مسلم ممالک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد

   
جولائی ۲۰۱۲ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۵ جون ۲۰۱۲ء کی خبر کے مطابق مصر کی سپریم کورٹ نے مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا حکم دے دیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات غلط قوانین کے تحت ہوئے تھے اور ایک تہائی نمائندے پارلیمنٹ کا رکن بننے کے اہل نہیں تھے۔ جبکہ کویت کی دستوری عدالت نے بھی ایک فیصلے میں، جسے کسی جگہ بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا، کویت کے حالیہ انتخابات کو کالعدم قرار دے کر ماضی کی پارلیمنٹ بحال کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے۔ روزنامہ اسلام لاہور ۲۱ جون ۲۰۱۲ء کی خبر کے مطابق اس فیصلے کے بعد نومنتخب قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے۔ اس سے قبل یہ خبر بھی اخبارات کے ذریعے سامنے آچکی ہے کہ کویت کی نو منتخب پارلیمنٹ نے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے کا بل اکثریت کے ساتھ پاس کر لیا تھا مگر امیر کویت نے اسے مسترد کر دیا ہے۔

مصر اور کویت کے حالیہ انتخابات عرب ممالک میں عوامی بیداری کی ایک بڑی لہر کے بعد انعقاد پذیر ہوئے تھے اور ان میں نفاذِ اسلام کا عزم رکھنے والی جماعتوں نے نمایاں اکثریت حاصل کی تھی لیکن دونوں ملکوں کی اعلیٰ عدالتوں نے ان کے عوامی مینڈیٹ کو مسترد کر دیا ہے اور انہیں کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں بھی اسی قسم کی صورتحال پیش آئی تھی کہ عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں دینی جماعتوں کے اتحاد اسلامک سالویشن فرنٹ نے ۸۰ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے مگر فوج نے مداخلت کر کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ روک دیا تھا اور پہلے مرحلہ کے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

مسلم ممالک کی اسلامی تحریکات اس وقت عجیب مخمصے سے دو چار ہیں، ایک طرف انہیں عوامی حمایت کے باوجود حکمران طبقات کے اس طرز عمل کا سامنا ہے کہ وہ کسی صورت میں نفاذِ اسلام کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس سلسلہ میں اپنے ملکوں کے عوام کے جمہوری فیصلوں کو بھی مسترد کرتے چلے جا رہے ہیں اور دوسری طرف اسلامی تحریکات پر بعض ایسے عناصر کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جو نفاذِ اسلام کے لیے عسکری جدوجہد اور حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت کے علمبردار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نفاذِ اسلام ہمارے دینی فرائض میں سے ہے اور جب حکومت وقت پراَمن سیاسی جدوجہد کے نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو ہتھیار اٹھانے اور مسلح جد و جہد کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا۔ الجزائر میں عوام کے انتخابی فیصلے کو مسترد کیے جانے کے بعد یہی ہوا کہ بعض جماعتوں نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ حتٰی کہ اس فیصلے میں ساتھ نہ دینے والوں کے خلاف بھی عسکری جدوجہد کو ضروری قرار دے دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ باہمی خانہ جنگی کا بازار بھی گرم ہو گیا جو کم و بیش دس سال تک جاری رہی، اس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے لگ بھگ الجزائری شہری قتل ہوگئے اور دینی جماعتوں کی مجموعی قوت سبوتاژ ہو کر رہ گئی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں مغرب نواز حکمرانوں کی حکمت عملی یہی چلی آرہی ہے کہ دینی قوتوں کو کسی نہ کسی طرح اشتعال دلا کر مسلح فوجوں کے سامنے لایا جائے اور قوت کے ذریعے انہیں کچل دیا جائے کیونکہ انہیں راستے سے ہٹانے کا ان حکمرانوں کے پاس یہی راستہ ہے۔ پاکستان میں بھی اس قسم کے رجحانات آگے بڑھ رہے ہیں اور مستقبل میں اسی نوعیت کی صورتحال کے خدشات دکھائی دینے لگے ہیں جس کا الجزائر کی دینی قوتوں کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے جہاں ہم مسلم حکومتوں کے اس طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ نفاذِ اسلام کی راہ میں خود رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور اس کے لیے اپنے عوام کے جمہوری فیصلوں کو بھی مسترد کرتی جا رہی ہیں، وہاں ہم عالم اسلام کی دینی تحریکات سے یہ اپیل کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ الجزائر کی صورتحال سے سبق حاصل کریں اور خود مسلم حکومتوں کے بچھائے ہوئے اس ’’ دام ہمرنگ زمین‘‘ سے ہوشیار رہتے ہوئے تدبر اور حکمت کے ساتھ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اپنی قوت کو بچانے کی طرف توجہ دیں۔ ہمارے خیال میں مسلم ممالک میں نفاذِ اسلام کی جد و جہد کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے اور حکمت و تدبر کے ساتھ دینی جماعتوں کی قوت کو محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ اس دینی جد و جہد کو مسلسل جاری رکھا جا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter