۲۹ اکتوبر کو مجلس ارشاد المسلمین پاکستان کے زیر اہتمام جامعہ محمدیہ کشمیر پتی پرانا کاہنہ لاہور میں ’’امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کے علوم و معارف سے آگہی‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں راقم الحروف کو اپنے رفقاء حافظ محمد عثمان رمضان، حافظ شفقت اللہ اور حافظ شاہد الرحمان میر کے ہمراہ شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ مجھے ’’حضرت امام ابوحنیفہؒ کے اجتہادی اصول اور عصر حاضر‘‘ کے عنوان پر معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا، اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی، مولانا عبد الشکور حقانی، مولانا مفتی عبد الحفیظ نقشبندی اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہوں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی نسبت سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں حاضری اور گفتگو کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر امت مسلمہ کی قیامت تک کی راہنمائی کے لیے جو اصول ارشاد فرمائے تھے اور ہدایات دی تھیں انہیں محدثین کرامؒ نے بڑے اہتمام اور تگ و دو کے ساتھ تاریخ و حدیث کے ریکارڈ میں محفوظ کر دیا ہے۔ اس موقع پر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بطور خاص فرمائی تھی کہ تم لوگ میری جو باتیں سن رہے ہو انہیں آگے پہنچاتے رہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا ’’رب مبلغ اوعی لہ من سامع‘‘ کہ جس شخص کو بات پہنچائی جائے وہ بسا اوقات سننے والے سے زیادہ بات کو سمجھتا ہے اور یاد رکھتا ہے۔ یہاں ’’اوعیٰ‘‘ کا معنیٰ احفظ بھی ہے اور افقہ بھی ہے کہ بات کو یاد زیادہ رکھتا ہے اور بات کو سمجھتا زیادہ ہے۔
امام محمد بن سیرینؒ جب یہ روایت بیان کرتے تو اس موقع پر اپنی طرف سے یہ جملہ کہتے تھے کہ ’’صدق محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہ حضرت محمدؐ نے سچ فرمایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کی ہر بات سچی ہوتی ہے لیکن اس بات کے سچے ہونے کا ہم نے مشاہدہ بھی کر لیا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ نے ہزاروں روایات یاد رکھیں اور حفاظت کے ساتھ انہیں امت تک منتقل کیا جبکہ تابعینؒ اور اتباع تابعینؒ کے دور میں جس طرح ان روایات کی حفاظت و جمع اور تفقہ و استنباط پر وسیع اور متنوع جدوجہد سامنے آئی وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔ محدثین کرامؒ نے روایات کے تحفظ اور جمع کے دائرے میں کام کیا اور فقہاء عظامؒ نے تفقہ و استنباط کا محاذ منظم کیا۔ بیسیوں محدثینؒ اور بیسیوں فقہاء نے اپنے اپنے دائرہ میں محنت کی جو امت مسلمہ کا سب سے مضبوط علمی و فقہی اثاثہ ہے۔ محدثین اور فقہاء کے یہ دونوں دائرے حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی موجود تھے بلکہ وہی اس سارے کام کی اصل اور اساس ہیں لیکن منظم طور پر اس کام کو ہدف بنا کر محنت کا سب سے زیادہ کام تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں ہوا جس سے امت مسلمہ اب تک استفادہ کر رہی ہے اور قیامت تک اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔
دونوں دائروں میں بیسیوں ارباب علم و فضل کی کاوشیں امت کی علمی تاریخ کا حصہ ہیں مگر فقہاء میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ اور محدثین میں حضرت امام بخاریؒ کی مساعی کو سب سے زیادہ قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی ہے۔ احادیث کی جمع و ترتیب، حفظ و نقد، درجہ بندی اور چھان بین میں حضرت امام بخاریؒ جبکہ تفقہ و استدلال اور استنباط و اجتہاد میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کو سب کی امامت کا درجہ ملا ہے۔ ان دونوں کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ میں امام مسلمؒ، امام ابوداؤدؒ، امام ترمذیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نسائیؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام داؤدؒ اور امام سفیان ثوریؒ جیسے اساطین علم کی پوری پوری صف موجود ہے مگر امامت کے مصلیّٰ پر یہی دو بزرگ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
اس پس منظر میں ’’امام ابوحنیفہؒ کے اجتہادی اصول اور عصر حاضر‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے میں آج کی اس نشست میں پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خود امام صاحبؒ کا عصر حاضر کیا تھا، انہیں کس ماحول اور کن تقاضوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے اپنے عصر حاضر کے چیلنجز کا سامنا کیسے کیا تھا؟
امام صاحبؒ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور شعور و بلوغت کی عمر تک پہنچتے ہوئے پہلی صدی ان سے رخصت ہو رہی تھی، صحابہ کرامؓ کا مجموعی دور، خلافت راشدہؓ بلکہ عمومی طور پر صحابہ کرامؓ کی حکومتوں کا زمانہ بھی گزر چکا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی حکومتوں کے دور میں وقت کے بیشتر حکمران صحابیٔ رسول ہونے کے باعث دینی معاملات میں حجت سمجھے جاتے تھے اور بہت سے باہمی اختلافات کے باوجود اس حوالہ سے ایک دوسرے پر اعتماد کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر امت کا بھرپور اعتماد رکھتے تھے۔ جبکہ دوسری صدی میں حکمرانوں کی یہ حیثیت قائم نہیں رہی تھی اور خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگر علمی راہ نمائی اور فقہی استدلال و استنباط میں حکمرانوں پر انحصار کا سلسلہ چلتا رہا تو اس کا وہ معیار قائم نہیں رہے گا جو پہلی صدی میں موجود تھا۔ اس بات کو حضرت امام ابوحنیفہؒ نے محسوس کیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے دو کام کیے۔ ایک یہ کہ علمی بحث و مباحثہ اور فقہی استدلال و استنباط کو حکمرانوں کے اثرات سے آزاد ایک مستقل ادارہ کی حیثیت دی اور اس کے لیے اجتماعی نظم قائم کیا۔ اور دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ پہلی صدی کے آئیڈیل علمی وفقہی ذخیرہ کو اصول و فروع کے دائروں میں مجموعی طور پر محفوظ کر دیا تاکہ آنے والے ادوار میں علماء و فقہاء کو نت نئے اصول وضع کرنے کی بجائے اس حوالہ سے ایک مضبوط و معتمد فریم ورک پہلے سے موجود ملے جس سے وہ بہت سی غیر ضروری محنت کے ساتھ ساتھ مختلف خطرات سے بھی محفوظ رہیں گے۔
حضرت امام ابوحنیفہؒ کے دور سے پہلے عام طور پر صرف پیش آمدہ مسائل پر ہی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا جبکہ مختلف صورتیں فرض کر کے ان کے لیے تفقہ و استنباط کا ماحول موجود نہیں تھا بلکہ اسے پسند بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ ممکنہ صورتیں اور حالات فرض کر کے ان کے لیے احکام کا تعین ’’فقہ فرضی‘‘ کہلاتا تھا جسے آج کے دور میں ’’قانون سازی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز ایک مستقل محنت کے طور پر حضرت امام ابوحنیفہؒ نے کیا بلکہ اس کے ساتھ دستور سازی کی شروعات بھی امام صاحبؒ کے جانشین امام ابویوسفؒ کی تحریر کردہ ’’کتاب الخراج‘‘ سے ہوئی جو انہوں نے ممتاز عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ کی فرمائش پر لکھی تھی اور وہ عباسی دور میں نافذ العمل رہی۔ اس میں بیت المال اور معیشت سے متعلقہ مسائل و قوانین کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے آداب و ضوابط بھی بیان کیے گئے ہیں جس سے یہ کتاب مجموعی طور پر ایک ’’حکومتی دستور‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا دستور سازی اور قانون سازی کا آغاز امام ابوحنیفہؒ اور ان کے تلامذہ نے کیا اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی امتیاز ہے کہ انہوں نے مسائل و احکام پر غوروخوض اور قوانین و ضوابط کے استدلال و استنباط کے لیے شخصی کاوشوں کی بجائے اسے اجتماعی مشاورت او رمباحثہ کی شکل دی۔ اس کے لیے امام ابوحنفیہؒ کے ساتھ چالیس کے لگ بھگ جید علماء کرام کی باقاعدہ مجلس تھی جس نے باہمی مشاورت، مباحثہ، مکالمہ اور اختلافِ رائے کے آزادانہ اظہار کے ساتھ اسی ہزار سے زائد مسائل و احکام مرتب کر کے امت کے حوالے کیے۔
اجتماعی مشاورت اور بحث و مباحثہ کے ذریعے علمی و فقہی مسائل کا حل تلاش کرنے اور فیصلے کرنے کی یہ روایت دراصل شیخین کریمین حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی تھی کہ ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ اہل علم کو بلالیا کرتے تھے اور ان کے سامنے مسئلہ پیش کرتے تھے جس پر مختلف آراء کا اظہار ہوتا تھا، مباحثہ و مکالمہ ہوتا تھا اور بحث و تمحیص کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جاتا تھا۔ امام ابوحنیفہؒ نے شیخینؓ کی اس روایت کو باقاعدہ علمی ادارے کی شکل دی اور امت کو علمی و فقہی محنت کا ایک مضبوط فریم ورک مہیا کر دیا۔
حضرت امام ابوحنیفہؒ کے اس علمی حلقے کا ایک اور اعزاز بھی ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور اقوام کے درمیان معاملات کو سب سے پہلے انہوں نے موضوع بحث بنایا چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت امام محمدؒ اور ان کے بعد امام شمس الدین سرخسیؒ کی علمی و فقہی مساعی کو آج کی دنیا میں بھی بین الاقوامی قانون اور معاہدات کے حوالہ سے راہنما سمجھا جاتا ہے اور ان سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
امام ابوحنیفہؒ نے ایک اور کام کو بھی منظم انداز میں پیش کیا کہ شرعی احکام و قوانین کی علمی اساس کو واضح اور متعین کر دیا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی مسئلہ پر رائے قائم کرنے سے پہلے اس کا حل قرآن کریم میں تلاش کرتا ہوں، وہاں نہ ملے تو حدیث و سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، وہاں بھی دستیاب نہ ہو تو صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف جاتا ہوں، اگر ان کا کوئی اجتماعی موقف مل جائے تو نور علیٰ نور، اور اگر ان کے درمیان متعلقہ مسئلہ پر اختلاف ہو تو انہی میں سے کسی کی رائے کو اختیار کر لیتا ہوں اور صحابہ کرامؓ کی آراء کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔ گویا امام صاحبؒ (۱) قرآن کریم (۲) حدیث و سنت (۳) اور صحابہ کرامؓ کو شرعی احکام و قوانین کے بنیادی مآخذ قرار دیتے ہیں اور ان دائروں کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ بات اہل سنت کے دیگر ائمہ بھی فرماتے ہیں لیکن اسے باضابطہ اصول اور قاعدہ کے طور پر سب سے زیادہ امام ابوحنیفہؒ نے واضح کیا ہے اور اسی پر ان کی پوری فقہ کی عمارت کھڑی ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ کو قیاس اور رائے کا سب سے بڑا علمبردار کہا جاتا ہے حتیٰ کہ ان کے حلقہ کو ’’اصحاب الرائے‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ وہ رائے اور قیاس کو ضرور استعمال میں لاتے ہیں اور پورے اعتماد کے ساتھ اس سے استفادہ کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک اس کا درجہ قرآن، حدیث اور آثارِ صحابہؓ کے بعد ہے۔
پہلی صدی کے اختتام اور دوسری صدی کے آغاز کے ماحول میں حضرت امام ابوحنیفہؒ اور ان کے علمی حلقہ کی ان متنوع خدمات کا سرسری تذکرہ کرنے کے بعد اب میں اپنے عصر حاضر کی طرف آتا ہوں اور موجودہ دور کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ارباب علم و فضل اور اصحابِ فقہ و اجتہاد کو ان میں سے تین باتوں کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں:
- آج کا دور بین الاقوامی معاہدات اور عالمی قوانین کی بالادستی کا دور ہے۔ دو درجن سے زائد بین الاقوامی معاہدات نے پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے اور عالم اسلام میں بہت سے شرعی احکام و قوانین کی عملداری میں بھی یہ معاہدات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں امام محمدؒ کی طرح ان معاہدات پر کھلے دل سے علمی بحث و مباحثہ کا ماحول مہیا کر کے اپنے کردار کا تعین کرنا چاہیے۔
- اجتہادی مسائل اور احکام و قوانین کے استنباط و تعین میں اجتماعی مشاورت اور بحث و مباحثہ کی وہ صورتیں دوبارہ زندہ کرنی چاہئیں جو حضرت امام ابوحنیفہؒ کی مجلس علمی کی صورت میں تاریخ کا حصہ ہے۔
- قرآن کریم، حدیث و سنت اور آثار صحابہ کرامؓ کے دائروں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کی روشنی میں عصر حاضر کے چیلنجز اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی کاوش کو منظم کرنا چاہیے۔
میرے نزدیک آج کے دور میں ہمارے لیے حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کا پیغام یہی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔