکیاں کمائی جاتی ہیں اسی طرح ضائع بھی ہو جاتی ہیں، کیے ہوئے نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اور کمائی ہوئی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔
اس کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب اعمال باطل ہوتے ہیں اور نیکیاں ضائع ہوتی ہیں تو ’’وانتم لاتشعرون‘‘ تمہیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا یعنی نیکی کماتے ہوئے تو انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ کما رہا ہوں لیکن نیکیاں ضائع ہوتے ہوئے پتہ بھی نہیں چلتا کہ کون سی نیکی کب اور کہاں ضائع ہو گئی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی شخص کمپیوٹر پر کام کر کے اسے سیو نہ کرے تو وہ اعمال کسی وقت بھی ڈیلیٹ ہو سکتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب ڈلیٹ ہوگیا ہے ؟

قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کاموں کا ذکر کیا ہے جن کے کرنے سے کمائی ہوئی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں اور کیے ہوئے اعمال باطل ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر ان میں سے صرف ایک کا ذکر کرتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ان الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الخطب‘‘ حسد انسان کی نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ حسد اس انسانی احساس کو کہتے ہیں کہ دوسرے شخص کو اچھی حالت اور اچھے ماحول میں دیکھ کر اس کے دل میں جلن محسوس ہو کہ مجھے یہ کچھ نہیں ملا تو اس کو کیوں مل گیا ہے؟ یہ منفی جذبہ ہے جس کی مذمت کی گئی ہے، جبکہ اس کے مقابلہ میں یہی جذبہ مثبت ہو جائے تو وہ لائق تحسین ہے کہ کسی بھی شخص کو اچھی کیفیت اور ماحول میں دیکھ کر انسان خوشی محسوس کرے اور دل میں یہ کہے کہ یا اللہ تعالیٰ آپ نے اس پر مہربانی فرمائی ہے تو مجھ پر بھی کر دیں۔ یہ رشک کہلاتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی ہے۔ حسد انسان کی نیکیوں کو کھا جاتا ہے اور اس شخص کے دل کی جلن اس کو تو جلاتی ہے اس کے ساتھ اس کی نیکیوں کو بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

اسی طرح کے اور بہت سے اعمال قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں جن کے کرنے سے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں، اس لیے نیک اعمال کرتے ہوئے اس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کی حفاظت ہو تاکہ وقت ضرورت کام آئیں اور قیامت کے دن حساب کتاب کے موقع پر یہ ہمارے پاس موجود ہوں۔

تیسری بات یہ عرض کرتا چاہوں گا کہ آج رمضان المبارک کی تیس تاریخ ہے اور ابھی جو رات شروع ہونے والی ہے یہ عید کی رات ہے۔ عید کی رات کو بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی رات بتایا ہے اور اس رات کی عبادت کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

من قام لیلتی العیدین محتسبا للّٰہ لم یمت قبلہ یوم تموت القلوب۔

جس نے عیدین کی راتوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے قیام کیا اس کا دل اس دن مردنی کا شکار نہیں ہوگا جب دلوں پر موت چھا جائے گی۔

اس رات کا قیام بھی خاص عبادات میں شمار ہوتا ہے جبکہ ہماری یہ رات تمام طور پر لہو و لعب اور اس قسم کے کاموں میں گزر جاتی ہے، اس لیے گزارش یہ ہے کہ ہمیں آج کی رات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، اگر اور کچھ نہ کر سکیں تو باقی اعمالِ خیر اور معمولات کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی عملِ خیر اس نیت سے بھی کر لیں، یا کم از کم دو نفل اس خیال سے پڑھ لیں کہ آج کی رات عید کی رات ہے اور عبادت کی رات ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ شرکت ہو جائے گی۔

رمضان المبارک رخصت ہوتے ہوئے یہ چند باتیں آپ دوستوں کے ساتھ کرنے کا موقع مل گیا، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں اور ہم سب کو رمضان المبارک کی برکات و ثمرات سے دنیا و آخرت میں بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ مئی ۲۰۲۳ء)
2016ء سے
Flag Counter