متفرق رپورٹس

   
رپورٹس
۳۱ جولائی ۲۰۲۴ء

قانونی، تعلیمی اور معاشرتی تبدیلیاں: اسلام آباد کے علماء کی دوہری ذمہ داری

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے مدرسہ قاسمیہ ہمک اسلام آباد میں علماء کرام کی ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ دینی و قومی حوالوں سے در پیش مسائل بالخصوص غیر ملکی ایجنڈے کے تحت کی جانے والی قانونی، تعلیمی اور معاشرتی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھنا علماء کرام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، جس کے لیے دو باتوں کا اہتمام لازمی ہے:

(۱) ایک یہ کہ مسئلہ کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے پس منظر اور معاشرتی اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے،

(۲) اور دوسری یہ کہ علماء کرام مختلف مکاتب فکر کے راہنماؤں اور قانونی ماہرین کو باہمی مشاورت کے ساتھ مشترکہ موقف قائم کر کے اس سے عوام الناس اور مختلف طبقات کو آگاہ کریں۔

علماء کرام کے اجلاس کی صدارت پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی راہنما مولانا ثناء اللہ غالب نے کی اور اس میں اسلام آباد کے علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مولانا راشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام آباد کے علماء کرام کی دوہری ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ وہ وفاقی دار الحکومت میں ہیں اور ہر قسم کی معاشرتی، قانونی اور تعلیمی تبدیلیوں کا زیادہ ذمہ داری کے ساتھ جائزہ لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں مساجد پر سرکاری کنٹرول کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں جو قانون نافذ ہوا ہے اور جس پر عملدرآمد کا آغاز بھی ہو گیا ہے ، اس کے بارے میں پوری قوم کو اسلام آباد کے علماء کرام کے موقف کا انتظار ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ قانون عملی طور پر کامیاب ہو گیا تو پورے ملک کی مساجد پر سرکاری کنٹرول کی راہ ہموار ہو جائے گی، جو مساجد کے شرعی اور قانونی حقوق اور ان کے بارے میں اب تک مسلمہ چلے آنے والے قوانین کے منافی ہوگی۔ اسی طرح ٹرانس جینڈر کے غیر شرعی قانون پر عملدرآمد میں پیشرفت اور سرکاری سکولوں میں رقص و میوزک کے اہتمام کے ساتھ ساتھ سکولوں میں شطرنج کے لیے شعبے قائم کرنے کے اقدام سے ہمارے تعلیمی نظام کا پورا ماحول تبدیل ہو جائے گا، اور اسلامی روایات و اقدار کے ساتھ ساتھ نظریۂ پاکستان اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ انہوں نے ملک بھر کے علماء کرام بالخصوص علماء اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ ان حوالوں سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ہم خیال وکلاء اور اساتذہ کے ساتھ مل کر اپنے دین اور تہذیب کو بچانے کی جدوجہد کریں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد کے علماء کرام کا ایک وفد اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے وکلاء سے رابطہ کر کے اس سلسلہ میں جدوجہد کو منظم کرنے کی کوشش کریں گے اور چند روز میں مشترکہ اجلاس کا اہتمام کر کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالی۔

(از: مولانا اسد اللہ غالب ۔ سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل، اسلام آباد۔ ۹ مئی ۲۰۲۴ء)

جسٹس مرزا وقاص رؤف کی وضاحت اور حکومتی اقدام پر اظہارِ اطمینان

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مرزا وقاص رؤف کی طرف سے قادیانیوں کے بارے میں اپنے مبہم فیصلے کی بروقت وضاحت اور کراچی میں ’’مدر مِلک بینک‘‘ کا سلسلہ روک دینے کے حکومتی اقدام پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، اور جسٹس موصوف اور متعلقہ حکام کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے دینی حلقوں کے احتجاج کا بروقت نوٹس لے کر اپنی دستوری اور شرعی ذمہ داری پوری کی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام کے معاشرتی احکام کو تبدیل کرنے کی وہ مہم ایک بار پھر پسپائی کا شکار ہوئی ہے جس کا سلسلہ اکبر بادشاہ کے دور سے لگاتار جاری ہے، مگر بحمد اللہ مسلمان قوم شریعتِ اسلامیہ کے ساتھ اپنی اجتماعی اور بے لچک کمٹمنٹ کے باعث اسے راستہ دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئی اور نہ ہی ان شاء اللہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے، جو اسلامی شریعت کی حقانیت اور قیامت تک اس کے محفوظ تسلسل کی کھلی دلیل ہے۔

(از : پروفیسر حافظ منیر احمد ۔ ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل ۔ ۲۲ جون ۲۰۲۴ء)

شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ کی تاریخی بارہ دری میں کچھ لمحات

گزشتہ روز ۱۹ جون کو استاذ محترم مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں تھوڑا وقت گزارنے کا موقع ملا۔ باغ کی مشہور بارہ دری کے ساتھ ہماری ایک نشست ہوئی جس میں جناب عبد القادر عثمان، حافظ فضل اللہ راشدی، اور راقم الحروف دانیال عمر شریک تھے۔ استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اس موقع پر شیرانوالہ باغ اور بارہ دری کی مختصر تاریخ سے ہمیں آگاہ کیا اور بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے دور حکومت میں اس بارہ دری میں دربار لگایا کرتے تھے اور گوجرانوالہ اس زمانے میں سکھ قوم کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ استاذ جی نے پنجاب پر سکھوں کی حکومت اور اس کے بہت سے واقعات سنائے اور بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد اس بارہ دری میں تحریک پاکستان کے راہنما جسٹس دین محمد مرحوم کی یاد میں لائبریری قائم کی گئی تھی جو بعد میں شیرانوالہ باغ کے صدر دروازے کے ساتھ کسی عمارت میں منتقل ہو گئی۔ اس لائبریری میں حلقہ ارباب اصلاح کے نام سے ایک ادبی تنظیم کا دفتر کئی سال رہا ہے جس کے وہ سیکرٹری تھے اور اس دفتر کا چارج ان کے پاس تھا۔ اس ادبی تنظیم کے تحت ادبی محافل، مشاعرے اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی تھیں اور شہر کے مرکزی اصحاب قلم و دانش اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔

(از: حافظ دانیال عمر ۔ سیکرٹری مرکز مطالعہ خلافت راشدہ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ۔ یکم جولائی ۲۰۲۴ء)

اسلام آباد میں علماء کرام سے مشاورت

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے آج اسلام آباد میں سرکردہ علماء کرام سے نئے اوقاف ایکٹ پر عملدرآمد کی صورتحال اور قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے سامنے آنے والے نئے مسائل پر تبادلۂ خیالات کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان دونوں حوالوں سے مرکزی دینی قیادتوں کی باہمی مشاورت ضروری ہے ورنہ کنفیوژن میں مزید اضافہ ہو گا جس سے لادین عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں دینی قیادتوں کے تحفظات کو نظرانداز کر کے نئے اوقاف قوانین کو تدریجاً عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے جو تشویش کا باعث ہے کیونکہ مساجد اور اوقاف کا نظم خالصتاً شرعی معاملہ ہے جس کے فیصلے شرعی احکام کو نظر انداز کر کے نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ایسے فیصلے قابل قبول ہوں گے۔

مولانا راشدی نے مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا تنویر علوی، مولانا محمد ادریس، مفتی سعد سعدی، مولانا ثناء اللہ غالب، مولانا سید علی محی الدین اور دیگر علماء کرام سے تازہ ترین صورتحال پر مشورہ کیا اور کہا کہ اوقات کے حوالہ سے مسلمانوں کو جو حقوق سر سید احمد خان مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی جدوجہد سے برطانیہ کے دور میں حاصل تھے انہیں نئے اوقاف قانون کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ملک کے دینی حلقوں کو اوقاف کے شرعی احکام کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ ناموس رسالت، تحفظ ختم نبوت اور شرعی احکام کے نفاذ و عملدرآمد کے بارے میں غیر ملکی مداخلت قبول نہیں کی جا سکتی کیونکہ بین الاقوامی ادارے پاکستانی قوم کا موقف سنے بغیر یکطرفہ فیصلے مسلط کرنا چاہتے ہیں جن کو پاکستانی قوم قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں دستور اور شریعت کے مطابق نافذ ہونے والے قوانین پر بین الاقوامی اداروں میں جاری بحث و مباحثہ میں وہ خود فریق بن کر ملک و دستور کا دفاع کرے اور وفاقی وزارت مذہبی امور کا مستقل شعبہ قائم کیا جائے جو بین الاقوامی اداروں میں پاکستان اور دستورِ پاکستان کے خلاف کیے جانے والے مباحثوں اور مقدمات میں ملک کے دستور اور قومی جذبات و احساسات کی ترجمانی اور وکالت کا اہتمام کرے۔ کیونکہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے حوالہ سے یہ حکومت پاکستان کی دستوری ذمہ داری ہے اور اس سے بے پروائی کی وجہ سے ہی بین الاقوامی ادارے یکطرفہ فیصلے صادر کرتے جا رہے ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ اوقاف ایکٹ کے بارے میں اسلام آباد کے علماء کرام کا جو اجتماع، موقف اور لائحہ عمل ہو گا ہم اس کی طرف توجہ دلانے کا فریضہ ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگلے ہفتہ کے دوران لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ مشاورت کا پروگرام بنا رہے ہیں جس میں لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(از: مولانا اسد اللہ غالب ۔ سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل، اسلام آباد۔ ۴ جولائی ۲۰۲۴ء)

مولانا زاہد الراشدی کا دورہ وزیر آباد

استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ساتھ ۱۰ جولائی بروز بدھ کو وزیر آباد جانے کا موقع ملا جس میں عبد القادر عثمان اور حافظ شاہد میر بھی ہمراہ تھے۔ وزیر آباد کی معروف سماجی شخصیت الحاج کرنل وقار انور شیخ صاحب کے ہاں شہر کے سرکردہ حضرات جناب پروفیسر حافظ منیر احمد، جناب شیخ بلال احمد، خواجہ شعیب اور دیگر حضرات کے ساتھ مختصر نشست میں ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔
مغرب کی نماز کے بعد مرکزی جامع مسجد حنفیہ میں سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرہ کے لیے منعقد ہونے والی تقریب سے استاذ جی نے تفصیلی خطاب کیا۔ انہوں کہا کہ بزرگوں کا تذکرہ کرتے رہنا ہماری دینی و قومی ضرورت ہے۔ جس سے ان کے ساتھ ہماری نسبت تازہ ہوتی ہے اور برکات و ثواب کے ساتھ ساتھ راہنمائی بھی ملتی ہے جس کی آج ہم سب کو ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیا کے سامنے ایک آئیڈیل سماج اور نظام پیش کیا جو آج بھی پوری دنیا کے لیے راہنمائی کا کام کر رہا ہے۔ اور حضرت عمر کے دور کو گڈ گورننس اور ویلفیئر سٹیٹ کے لیے دنیا میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان نے اس نظام کے معیار اور عدل و انصاف کی روایت کو قائم رکھنے کی جدوجہد کی۔ انہوں نے جس بات کو غلط سمجھا اس کے خلاف ڈٹ گئے حتیٰ کہ جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ اور جسے نا اہل سمجھا اس کی اطاعت قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔ ہماری آج بھی سب سے بڑی ضرورت عدل و انصاف کا قیام اور نا اہلی اور کرپشن کا خاتمہ ہے جو ان بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ہی پوری کی جا سکتی ہے۔ استاذ جی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے علماء پر زور دیا کہ وہ اپنے بزرگوں کے مسلسل تذکرہ کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد کے مقاصد اور اہداف کو بھی لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ قوم کے بہتر مستقبل اور ملک کی سلامتی اور استحکام کی منزل بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

(از: حافظ دانیال عمر ۔ سیکرٹری مرکز مطالعہ خلافت راشدہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ ۔ ۱۳ جولائی ۲۰۲۴ء)

بجلی، ٹیکس، مہنگائی

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے گذشتہ روز علماء کرام کے ایک وفد کے ہمراہ کلاتھ مارکیٹ بورڈ گوجرانوالہ کے چیئرمین حاجی محمد افضل جج سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور بجلی کے بلوں میں ہو شربا اضافہ، ٹیکسوں کی بھر مار اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مسائل پر ان سے تبادلہ خیالات کیا۔ وفد میں مولا نا حافظ گلزار احمد آزاد، مولانا داؤد احمد میواتی، صاحبزادہ حافظ نصر الدین خان عمر، عبدالقادر عثمان اور دیگر حضرات شامل تھے۔

بعد ازاں مولانا راشدی نے بتایا کہ عوام کو مہنگائی، ٹیکسوں اور بجلی کے بلوں کے حوالے سے در پیش سنگین مسائل کی صورت حال پر علماء کرام، تاجر برادری، وکلاء اور دیگر طبقات کی مشترکہ جد و جہد کی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے مورخہ ۲۷ جولائی ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ کو مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں مشترکہ مشاورتی اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں وہ مختلف طبقات سے رابطہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی زندگی اس معاشی عذاب کے ہاتھوں اجیرن ہوتی جا رہی ہے جس پر خاموشی قومی جرم اور گناہ ہے اور اس سے نجات کے لیے سب طبقات، جماعتوں اور حلقوں کو مل کر محنت کرنا ہو گی۔ ۲۷ جولائی کا مشاورتی اجلاس اسی مقصد کے لیے طلب کیا جا رہا ہے جس کے لیے وہ چیمبر آف کامرس، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، تمام مکاتب فکر کے سر کر دہ علماء کرام اور دیگر دینی و سیاسی راہنماؤں سے رابطہ کر رہے ہیں اور اجلاس میں اس سلسلہ میں جد و جہد کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالی۔

(از: حافظ نصر الدین خان عمر، امیر پاکستان شریعت کونسل ضلع گوجرانوالہ ۔ ۱۴ جولائی ۲۰۲۴ء)

کام سے غرض!

استاد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ایک مجلس میں سوال ہوا کہ ان پر ادھر اُدھر سے بہت سے اعتراضات ہوتے ہیں اور الزام بھی لگتے ہیں، وہ کسی کا جواب نہیں دیتے اور پوچھنے پر ہنس کر گزر جاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرا شروع سے ہی یہ مزاج ہے مجھے کام سے غرض ہوتی ہے میری بے مقصد بحثوں میں وقت ضائع کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے ایک واقعہ بھی سنایا کہ میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ تعالیٰ جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر تھے اور میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ لاہور کے کچھ جماعتی دوستوں کو مجھ سے کچھ شکایات تھیں جو کہ کام کرنے والے ہر شخص سے عموما ہو جایا کرتی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے حضرت شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر کے میرے خلاف شکایات و اعتراضات کی ایک لمبی فہرست پیش کی۔ حضرت رحمہ اللہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے مجلس میں سب کے سامنے عرض کیا کہ کچھ شکایات درست بھی ہو سکتی ہیں مگر میں سب پر آپ دوستوں سے معافی چاہتا ہوں اور آئندہ کام کے لیے مشورہ اور تعاون کا خواستگار ہوں۔ اس پر بات وہیں ختم ہو گئی اور حضرت شیخ نے یہ فرما کر بہت دعائیں دیں کہ مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔

(از: حافظ احمد فدا۔ شریک دورہ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ۔ ۱۴ جولائی ۲۰۲۴ء)

تین پشتوں کے شاگرد

گزشتہ روز ۱۹ جولائی ۲۰۲۴ء کو جامع مسجد ایبٹ روڈ سیالکوٹ میں استاذ گرامی حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ العالی کا درس تھا۔ اس مسجد میں مولانا محمد زبیر طالب صاحب (فاضل جامعہ اشریفہ لاہور) گزشتہ سولہ سال سے قرآن پاک کا درس دے رہے ہیں اور شہریوں کی بڑی تعداد ان کے درس میں شریک ہوتی ہے۔ استاذ جی کے درس کا اعلان کرتے ہوئے مولانا زبیر طالب نے یہ دلچسپ بات بتائی کہ

  • انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ سے پڑھا تھا۔
  • اس کے بعد ان کے فرزند حضرت مولانا زاہد الراشدی سے بھی جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں قرآن کریم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھا۔
  • اور پھر ان کے فرزند ڈاکٹر حافظ عمار خان ناصر سے بھی درجہ رابعہ کی تعلیم کے دوران جامعہ نصرۃ العلوم میں قرآن کریم کی ترجمہ و تفسیر کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔

اس طرح وہ قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر میں حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ تعالیٰ کے خاندان کی تین پشتوں کے شاگرد ہیں۔

(از: عبد القادر عثمان ، ناظم مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ۔ ۲۰ جولائی ۲۰۲۴ء)

عشرہ محرم الحرام میں امن و امان اور مسلکی رواداری کے لیے انتظامیہ، اداروں اور امن کمیٹی کا شکریہ

عشرہ محرم الحرام بعافیت گزر جانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اللہ پاک کی بارگاہ میں سراپا تشکر ہوں۔ مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ممبران امن کمیٹی کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ امن و امان اور مسلکی رواداری کے لئے محنت کرنے والے تمام اداروں اور شخصیات بالخصوص نوید حیدر شیرازی کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن، محمد طیب حفیظ چیمہ آر پی او گوجرانوالہ ریجن، محمد طارق قریشی ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ، ایاز سلیم رانا سی پی او گوجرانوالہ، و متعلقہ افسران، امن کمیٹی کے ذمہ دار حضرات اور تعاون کرنے والے تمام دوستوں بالخصوص مولانا پروفیسر محمد سعید احمد کلیروی، حاجی محمد بابر رضوان باجوہ، مولانا جواد محمود قاسمی، مفتی محمد اسلم طارق، مولانا سعید احمد صدیقی، سید علی رضا شاہ، حافظ عبدالجبار و دیگر احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اجلاس میں حاجی محمد بابر رضوان باجوہ، مولانا جواد محمود قاسمی، مولانا سعید احمد صدیقی، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، حافظ عبدالجبار، محمد بن جمیل، عبدالقادر عثمان و دیگر کی شرکت- حضرت مولانا راشدی نے مزید کہا کہ اللہ پاک ہم سب کو اسی طرح اپنے اپنے مسلک پر کار بند رہتے ہوئے، ملکی سلامتی، قومی وحدت اور امن و امان کے بہتر سے بہتر ماحول کے لئے جدوجہد کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، وطن عزیز کی سلامتی وحدت اور استحکام کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو وطن عزیز کی صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقی منزل تک پہنچانے کے لئے پرخلوص محنت کی توفیق سے بہرہ ور کریں۔ آمین یارب العالمین۔

(از: حافظ عبد الجبار ۔ ۲۱ جولائی ۲۰۲۴ء)

شدت پسندوں کی کارروائیاں اور دینی مدارس

پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب حفظہ اللہ سے ایک مجلس میں سوال کیا گیا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے مذہبی شدت پسندوں کی منفی کارروائیوں کی ذمہ داری میں دینی مدارس کو بھی شریک قرار دیا جا رہا ہے، اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

مفکر اسلام نے کہا کہ چونکہ مذہبی تعلیم دینی مدارس میں ہی دی جاتی ہے اس لیے بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کی شدت پسندی کی وجہ دینی مدارس ہیں۔ جبکہ یہ بات خلاف واقعہ ہے کیونکہ جب دینی مدارس کے وفاق خود اپنے مسائل و معاملات کی جدوجہد پر امن سیاسی و قانونی ذرائع سے کرتے چلے آ رہے ہیں تو وہ دوسروں کو غیر قانونی راستہ کی تعلیم کیسے دے سکتے ہیں؟ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ ان شدت پسند گروہوں نے عسکری تربیت اور اسلحہ تک کھلی رسائی کہاں سے حاصل کی ہے؟ دینی مدارس میں تو کسی درجہ میں بھی اس کا اہتمام موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے جہاں عسکری تربیت اور اسلحہ تک رسائی کا ماحول اور اہتمام موجود ہے انہی کو دیکھنا ہو گا اور اس وقت مجموعی صورتحال کو کنٹرول میں لانے کے لیے اسی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

(از: دفاع پاکستان و مدارس دینیہ سوشل میڈیا ٹیم۔ ۲۳ جولائی ۲۰۲۴ء)

مسئلہ ختمِ نبوت / دینی مدارس / آئی ایم ایف کا معاشی تسلط

استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ساتھ گزشتہ چوبیس جولائی کو فیصل آباد جانے کا موقع ملا اور جامعہ اسلامیہ محمدیہ اور جامعہ دارالارشاد والاحسان کی مختلف تقریبات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حافظ شاہد الرحمان میر بھی ہمراہ تھے۔ اس دوران مولانا زاہد الراشدی نے متعدد مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے آئی ایم ایف کے معاشی تسلط اور ہمارے قومی و دینی معاملات میں اس کی ناروا مداخلت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ دینی مدارس کے وفاقوں نے دینی تعلیم و مدارس کو درپیش سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے اور تحریک ختم نبوت کی قیادت نے مبارک قادیانی کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ تینوں مسائل قومی و دینی حوالے سے ہمارے اہم ترین مسائل ہیں، ہم سب کو ان کی طرف سنجیدہ توجہ دینا ہو گی مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ سطحی دینی قیادتیں فوری طور پر مل بیٹھ کر معروضی حالات میں ان امور کا جائزہ لیں اور مشترکہ موقف اور لائحہ عمل طے کر کے قوم کی بروقت راہنمائی کا اہتمام کریں تاکہ ہم سب مل کر دینی و قومی اہداف کی طرف مؤثر پیشرفت کر سکیں۔

(منجانب: حافظ محمد دانیال عمر ۔ ۲۵ جولائی ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter