لندن میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے چند نوجوان علماء کرام نے ’’موطا ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک سوسائٹی قائم کر رکھی ہے جو موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں دینی و علمی خدمات سرانجام دینے کا جذبہ رکھتے ہیں اور دعوت و تعلیم کے حوالے سے ایک قابل عمل پروگرام کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ندوۃ العلماء لکھنو سے حضرت مولانا سید سلمان ندوی لندن تشریف لائے تو موطا ٹرسٹ کی فرمائش پر انہوں نے نوجوان علماء کرام کی ایک جماعت کو آج کے تقاضوں اور دینی دعوت و تعلیم سے تعلق رکھنے والے چند اہم عنوانات پر مسلسل پانچ روز تک لیکچر دیے۔ میری لندن حاضری کے موقع پر انہوں نے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی وساطت سے مجھ سے بھی فرمائش کی کہ اس سلسلے میں کچھ گزارشات ان کی خدمت میں پیش کروں، چنانچہ ۲۳ سے ۲۶ اکتوبر تک مسلسل چار روز عشاء کے بعد مجھے ان سے گفتگو کا موقع ملا ۔ گفتگو میں شریک بعض دوستوں کی خواہش تھی کہ ان معروضات کو قلم بند کر کے تحریری صورت میں سامنے لایا جائے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ یہ ابتدائی موقع تھا اس لیے گفتگو اس انداز سے مرتب طور پر نہیں کی گئی کہ اسے مقالہ کی صورت میں تحریر کیا جا سکے۔ پھر کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ البتہ اس دوران پیش کی جانے والی چند اہم گزارشات کا خلاصہ قارئین کے سامنے رکھا جا رہا ہے:
آج کے دور میں دینی کام کے لیے سب سے پہلے آج کی دنیا کے مجموعی تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، اقوام عالم میں ہماری حیثیت کیا ہے اور ہمارے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اس لیے علماء کرام اور بالخصوص نوجوان علماء کرام کو چاہیے کہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر رہیں، معاصر اقوام و مذاہب سے واقفیت حاصل کریں اور اس عالمی تہذیبی کشمکش کا شعور حاصل کریں جو اس وقت اسلام اور مغرب کے درمیان تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے بغیر کوئی نوجوان عالم دین دینی و علمی خدمات سرانجام دینا چاہتا ہے تو وہ اپنے مخصوص اور محدود ماحول کے دائرے میں تھوڑا بہت کام ضرور کر لے گا لیکن اسلام کی دعوت اور ملت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے کچھ نہیں کر پائے گا۔
اسلام اور مغرب کی کشمکش کے پس منظر میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ مغرب کا موقف کیا ہے اور اس موقف کا پس منظر کیا ہے؟ ہم مغرب کے موقف کو اصولی طور پر دو حوالوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ایک تو یہ تاریخی پس منظر ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ مغرب نے قرون وسطیٰ یا قرون مظلمہ میں مذہب کے جس کردار کا مشاہدہ کیا ہے بلکہ مذہب کے جس کردار کو بھگتا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے مغرب کی مذہب دشمنی کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ مغرب نے صدیوں تک اس صورتحال میں وقت گزارا ہے کہ عام آبادی بادشاہت اور جاگیردارانہ نظام کے مظالم کی چکی میں پستی رہی ہے۔ عام آدمی اس دور میں غلام سے بد تر حیثیت اختیار کر چکا تھا اور انسانوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ مذہب نے اس دوران عام آدمی کا ساتھ دینے کے بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا اور اپنا پورا وزن مظلوم کے بجائے ظالم کے پلڑے میں ڈال دیا حتیٰ کہ بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف عوامی بغاوت کے موقع پر بھی مذہب کا پرچم تھامے ہوئے اس دور کے اہل مذہب نے غریب عوام کے بجائے بادشاہت اور جاگیرداری کی حمایت و تعاون کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں شدید رد عمل کی طوفانی لہروں نے بادشاہت اور جاگیرداری کے ساتھ مذہب کا بیڑا بھی گہرے سمندر میں غرق کر دیا۔
اس لیے آج جب مغرب والوں کے سامنے مذہب کا نام آتا ہے تو ان کی نظروں کے سامنے قرون وسطیٰ کا منظر گھوم جاتا ہے اور ان کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ مذہب اور اہل مذہب کا اس کے سوا بھی کوئی کردار ہو سکتا ہے لہٰذا ہمیں مغرب کے سامنے مذہب کی بات کرتے ہوئے مذہب سے اس کی شدید نفرت کے اس بڑے سبب کا لحاظ کرنا ہوگا اور دلیل، منطق اور کردار کے ساتھ واضح کرنا ہوگا کہ اسلام اور قرون وسطیٰ کی مسیحیت کے معاشرتی کردار میں کیا فرق ہے اور عام اہل مغرب کو باور کرانا ہوگا کہ اسلام بادشاہت کا نہیں بلکہ عوام کا ساتھی ہے اور جاگیردار کا نہیں بلکہ مظلوم کا حمایتی ہے۔
مذہب سے اہل مغرب کی شدید نفرت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مذہب نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اہل مغرب کی پیش رفت اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کی مخالفت کی ہے۔ مذہب نے کائنات کے مطالعہ اور زمین و آسمان کے نظام کی سائنسی تعبیرات کو کفر و الحاد قرار دے کر سائنس دانوں پر فتوے عائد کیے ہیں اور مذہبی عدالتوں نے انہیں خوف ناک سزائیں دی ہیں۔ یہ ایک مستقل باب ہے جس کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس سے بھی مذہب کے ساتھ اہل مغرب کی نفرت کی شدت اور نوعیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ آج کی عالمی کشمکش کے تناظر میں ایک اور بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مغرب کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارہ تشکیل پایا تھا اور اس نے ممالک اقوام کے نظام کو چلانے کے لیے انسانی حقوق کے چارٹر کے نام سے راہنما اصول وضع کیے تھے جس پر دنیا بھر کے تمام ممالک کے نمائندوں نے دستخط کر کے اس چارٹر کو اپنی حکومتوں اور نظاموں کے لیے راہنما اصول کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اس چارٹر کی دفعات کی تشریح و تعبیر کا بھی ایک نظام ہے جس میں تمام ممالک شریک ہیں اور اقوام متحدہ کے مختلف ادارے بوقت ضرورت اس چارٹر کی دفعات کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے جن ممالک نے اس چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور جو ممالک اقوام متحدہ کے نظام میں باقاعدہ شریک ہیں، انہیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے اور اپنی شرکت اور دستخطوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے قانونی نظاموں اور حکومتی ڈھانچوں کو اقوام متحدہ کے منشور اور قراردادوں کے دائرے میں لانا چاہیے۔
ہم مسلمانوں کی اس سلسلے میں دو بڑی الجھنیں ہیں۔ ایک یہ کہ اقوام متحدہ کے منشور کو من و عن قبول کرنے کی صورت میں ہمیں قرآن و سنت کے بہت سے صریح احکام سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت کے علاوہ حدود و تعزیرات کے باب میں بھی قرآن کریم اور سنت نبوی کے متعدد صریح قوانین و احکام پر عمل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا۔ اور دوسری الجھن یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے نظام پر مغرب کی اجارہ داری ہے اور خود اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قراردادوں پر عمل درآمد میں بھی مغرب کی ترجیحات کا غلبہ رہتا ہے لیکن ان دو الجھنوں اور رکاوٹوں کے باوجود مغرب کے اس موقف کو اصولی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جن ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور جن ممالک کے نمائندے اقوام متحدہ کے نظام میں شریک ہیں، ان کو اقوام متحدہ کے منشور اور فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے۔
اس کے علاوہ آج کے نوجوان علماء کرام کے لیے اس بات کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے مختلف اداروں کے فیصلوں اور قراردادوں کا اسلامی احکام و قوانین کے ساتھ کہاں کہاں ٹکراؤ ہے اور اقوام متحدہ یا دوسرے لفظوں میں آج کے بین الاقوامی قوانین کا کون سا حصہ اور کون سا قانون قرآن و سنت کے کون سے قانون اور ضابطے سے متصادم ہے؟ اس کا ادراک حاصل کیے بغیر ہم آج کی عالمی تہذیبی کشمکش اور مسلمانوں کے ساتھ اہل مغرب کی کشیدگی کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔
اس کشمکش سے ہٹ کر مثبت انداز میں اہل مغرب کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کرنے اور مغربی ماحول میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی ہمیں اپنے روایتی طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ کسی بھی شخص، گروہ یا سوسائٹی کے سامنے اسلام کی دعوت رکھنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ بات اس کی زبان میں ہو اور صرف زبان کافی نہیں بلکہ اسلوب اور انداز بھی اس سوسائٹی کے لیے متعارف ہو ورنہ صرف اچھی انگریزی بول کر اپنے روایتی مشرقی اسلوب میں اسلام کی دعوت و تعلیم کا فریضہ مغرب میں سرانجام دینے کا نتیجہ بھی مختلف نہیں ہوگا جبکہ زبان و اسلوب کے ساتھ تیسرے نمبر پر اس قوم اور سوسائٹی کی نفسیات اور ذہنی سطح کا ادراک حاصل کرنا بھی دعوت و تعلیم کا ناگزیر تقاضا ہے۔
میں عام طور پر اس سلسلے میں ایک روایت پیش کیا کرتا ہوں جو سیرت نبوی کی بیشتر کتابوں میں موجود ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کے پاس ایک بار قریش کے چند سردار آئے اور پوچھا کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے سامنے ایک کلمہ پیش کر رہا ہوں جسے اگر تم قبول کر لو تو عرب پر تمہاری بادشاہت قائم ہو جائے گی اور عجم بھی تمہارے تابع ہوگا۔ رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد گرامی ان سرداروں کی نفسیات کے پس منظر میں تھا کہ یہ سردار لوگ ہیں اور چودھراہٹ ہی کی زبان سمجھتے ہیں اس لیے آپؐ نے ایمان اور کلمہ طیبہ کے بے شمار فوائد میں سے پہلے مرحلہ میں وہی فائدہ ان کے سامنے رکھا جو فوری طور پر ان کی سمجھ میں آ سکتا تھا۔ ہمیں اس سنت نبوی سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور لوگوں کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق ان کے سامنے اسلام کی دعوت و تعلیم کو رکھنا چاہیے۔
علماء کرام بالخصوص نوجوان علماء کو تاریخ کے مطالعہ کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ عالمی تاریخ، مختلف اقوام و ممالک کی تاریخ اور بالخصوص عالم اسلام کی تاریخ کے اہم مراحل سے ان کا واقف ہونا ضروری ہے۔ پھر ان تحریکات سے بھی انہیں باخبر ہونا چاہیے جو مختلف ادوار میں اہل حق اور علماء دین نے ملت کی آزادی اور دین کے تحفظ کے لیے بپا کی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ہمارے اکابر حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے خانوادہ کی خدمات، علماء دیوبند کی جدوجہد اور برطانوی استعمار سے آزادی کی تحریکات سے آگاہی کے بغیر تو ہم اپنے مشن اور اہداف کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہمارے بزرگوں نے حالات اور موقع محل کی مناسبت سے جدوجہد کے مختلف طریقے اپنائے ہیں:
- حضرت مجدد الف ثانی نے اکبر بادشاہ کے ریاستی الحاد اور خود ساختہ دین الٰہی کے خلاف جدوجہد میں ارباب اختیار کی ذہن سازی، بریفنگ اور لابنگ کا طریقہ آزمایا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔
- حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دہلی کی طرف جنوبی ہندوستان کے جنونی مرہٹوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنے کے لیے مقامی مزاحمتی قوتوں کو کمزور سمجھتے ہوئے افغانستان کے فرمانروا احمد شاہ ابدالیؒ سے مدد مانگی اور اسے حملہ کی دعوت دی۔ ان کی یہ تکنیک بھی کامیاب رہی۔
- برطانوی استعمار کے خلاف شہدائے بالاکوٹ اور ۱۸۵۷ء کے حریت پسند علماء اور ان سے قبل سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطانؒ نے عسکری مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جس میں اگرچہ وقتی طور پر ناکامی ہوئی لیکن اس سے مستقبل میں حریت پسندوں کو راہنمائی اور حوصلہ ملا اور انہی کا مقدس خون تحریک آزادی کے لیے سنگ میل ثابت ہوا۔
- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے آزادی کی جدوجہد کے لیے عالمی سطح پر انگریز مخالف قوتوں سے رابطے قائم کیے اور جرمنی، جاپان اور خلافت عثمانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے تحریک آزادی کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کی مگر خلافت عثمانیہ کے خلاف شریف مکہ کی بغاوت کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہو گئی البتہ حریت پسندوں کو جدوجہد کا ایک نیا راستہ اور اسلوب ملا۔
- کانگریس، جمعیۃ علماء ہند، مجلس احرار اسلام اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلمانوں نے آزادی کے لیے دستوری اور سیاسی جدوجہد کا طریق کار اختیار کیا۔ ان میں جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دینی جماعتیں تھیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت مسلکی حوالے سے خالص دیوبندی قیادت تھی جبکہ مجلس احرار اسلام میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل قیادت نے ٹیم ورک کی صورت میں مشترکہ دینی قیادت کا عملی نمونہ پیش کیا۔
یہ سب اہداف نہیں بلکہ طریقہ ہائے کار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی حتمی اور قطعی نہیں تھا بلکہ یہ بات حالات پر منحصر تھی کہ کس وقت کون سا طریق کار دینی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ نوجوان علماء کو اس بات سے بھی باخبر ہونا چاہیے کہ جب یونان، ایران اور ہندوستان کے فلسفوں نے مسلمانوں کے عقائد و اعمال میں دراندازی شروع کی، ان کے اثرات ہمارے ہاں پھیلنے لگے اور ان فلسفوں نے ہمارے عقائد کو متاثر کرنا چاہا تو اس وقت کے باشعور علماء اسلام نے ان فلسفوں سے آگاہی حاصل کی، ان پر عبور حاصل کیا اور ان فلسفوں کی زبان اور اصطلاحات استعمال کر کے انہی کے دلائل سے اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جبکہ آج دنیا پر مغرب کے سیکولر فلسفے کی حکمرانی ہے جس کی بنیاد مذہب سے لا تعلقی پر ہے، جس کی زبان انسانی حقوق کی زبان ہے اور جس کی نفسیات میں آزادی اور اباحت مطلقہ رچ بس گئی ہے۔ آج کی اصطلاحات الگ ہیں، اسلوب مختلف ہے اور دلیل و منطق کے ہتھیار جداگانہ ہیں۔ ہمیں اس فلسفہ سے، اس کی اصطلاحات سے، اس کے اسلوب سے اور اس کے دلائل سے اسی طرح مکمل واقفیت حاصل کرنا ہوگی جس طرح امام ابو الحسن اشعریؒ، امام ابو منصور ماتریدیؒ، امام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، امام ابن رشدؒ اور دوسرے اہل علم نے یونانی، ایرانی اور ہندی فلسفوں پر عبور حاصل کر کے انہی کی زبان اور دلائل سے ان کا رد کیا تھا۔
یہ آج کے دور کی چند اہم ضروریات اور چند ناگزیر تقاضے ہیں جن کی طرف مناسب توجہ نہ دینے کا ہمیں نقصان ہو رہا ہے اور ہم علمی، فکری اور تہذیبی محاذ پر کھلا میدان سامنے ہونے کے باوجود پیش رفت نہیں کر پا رہے۔ ان کی طرف دینی مدارس کو توجہ دینی چاہیے، دینی مدارس کا نصاب و نظام تشکیل دینے والوں کو متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ اصل ذمہ داری ان کی ہے لیکن اگر ان سے ہٹ کر بھی کچھ علمی ادارے اور فکری سوسائٹیاں ان ضروریات کو محسوس کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کی کوشش شروع کر دیں تو کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور ہوگی اور شاید انہی کی کوششوں سے جمود کی اس دیوار میں کوئی روشن دان نمودار ہو جائے۔