خلافت کے معیارات

   
خلافتِ اسلامیہ — الشریعہ اکادمی کے محاضرات
۲۰۱۷ء

خلافت کا تاریخی تناظر کہ کیسے خلافت کا آغاز ہوا، خلافت کن کن ادوار سے گزری، اور خلافت کے مختلف معیارات جو تاریخ میں تقریبا بارہ تیرہ سو سال چلتے رہے، وہ کیا تھے؟ اس حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ خلافت کے ادوار جو تاریخی اعتبار سے کہلاتے ہیں، ان میں خلافتِ راشدہ، خلافتِ امویہ، خلافتِ عباسیہ اور خلافتِ عثمانیہ کے ادوار ہیں۔

اہلِ سنت والجماعت کے ہاں خلافتِ راشدہ کا دور اصطلاحاً تیس سال کا دور کہلاتا ہے جس میں حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا دورِ حکومت اور حضرت حسنؓ کے چھ مہینے ہیں۔ دوسرا دور خلافتِ بنو امیہ کا ہے جس کا آغاز حضرت معاویہؓ سے ہوا، اور ان کے بعد خلافت بنو عباس کے آغاز تک یہ سلسلہ چلتا رہا، یہ خلافت تقریباً نوے سال چلی ہے۔

ایک بڑا نازک مسئلہ جس پر ہمارے متکلمین نے بھی بحث کی ہے وہ یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ اور باقی خلافتوں میں کیا فرق ہے؟ اس فرق کو جاننے سے پہلے آپ ایک اور فرق دیکھیں کہ ہمارے ہاں اسلامی حکومتیں تین درجوں کی رہی ہیں۔ ایک کو مثالی طرزِ خلافت کہا جا سکتا ہے۔ دوسری معیاری اسلامی حکومت و خلافت ہے۔ اور تیسری جواز کے درجے کی اسلامی حکومت ہے۔ ہمارے ہاں تیرہ سو سال تقریباً یہ تینوں درجے قائم رہے ہیں، بلکہ زیادہ تر تیسرا درجہ رہا ہے یعنی ایک قابلِ قبول اسلامی ریاست یعنی ایسی اسلامی حکومت جس کے خلاف فقہاء نے خروج کو جائز نہیں کہا۔

آئیڈیل اور مثالی دور تو خلافتِ راشدہ کا ہے۔ راشدہ کی اصطلاح کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ باقی خلافتیں غیر راشدہ ہیں، یہ ہمارے ہاں عام طور پر مغالطہ پایا جاتا ہے۔ خلفائے راشدین کی خلافت کو خلافت راشدہ قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے بعد جو حضرت معاویہؓ کی بیس سال حکومت رہی تو ان کی خلافت غیر راشدہ ہے، وہ بھی راشدہ خلافت ہے یعنی رشد و ہدایت کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ لیکن درجہ بندی میں خلافتِ راشدہ ایک اصطلاح ہے، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور باقی متکلمین نے اس پر بحث کی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ خلافتِ راشدہ اور خلافتِ اسلامیہ یا خلافتِ عامہ میں صرف ایک درجے کا فرق ہے کہ وہ ایک درجہ بہتر ہے اور یہ ایک درجہ کم ہے۔

خلافتِ راشدہ انتہائی مثالی درجہ کی خلافت ہے جو ہمارے ہاں آئیڈیل درجہ ہے جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ‘‘ کہ خلافت میرے بعد تیس سال رہے گی۔ لیکن اس کے بعد حضرت معاویہؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی خلافت بھی معیاری خلافت ہے، اصطلاحاً نہ سہی لیکن لغۃً‌ وہ بھی خلافتِ راشدہ ہے ۔ خلافتِ مطلقہ اور خلافتِ عامہ میں بنو امیہ کا پورا دور گزرا، ایک آدھ کو چھوڑ کراس کا درجہ حضرت معاویہؓ کی حد تک معیاری اور اس کے بعد قابلِ قبول اسلامی ریاست کا ہے جسے ضرورتاً تسلیم کیا گیا۔ بنو امیہ کے بعد بہت سی حکومتیں اس درجہ میں شامل ہیں۔

اگر اسے ایک اور حوالے سے تقسیم کریں تو میں اپنے ذوق کے مطابق کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرات صحابہ کرامؓ کو معیارِ حق قرار دیا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دین کے تمام معاملات میں صحابہ کرامؓ ہی کو معیار فرمایا ہے۔ دین اور احکام کے دو درجے ہوتے ہیں:

ایک عزیمت کا درجہ ہوتا ہے اور ایک رخصت کا درجہ ہوتا ہے۔ میں عام طور پر یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ عزیمت اور رخصت کے دونوں دور اللہ رب العزت نے ہمیں عملی طور پر صحابہ کرامؓ کے دور میں دکھائے ہیں۔ خلافتِ راشدہ عزیمت کی بنیاد پر ہے اور خلافتِ امیہ کا پہلا دور حضرت معاویہؓ کا دور کچھ رخصتوں کا دور ہے۔ اللہ رب العزت نے عزیمت اور رخصت کے دونوں دائرے تکوینی طور پر صحابہ کرامؓ کے دور میں ہمارے سامنے رکھے ہیں کہ عزیمت پر چلنا ہو تو وہ مثال ہے اور رخصتوں سے فائدہ اٹھانا ہو تو یہ مثال ہے۔ تاہم دونوں حق ہیں اور دونوں ہمارے لیے معیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

خلافتِ بنو امیہ کا آغاز حضرت معاویہؓ سے ہوا۔ حضرات صحابہ کرام میں حضرت معاویہؓ کی سب سے لمبی حکومت رہی ہے۔ آپ کے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیانؓ فاتحینِ شام میں سے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت یزید بن سفیانؓ کو شام کا گورنر بنایا تھا، ان کا انتقال ہو گیا تو ان کی جگہ ان کے چھوٹے بھائی حضرت معاویہؓ کو شام کا گورنر بنا دیا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں حضرت معاویہؓ تقریباً‌ بیس سال شام کے گورنر رہے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابو عبیدہ عمرو بن الجراحؓ اور حضرت یزید بن ابی سفیانؓ ان تین جرنیلوں نے مختلف اطراف سے شام پر حملہ کر کے شام کو فتح کیا تھا تو حضرت عمرؓ نے ان میں سے حضرت یزید بن ابی سفیانؓ کو شام کا گورنر مقرر فرما دیا تھا۔ اس پر ایک دلچسپ لطیفہ بھی ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ فاتحین شام میں سے ہیں۔ تاریخ ابن عساکر میں درج ہے کہ حضرت خالدؓ حمص میں آباد ہو گئے تھے، باقی عمر انہوں نے وہیں گزاری، وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ایک دن ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، ہلکے سے شکوے کے انداز میں کہنے لگے کہ ہم نے لڑ لڑ کر شام فتح کیا، جب شام کی گندم اور شہد مدینہ پہنچنا شروع ہو گیا تو امیر المومنین نے وہاں گورنر کسی اور کو بنا دیا اور مجھے کہتے ہیں کہ غزوۂ ہند کی تیاری کرو۔ مجلس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ساتھی نے عرض کیا کہ آپ انکار کر دیں کہ میں نہیں جاتا ،میرا خاصا وقت گزر گیا ہے، اب میں نہیں جا سکتا۔ تو مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک اور آدمی نے کہا کہ اس سے تو فتنہ کھڑا ہو گا کہ حضرت عمرؓ ان کو حکم دیں کہ جاؤ جہاد ہند کے لیے، اور آپ کہیں کہ میں نہیں جاتا۔ اس پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے بڑے مزے سے ایک جملہ فرمایا ’’اما فی عھد عمر فلا‘‘ کہ پریشان نہ ہو، حضرت عمرؓ کے زمانے میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہو گا، یعنی ان کے ہوتے ہوئے کسی فتنے کا ڈر نہیں ہے۔

مجموعی طور پر حضرت معاویہؓ کا پینتالیس سالہ دورِ حکومت ہے۔ بیس سالہ گورنری کا دور ہے، پھر جب حضرت حسنؓ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے خلافت ان کے حوالے کی اور انہیں امیر المومنین تسلیم کیا تو اس کے بعد ساڑھے انیس یا بیس سال آپؓ کی خلافت کا دور ہے جس میں آپ نے بحیثیت امیر المومنین دنیا پر حکومت کی ہے۔

جبکہ درمیان کے ساڑھے چار پانچ سال جب وہ حضرت علیؓ کے متوازی امیر رہے ، یہ متنازعہ دور ہے۔ پہلا بیس سالہ گورنری کا دور بھی متفق علیہ ہے اور بعد کا بیس سالہ دور خلافت بھی متفق علیہ ہے۔ درمیان میں ساڑھے چار سال کا دور جس میں ایک طرف کوفے میں حضرت علیؓ امیر تھے اور شام میں حضرت معاویہؓ امیر المومنین کی حیثیت سے متوازی امیر تھے، یہ متنازعہ دور ہے، جس کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے ائمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ صواب پر تھے اور حضرت معاویہؓ خطا پر تھے۔ لیکن چونکہ آپؓ مجتہد تھے اس لیے مجتہد کی خطا بھی اس کو اجر و ثواب سے محروم نہیں کرتی۔ اس ساڑھے چار سال کے دور میں جمہور اہلِ سنت بلکہ سارے ہی اہلِ سنت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین تسلیم کرتے ہیں۔

خلافت بنو امیہ کا آغاز حضرت معاویہؓ سے ہوا اور تقریباً‌ نوے سال ان کے خاندان نے حکومت کی۔ سیاسی طور پر تبدیلی یہ آئی کہ خلافتِ راشدہ میں جانشینی خاندانی نہیں تھی ۔ خلافتِ راشدہ میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ ایک دوسرے کے نسبی وارث نہیں تھے، لیکن حضرت معاویہؓ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کیا، اس کی سیاسی مصالح جو بھی ہوں، لیکن یہ پہلی روایت سے مختلف روایت تھی۔ جس پر سب سے پہلا اعتراض حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کیا۔ بہت سے صحابہ کرامؓ کو اس فیصلے سے اختلاف تھا، لیکن جب وہ امیر المومنین تسلیم ہو گئے اور اس کے بعد ان کا حکم نافذ ہوا تو وہ دوسری حیثیت ہے۔ لیکن خلافت کو خاندان میں محصور کر دینے پر حضرت معاویہؓ پر اعتراض ہوا تھا اور بہت سے صحابہ کرامؓ کے اس پر تحفظات تھے۔

بنو عباس آئے تو بنو امیہ کے خلاف کشمکش چلتی رہی۔ حضرت حسنؓ کی اولاد اور حضرت حسینؓ کی اولاد ان کے بیٹے ابراہیم نفس ذکیہ، امام زید بن علی اور دیگر حضرات رحمہم اللہ تعالیٰ بنو امیہ کے خلاف مختلف محاذوں پر سرگرم رہے۔ بالآخر بنو عباس میں سے عبداللہ سفاح کی بغاوت کامیاب رہی اور انہوں نے بنو امیہ کی خلافت ختم کر کے بنو عباس کی خلافت قائم کی۔ بنو عباس میں بھی خاندانی بنیاد پر خلافت چلتی رہی۔ ان میں ہارون الرشید اور اور دوسرے اچھے اچھے خلیفہ بھی آئے ۔ جبکہ مامون الرشید معتزلی ہو گیا تھا۔

بنو عباس کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے آنے سے ایک اور فرق قائم ہوا کہ بادشاہوں اور شاہی خاندان کے رہن سہن کا انداز تبدیل ہو گیا۔ خلفائے راشدین کا طرزِ معاشرت اور تھا ۔ بنو امیہ، بنو عباس اور بنو عثمان کے خلفاء کا طرز معاشرت اور تھا۔

خلفائے راشدین کا معیار سوائے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے اور کسی کا نہیں تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے پرانا طرز معاشرت اور طرزِ معیشت اختیار کرنے کی کوشش کی اور اصلاحات نافذ کیں، جنہیں آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ ان اصلاحات کی بنیاد پر آپ کو عمرِ ثانی کہا جاتا ہے، ان کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کا تتمہ کہا جاتا ہے، اور ان کو تیرہ سو سال سے مسلسل خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سہولتیں، زندگی کا آرام اور تعیش ترک کر دیا اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت اور طرزِ خلافت پر واپس چلے گئے، اس لیے ان کو اس حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنے دور خلافت میں جو اصلاحات نافذ کیں، ان میں سے دو تین ذکر کرنا چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ وہ تبدیلی کیا تھی۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو سلیمان بن عبد الملکؒ نے اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ان کے بھتیجے تھے۔ سلیمان اموی خلیفہ تھے، ان کے والد محترم عبد الملک امیر المومنین تھے، ان کے والد محترم حضرت مروانؓ امیر المومنین تھے۔

سلیمان بن عبد الملکؒ کی وفات اور تدفین کے بعد دمشق کی جامع مسجد میں اعلان ہوا کہ انہوں نے عمر بن عبد العزیزؒ کو اپنا جانشین نامزد کیا ہے اور اب وہ امیر المومنین ہیں، اور لوگوں کو جمع کر کے کہا گیا کہ وہ ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں یہ خلافت تمہیں واپس کرتا ہوں، اس لیے کہ یہ نامزدگی کی خلافت ہے اور ہمارے ہاں اسلامی اصول نامزدگی نہیں بلکہ مشورہ ہے، چونکہ اس میں عوام کی مشاورت شامل نہیں ہے، اس لیے میں خلافت واپس کرتا ہوں اور تمہیں اختیار دیتا ہوں کہ اپنی مرضی سے جس کو چاہو امیر المومنین منتخب کر لو۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دمشق کی جامع مسجد میں اس اجتماع کے سامنے جو ان کے ہاتھ پر بیعت کے لیے جمع ہوا تھا، یہ اعلان فرمایا کہ تمہاری مرضی ہے جس کو چاہو امیر المومنین منتخب کر لو، میں بھی اسی کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ اس اجتماع میں اصحابِ شورٰی بھی تھے، عوام بھی تھے، سب لوگ جو وہاں موجود تھے، انہوں نے بیک آواز کہا کہ اگر ہم نے فیصلہ کرنا ہے تو ہمارا فیصلہ بھی یہ ہے کہ ہمارے امیر المومنین آپ ہیں اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔

میں نے ایک تبدیلی ذکر کی ہے کہ بعد کی خلافتوں میں خلافتِ راشدہ سے یہ تبدیلی آئی، جس کی نشاندہی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اعلان کر کے کی۔

اس کے بعد دوسری اصلاح جو انہوں نے کی، جس کی بنیاد پر انہیں عمر ثانی کہا جاتا ہے، وہ ذکر کرتا ہوں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مدینہ منورہ کے گورنر رہے ہیں۔ ان کے والد محترم عبد العزیز بن مروان بڑے جرنیلوں میں سے اور بڑی شخصیات میں سے تھے۔ آپؒ بھی مدینہ منورہ کے گورنر رہے ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے تعیش کا وہ زمانہ گزارا ہے کہ جب مدینہ سے دمشق آتے تو ان کا ذاتی سامان سو اونٹوں پر لدا ہوتا تھا، اور ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ ایک لباس جو پہنتے تھے پھر نہیں پہنتے تھے۔ صبح کو ان کا لباس اور ہوتا تھا اور شام کو اور ہوتا تھا اور سواریاں ان کی منتخب ہوتی تھیں۔ ان کو بطور مثال کے ذکر کیا جاتا تھا کہ فلاں آدمی تعیش اور عیش و عشرت میں عمر بن عبد العزیزؒ جیسا ہے۔ ان کی گورنری کے زمانے میں بڑی پر تعیش ، بڑی سہولتوں والی اور آرام دہ زندگی تھی جیسے شہزادوں کی ہوتی ہے۔ جب تاریخ پڑھیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ کتنی سہولت اور تعیش کی زندگی تھی۔ لیکن جب آپؒ امیر المومنین بنے تو اس کے بعد انہوں نے سب سے پہلا کام کیا کیا؟

درمیان میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ایک دوست حیوہ بن شریحؒ تھے جو بڑے محدثین میں سے ہیں۔ انہوں نے ایک دن حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو اپنا ایک خواب سنایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور حضرات شیخین حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تشریف فرما ہیں اور آپ بھی سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جناب نبی کریمؐ حضرات شیخین کی طرف اشارہ کر کے آپ کو خطاب کر تے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے عمر! اگر تمہیں حکومت ملے تو ان جیسی حکومت کرنا۔

یہ خواب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ذہن میں تھا، تو خلیفہ بننے کے بعد انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ جب باہر نکلے تو عمدہ گھوڑوں کا ایک دستہ ان کی سواری کے لیے حاضر تھا۔ آپ نے سارا دستہ واپس کر دیا ۔ ان کی ایک ذاتی خچر تھی، فرمایا میری سواری کے لیے یہ کافی ہے۔ یہ سب گھوڑے واپس کر دو، مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ خلیفہ بننے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ گھوڑے واپس کر دیے۔

اس کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی اصلاحات میں یہ بات ہے کہ آپ نے باغِ فدک بیت المال کو واپس کیا۔ امام سیوطیؒ نے ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں لکھا ہے کہ بیت المال کے اسی فیصد اثاثے شاہی خاندان کے لوگوں کے قبضے میں تھے۔ باغِ فدک جو ہمارے ہاں بڑا معرکۃ الآرا مسئلہ کا عنوان ہے، اور ہمارے اور اہلِ تشیع کے درمیان مناظرے کا بہت بڑا موضوع ہے۔ شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ باغ حضرت فاطمہؓ کو ملنا چاہیے تھا لیکن حضرت ابوبکر ؓنے انکار کیا تھا، پھر حضرت عمرؓ نے بھی انکار کر دیا تھا۔ اہلِ تشیع کا موقف یہ ہے کہ یہ باغ حضور نبی کریمؐ کی وراثت تھی اور نعوذ باللہ ان خلفاء نے وراثت غصب کر لی اور حضرت فاطمہؓ کو وراثت نہیں دی۔ جبکہ اہلِ سنت کا موقف یہ ہے جس کی وضاحت پوری تفصیل کے ساتھ حضرت عمرؓ بن خطاب نے کی جو کہ بخاری شریف کی روایت میں موجود ہے کہ حضور نبی کریمؐ کی وراثت تقسیم نہیں ہوئی، آپؐ کی ملکیت میں جتنا مال تھا وہ وقف تھا، بیت المال کا تھا۔ اس باغ سے اہلِ بیت اور خاندانِ نبوت کے اخراجات پورے ہوتے تھے، لیکن وہ ان کی ملکیت نہیں تھا۔ اس بنیاد پر فدک کا باغ بیت المال کی مِلک میں رہا، نہ وہ حضرت علیؓ کو ملا اور نہ حضرت فاطمہؓ اور ان کی اولاد کو ملا۔ حتیٰ کہ جب حضرت علیؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے بھی باغِ فدک بیت المال ہی کی مِلک میں رکھا اور اس کی ملکیت منتقل نہیں کی۔

لیکن بعد میں جب بنو امیہ کی حکومت آئی تو وہ باغِ فدک بھی لوگوں کے تصرف میں آ گیا۔ جب بیت المال کے اثاثے لوگوں کے تصرف میں گئے تو فدک کا باغ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو مل گیا۔ گورنری کے پورے زمانے میں ان کی مِلک اور تصرف میں رہا۔ خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے یہ اعلان کیا کہ میں پہلا حکم یہ جاری کر رہا ہوں کہ فدک کا باغ جو میری مِلک میں ہے، جو مجھے دیا گیا ہے وہ میرا نہیں ہے بلکہ بیت المال کا ہے۔ اور یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ جس فدک کے باغ پر سیدہ فاطمہؓ کا حق تسلیم نہیں کیا گیا، وہ میرا کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا میں وہ واپس کر رہا ہوں۔ چنانچہ آپؒ نے باغِ فدک بیت المال کے منتظم کے حوالے کر دیا کہ آج کے بعد اس باغ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے پہلے گھوڑے واپس کیے، باغ فدک واپس کیا، پھر گھر کا بہت سا سامان بھی بیت المال میں واپس کیا۔

یہ بڑی دلچسپ داستان ہے۔ میں علماء کرام سے، بالخصوص جو علماء اور کارکن نظام ِاسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں کسی بھی درجے میں شریک ہیں، ان سے کہا کرتا ہوں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی زندگی، ان کے طرزِ حکومت اور ان کی اصلاحات کا بڑی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں، اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ کہاں کہاں خرابیاں ہیں؟ ہم نے کہاں کس کس بات کی اصلاح کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے؟ اس موضوع پر ویسے تو ماضی میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، بڑی تفصیلات حدیث اور تاریخ میں محفوظ ہیں، لیکن اگر اس پر تازہ ترین کتاب دیکھنا چاہیں تو حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی اردو میں مختصر ترین جامع کتاب ہے اس کا ضرور مطالعہ کریں۔ جس عالم یا رہنما یا کارکن کا نفاذِ اسلام کی جدوجہد سے تعلق ہے اس کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی زندگی، ان کے طرزِ حکومت اور ان کی اصلاحات کا مطالعہ کرنا میرے نزدیک فرضِ عین کا درجہ رکھتا ہے، اس کے بغیر وہ نہیں سمجھ پائے گا کہ اسلام کا نظام کیا ہے ، کہاں کہاں خرابیاں ہیں اور وہ خرابیاں کیسے دور ہو سکتی ہیں۔ خلافتِ راشدہ اور خلافتِ اصلیہ کا مزاج اس کے بغیر سمجھ نہیں آئے گا۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبد الملک تھیں، جن کے باپ امیر المومنین تھے، بھائی بھی امیر المومنین بنے، دوسرے بھائی بھی امیر المومنین بنے۔ ان کے بھائی مسلمہ بن عبد الملک افواج کے سپریم کمانڈر تھے۔ یہ بادشاہوں کی بہن، بادشاہ کی بیٹی اور امیر المومنین کی اہلیہ ہیں، یعنی اتنے ناز نخروں میں پلی ہوئی شہزادی اور ملکہ تھیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خلافت سنبھالنے کے بعد جب گھر تشریف لائے تو ان سے کہا کہ فاطمہ! دیکھو مجھے خلیفہ بنا دیا گیا ہے، اب مسلمانوں کی ذمہ داری مجھ پر ہے، میں اس کا مسئول ہوں، تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے پاس جو بھی مال و دولت ہے یہ چونکہ ہمارا ذاتی نہیں تھا ہمیں بیت المال سے دیا گیا تھا، ہمارے پیشرو لوگوں نے کسی کو کچھ دے دیا کسی کو کچھ دے دیا، اس لیے میں فدک واپس کر کے آیا ہوں۔ تمہارے پاس جواہرات، زیور اور سونا چاندی جو کچھ ہے اور تم جانتی ہو کہ یہ تمہارا نہیں ہے، تمہارے باپ نے بیت المال سے تمہیں دیا تھا، لہٰذا یہ جائز نہیں ہے۔ اس لیے میں یہ تو نہیں کہتا کہ واپس کر دو لیکن یہ کہتا ہوں کہ اس گھر میں یا یہ رہیں گے یا میں رہوں گا۔ اگر میرے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو یہ چیزیں واپس کرنی ہوں گی، اور اگر یہ چیزیں رکھنی ہیں تو رکھو میرا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اہلیہ کو اختیار دیا کہ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر لو۔ وہ اچھا زمانہ تھا۔ میں کہا کرتا ہوں آج کا زمانہ ہوتا تو اتنے ناز و نخروں میں پلی ہوئی شہزادی کہتی جناب! آپ تشریف لے جائیں، یہ جو کچھ ہے میرا ہے، مجھے میرے والد نے دیا تھا۔ لیکن حضرت فاطمہؒ نے کیا خوبصورت جواب دیا، اللہ تعالی ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں۔ انہوں نے کہا حضرت! میرا زیور بھی آپ ہیں، میرا لباس بھی آپ ہیں، مجھے آپ کے سوا کچھ نہیں چاہیے ، اس گھر میں آپ کو جو کچھ بھی نظر آتا ہے کہ بیت المال کی مِلک ہے، ہماری مِلک نہیں ہے، تو اسے آپ بیت المال میں واپس کر دیجئے۔ آپ فاطمہ کی پیشانی پر شکن نہیں دیکھیں گے، فاطمہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بیوی کے زیورات، جواہرات کچھ بھی ان کے باپ نے انہیں دیا تھا وہ سب واپس کر دیا اور بیت المال میں جمع کروا دیا۔

یہیں پر بس نہیں کیا، اس کے بعد تیسرا مرحلہ آیا۔ امام سیوطیؒ نے بڑی تفصیل سے واقعہ بیان کیا ہے کہ تیسرے مرحلے پر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بنو امیہ کے شاہی خاندان کی میٹنگ بلا لی اور کہا کہ اس وقت تمہارے پاس جو باغات اور محلاّت ہیں یہ بیت المال کے ہیں، تمہارے نہیں ہیں، یہ بات تم بھی جانتے ہو میں بھی جانتا ہوں، لیکن ہم مقتدر اور حکمران لوگ ہیں تو ہم نے اپنے استعمال کے لیے یہ چیزیں گھر میں رکھی ہوئی ہیں، میں نے تو اپنے اثاثے بیت المال میں واپس کر دیے ہیں، آپ لوگ بھی اپنی خوشی سے واپس کر دیں تو اچھی بات ہے، ورنہ میں واپس لوں گا۔ میں امیر المومنین ہوں میرے پاس اتھارٹی اور اختیارات ہیں، لیکن میں بدمزگی نہیں پیدا کرنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں جس طرح میں نے بیت المال کی ساری چیزیں واپس کی ہیں آپ بھی واپس کر دیں۔ یہ بات سن کر سب لوگ پریشان ہو گئے ۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بیت المال کے اثاثے واپس لینے کے لیے لوگوں پر دباؤ ڈالا تو بنو امیہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ ہمارے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ اب یہ امیر بنا ہے تو ہمیں بیت المال سے نہ دے لیکن پہلوں کے دیے ہوئے کیوں واپس کر رہا ہے۔ لیکن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا موقف تھا کہ میں تو بیت المال کی ہر چیز واپس لوں گا۔ اس کے لیے آپریشن کرنا پڑا تو کروں گا کہ بیت المال کی ہر چیز واپس آنی چاہیے، یا خلافت چھوڑ دوں گا۔

اس دوران ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا۔ تفصیل سے اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ آپ کی سمجھ میں آئے کہ اسلام کا نظام کیا ہے؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان تھیں ۔ اس خاندان میں سب سے بزرگ شخصیت اس وقت یہی تھیں، معمر سمجھدار خاتون تھیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے جب یہ اعلان کیا کہ تمام شاہی خاندان اپنے تمام اثاثے واپس کریں، پندرہ دن کی مہلت ہے، اس کے اندر اندر واپس کر دو، ورنہ میں لے لوں گا، مجھے اس کا طریقہ آتا ہے، تو اس خاندان کے لوگ مل کر ان کی پھوپھی کے پاس گئے اور جا کر ان سے کہا کہ دیکھیں عمر ہمارے ساتھ کیا کر رہا ہے، وہ ہم سے سب کچھ چھینتا جا رہا ہے، اس کو منع کریں۔ تو فاطمہؒ نے بڑی دلچسپ مزے کی بات کی، کہا کہ جب تم اس کے باپ کا رشتہ کر رہے تھے تو میں نے مخالفت کی تھی کہ وہاں رشتہ نہ کرو۔ حضرت عبد العزیزؒ کا رشتہ حضرت عمرؓ بن خطاب کی پوتی سے ہوا تھا۔ فاطمہ کہتی ہیں جب حضرت عمرؓ کی پوتی تم گھر میں لا رہے تھے تو میں نے مخالفت کی تھی کہ یہ جوڑ تم سے ہضم نہیں ہو گا، اس وقت تم نے میری بات نہیں سنی تھی تو اب بھگتو، میں کیا کر سکتی ہوں؟ یہ حضرت عمر بن خطابؓ کی پوتی کا بیٹا ہے، یہ وہی کرے گا جو حضرت عمرؓ کرتے تھے۔

اس کے بعد پھوپھی نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو بلا کر کہا بیٹا! تم کیا کر رہے ہو؟ اب تم امیر بنے ہو تو تمہارا اختیار ہے لوگوں کو نہ دو، لیکن تم سے پہلے امراء جو کچھ لوگوں کو دے کر گئے ہیں اس میں کیوں مداخلت کر رہے ہو؟ اپنے دور کے فیصلے کرو، پچھلے دور کے فیصلوں کو کیوں منسوخ کر رہے ہو؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ اگر آپ کے خاندان میں کوئی بزرگ فوت ہو جائیں، ان کی وراثت غلط تقسیم ہوئی ہو، اور آپ کے علم میں ہو کہ یہ وراثت غلط تقسیم ہوئی ہے، تو کیا آپ کو مداخلت کا حق ہے یا نہیں ہے؟ قرآن مجید میں ہے ’’فمن خاف من موص جنفاً‌ او اثماً‌ فاصلح بینھم فلا اثم علیہ‘‘ قرآن مجید کی منشا یہ ہے کہ مرنے والا اگر غلط وصیت کر گیا ہے تو بعد میں جو ذمہ دار ہے وہ وصیت کو نافذ نہیں کرے گا بلکہ وصیت میں اصلاح کرے گا۔ مجھ سے پہلے جو غلط فیصلے ہوئے ہیں مجھے قرآن مجید حق دیتا ہے کہ میں ان کی اصلاح کروں۔ پھوپھی جان! میں بھی یہی کر رہا ہوں۔ غلط فیصلوں کی اصلاح کر رہا ہوں اور جو اموال غلط تقسیم ہوئے ہیں وہ واپس لے رہا ہوں۔ جب تک میرے اختیارات نہیں تھے میری ذمہ داری نہیں تھی تو میں بھی ساتھ چل رہا تھا، لیکن اب یہ میری ذمہ داری ہے اور وہ چیز جو غلط ہے میں اس کو صحیح کروں گا۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی ان اصلاحات سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں خلافت کے مزاج میں کیا فرق آگیا تھا، جس فرق کو ختم کرنے کی کوشش حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کی تھی۔ آپ نے جس کے پاس بھی بیت المال کی دولت تھی، وہ بڑی حکمت سے واپس لی۔ کہا جاتا ہے کہ تین مہینے لگے تھے کہ بیت المال کی ہر چیز واپس آ گئی تھی۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارے ہاں بھی یہ بحث چلی تھی اور جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مہم چلائی تھی کہ قومی اثاثے واپس لانے ہیں۔ ہمارے قومی خزانے کی رقوم بڑے لوگوں کے قبضے میں ہیں اور باہر کے بینکوں میں جمع ہیں، یہ بات امر واقعہ ہے۔ ایک مغربی ماہر معیشت کا تجزیہ ہے کہ پاکستان کی سرکاری اور قومی دولت جو باہر کے بینکوں میں جمع ہے، اگر وہ واپس آ جائے تو پاکستان میں تیس سال تک کسی قسم کا ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، بغیر ٹیکس کے ملک کا نظام چلے گا، اور تمام لوگوں کی ضروریات پوری ہوں گی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے یہ مہم شروع کی کہ قومی اثاثے اور سرکاری خزانے جن لوگوں نے قبضہ کر رکھے ہیں واپس لائیں، تو میں نے اس پر کالم لکھا تھا اور ان کو خط بھی لکھا تھا کہ قومی اثاثے اور سرکاری خزانے واپس آ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے عمر بن عبد العزیزؒ بننے کی ضرورت ہے کہ پہلے اپنے گھر سے واپس کرو، پھر دوسروں سے مانگو، اور پھر اس بات پر اڑ جاؤ کہ ہر ایک سے واپس لینے ہیں۔ وہ اثاثے واپس آ سکتے ہیں کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ایک عمر بن عبد العزیز چاہیے، اللہ کرے کہ ہمیں کہیں سے میسر آ جائے۔

لطیفے کی بات ذکر کرتا ہوں ہمارے ہاں عام طور پر خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطابؓ کا بہت حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک سیاستدان نے ایک دفعہ بیان دیا کہ ہمیں پاکستان میں اسلام تو چاہیے لیکن مولویوں والا نہیں، حضرت عمرؓ والا اسلام چاہیے۔ تو میں نے اس پر کالم لکھا کہ مہربانی کرو، حضرت عمرؓ والا اسلام ہم سے ہضم نہیں ہو گا، کوئی ڈھیلی ڈالی بات کرو، اورنگزیب، سلطان شمس الدین التمش طرز کے لوگوں کی بات کرو۔ حضرت عمرؓ آئیں گے تو ان کے ہاتھ میں کوڑا ہو گا جس سے نہ تو بچے گا اور نہ میں بچوں گا۔ ہم سے تو چھوٹا سا عمر یعنی افغانستان کے ملّؔا محمد عمر بھی ہضم نہیں ہوا ،تم اتنے بڑے عمرؓ کی بات کرتے ہو۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے حوالے سے یہ بات بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جب بادشاہ اس معیار پر آتا ہے تو رعیت کا کیا حال ہوتا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دورِ خلافت میں عراق کے گورنر نے خط لکھا کہ حضرت! سالانہ بجٹ میں پیسے بچے ہوئے ہیں ان کا کیا کروں؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے حکم بھیجا کہ مقروضوں کے قرضے ادا کر دو ۔ اس نے کہا، کر چکا ہوں۔ پھر حکم بھیجا، کنواروں کی شادیاں کروا دو ۔اس نے کہا، کروا چکا ہوں۔ پھر تیسرا حکم بھیجا، خاوندوں کے مہر ادا کر دو۔ اس نے کہا، یہ بھی کر چکا ہوں۔ تو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے چوتھا حکم یہ بھیجا کہ کسانوں کو آسان قسطوں پر قرضے دو تاکہ وہ اپنی زمینیں آباد کریں۔ جب حکمران ایک دائرے میں آتا ہے تو رعیت کا یہ حال ہوتا ہے۔ فارسی کا محاورہ ہے ’’لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘‘۔

میں بڑے حضرت عمرؓ کی بات نہیں کرتا وہ تو بہت بڑے ہیں، میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی بات کرتا ہوں۔ حکمرانوں کے لیے آج کے دور میں اصلاحات کے لیے، نفاذِ اسلام اور شریعت کی بالادستی کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ آئیڈیل ہیں۔ ہمیں آئیڈیل بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ تبدیلی کیسے ہو گی۔ میں اپنے سارے معاملات پر بھی چلتا رہوں اور شریعت بھی آ جائے ایسا تو نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں کوئی معیار بنانا پڑے گا کہ ہمیں یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا۔

بنو امیہ کی حکومت میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا دور بڑا شاندار دور تھا۔ انہوں نے اڑھائی سال خلافت کی۔ پھر اسی خاندان نے زہر دے کر ان کو شہید کروا دیا۔ یہ تاریخ کے المیے اور بڑے ستم کی باتیں ہیں لیکن برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے جانشین ولید نے ان کی تدفین کے بعد جب خلافت سنبھالی تو پہلا آرڈر یہ جاری کیا کہ مجھ سے پہلے جو حکمران آیا تھا وہ بڑا سادہ اور مجنون تھا، میں اس کے تمام آرڈر منسوخ کرتا ہوں اور سابقہ پوزیشن پر واپس جا رہا ہوں، یوں خلافت کے مختلف معیارات چلتے رہے۔

2016ء سے
Flag Counter