دینی مدارس میں تربیتی کورسز کا خوش آئند رجحان

   
تاریخ : 
۶ جولائی ۲۰۱۲ء

ربع صدی کے بعد شعبان العظم کے دو ہفتے اپنے ملک میں گزارنے کا موقع ملا ہے ورنہ ان دنوں عام طور پر برطانیہ یا امریکہ میں ہوتا ہوں۔ مگر برطانیہ گزشتہ تین سال سے ویزا دینے سے انکاری ہے اور امریکہ کا ملٹی پل ویزا بھی ختم ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے ویزا آفس کے حکام کو شبہ ہے کہ میں کہیں برطانیہ میں رہ نہ جاؤں، جبکہ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ کم و بیش پچیس بار جا کر واپس آجانے کے باوجود اگر میں انہیں وہاں رہ نہ جانے کی تسلی نہیں کرا سکا تو اور کون سی صورت ممکن ہے کہ میں انہیں اطمینان دلا سکوں؟ بہرحال ’’رموز مملکت خویش خسروان دانند‘‘۔

اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ شعبان کے دوران ہمارے ہاں ہونے والی دینی مدارس کی سرگرمیوں میں کچھ نہ کچھ شرکت کی سعادت حاصل ہوگئی ہے۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر کے شرکاء کو آٹھ نو روز تک قرآن کریم کے ابتدائی پارے پڑھانے کے علاوہ فہم قرآن کریم اور انسانی حقوق کے حوالہ سے کچھ لیکچر دیے۔ جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ میں ہونے والے دورۂ تفسیر کے کچھ ابتدائی اسباق میں حاضری ہوئی اور مختلف دینی مدارس اور حلقوں کے زیر اہتمام ان دنوں ہونے والے تربیت کورسز میں شرکت کا موقع ملا۔

یکم جولائی کو لاہور کینٹ کے علاقہ میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے منعقد کی جانے والی سات روزہ میڈیا ورکشاپ کی آخری نشست میں حاضری ہوئی، اس کا اہتمام جمعیۃ علماء اسلام (س) کے راہنما جناب ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ نے شاہ ولی اللہ سوسائٹی کے تعاون سے کیا اور روزنامہ اسلام کے کالم نگار مولانا عبد القدوس محمدی نے اس کی نگرانی کی۔ دینی مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے مسلسل ایک ہفتے تک میڈیا کی اہمیت اور اس کے مختلف شعبوں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اسے دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں کے حوالہ سے ان شعبوں کے ماہرین سے استفادہ کیا۔ آخری نشست شاہ ولی اللہ سوسائٹی کے صدر پروفیسر محمود الحسن عارف کی صدارت میں ہوئی جس میں رابطہ ادب اسلامی پاکستان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت اور ان کے طرز حکومت کے موضوع پر معلوماتی مقالہ پیش کیا۔ راقم الحروف نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور استعمال کے بارے میں کچھ معروضات شرکاء کے گوشگزار کیں اور سید سلمان گیلانی نے اپنے کلام اور لہجے سے دلوں کو گرمایا۔ کورس کے شرکاء کو سرٹیفکیٹ دیے گئے۔

۲ جولائی کا دن اسلام آباد میں گزارا، چھتر پارک میں مولانا مفتی محمد سعید خان کی قائم کردہ لائبریری دیکھی۔ بھارہ کہو میں مولانا فیض الرحمان عثمانی کے ادارہ علوم اسلامیہ میں حاضری دی، دلچسپی کے بعض موضوعات پر گفتگو ہوئی اور وہیں کراچی کے پرانے بزرگ دوست مولانا حافظ اقبال اللہ سے بھی ملاقات ہوگئی۔ جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ہمک کے مہتمم اور پاکستان شریعت کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری مولانا سید علی محی الدین میرے ساتھ تھے، رات کا قیام انہی کے ہاں تھا۔

۳ جولائی کو فجر کے بعد جامعہ رحمانیہ میں مختصر درس دیا۔ کورنگ ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد میں مولانا شبیر عباسی نے خطباء کرام کے لیے ایک تربیتی کورس کا اہتمام کر رکھا ہے جس میں ۸۰ کے لگ بھگ علماء کرام خطابت کے فن کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ راقم الحروف نے خطابت کی اہمیت و تاثیر اور اس کے تقاضوں کے حوالہ سے اپنے بعض مشاہدات و تاثرات کو گفتگو کی صورت میں پیش کیا۔ اس موقع پر ایک بہت پرانے صاحب علم دوست پروفیسر افتخار احمد بھٹہ سے بھی خاصے عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی جن کے ساتھ میری دوستی اور روابط کا قصہ نصف صدی کے عرصہ کو محیط ہے، ناشتہ انہی کے ہاں ہوا اور گپ شپ بھی ہوئی۔

اس کے بعد شہزاد ٹاؤن میں مولانا عبد القدوس محمدی کی نگرانی اور انتظام میں منعقد ہونے والے بیس روزہ میڈیا تربیتی کورس میں حاضری ہوئی اور دین کی دعوت و تبلیغ میں شعر و ادب اور خطابت کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں گزارشات پیش کیں۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مولانا عبد القدوس محمدی اور ان کے رفقاء اس اہم دینی ضرورت کا احساس بیدار کرنے اور اس کے مختلف شعبوں سے تربیتی انداز میں دینی طلبہ اور علماء کو متعارف کرانے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل محنت میں مصروف ہیں اور ان کی جدوجہد سے اب برف کچھ نہ کچھ پگھلنے لگی ہے، الحمد للہ علٰی ذٰلک۔

ظہر کی نماز جامعہ محمدیہ چائنہ چوک اسلام آباد میں ادا کی، مولانا ظہور احمد علوی اسلام آباد کے باذوق، متحرک اور بزرگ علماء کرام میں سے ہیں اور ان کے فرزند مولانا تنویر احمد علوی بھی ان کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مدینہ منورہ میں مقیم ہمارے بزرگ دوست مولانا ڈاکٹر محمد الیاس فیصل نے ان دنوں جامعہ محمدیہ میں تقابل ادیان کے عنوان سے علماء و طلبہ کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام کر رکھا ہے جس کا مقصد انہیں دور حاضر کے دینی و فکری فتنوں سے آگاہ کرنا اور ان سے نمٹنے کی تربیت دینا ہے۔ علماء و طلبہ کی اچھی خاصی تعداد بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اس میں شریک ہے اور مختلف شعبوں کے ماہرین انہیں اپنی معلومات اور تجربات سے آگاہ کر رہے ہیں۔

۳ جولائی کو ظہر کے بعد اور ۴ جولائی کو فجر کے بعد کی دو نشستوں میں راقم الحروف نے بھی تفصیلی گفتگو کی اور علماء و طلبہ سے گزارش کی کہ وہ ادیانِ باطلہ اور گمراہ فرقوں کی فہرست میں مغربی فکر و فلسفہ کو بھی شامل کریں جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے نام سے اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کی نہ صرف مخالفت کر رہا ہے بلکہ اسلامی عقیدہ و ثقافت کے مقابلہ میں پوری قوت سے محاذ آرا ہے۔ میں نے کورس کے شرکاء کو بتایا کہ دنیا میں ہر سطح پر انسانی حقوق کے عنوان سے اسلام کے شرعی احکام کی جو مخالفت کی جا رہی ہے اس کا پس منظر کیا ہے، اس کے اہداف کیا ہیں اور ان کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں دینی حوالہ سے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی دوران جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا پروگرام بن گیا مگر جب مولانا تنویر احمد علوی اور مولانا احمد الرحمان کے ہمراہ ان کے گھر پہنچا تو وہ کراچی کے سفر کے لیے ایئرپورٹ جا رہے تھے، وقت میں گنجائش نہیں تھی اس لیے انہوں نے مجھے گاڑی میں ساتھ ہی بٹھا لیا اور ان کے جہاز پر سوار ہونے تک ہماری گفتگو جاری رہی، متعدد معاملات پر باہمی مشاورت ہوئی، میں نے برما کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پر توجہ دینے کے لیے بطور خاص عرض کیا کہ برما کے صوبہ اراکان کے مسلمان ایک عرصہ سے ریاستی جبر کا شکار ہیں، ظلم و تشدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس خطہ کے مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ ان کے حق میں کہیں سے مؤثر آواز بلند نہیں ہو رہی۔ میں نے مولانا فضل الرحمان سے اس سلسلہ میں اپنا اثر و رسوخ بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی گزارش کی اور انہوں نے اس کے لیے سنجیدہ توجہ کا وعدہ کیا۔

۴ جولائی کو چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ’’رد قادیانیت کورس‘‘ میں ظہر کے بعد حاضری طے تھی اور ۵ جولائی کو حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد میں ہونے والے ’’رد قادیانیت کورس‘‘ کی آخری نشست میں شرکت کا وعدہ تھا۔ اس لیے ظہر سے قبل چنیوٹ پہنچا جہاں جامعہ انوار القرآن میں جامعہ نصرۃ العلوم کے پرانے فاضل مولانا قاری عبد الحمید مدنی کی میزبانی کا لطف اٹھا رہا ہوں اور ہمارے ایک عزیز شاگرد مولانا حافظ محمد عمیر چنیوٹی بھی ہمراہ ہیں۔ چنیوٹ کی مصروفیات کی رپورٹ پھر کسی موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

   
2016ء سے
Flag Counter