بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تحریکِ خلافت کو تقریباً سو سال ہو گیا ہے۔ ۱۹۱۶ء تا ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ ایک بڑی تحریک برصغیر میں کلکتہ سے پشاور تک تحریکِ خلافت کے عنوان سے بپا ہوئی۔ یہ ہندوستان میں آزادی کی تحریکات میں سب سے پہلی سیاسی تحریک تھی۔ اس سے پہلے عسکری، فوجی اور جہادی تحریکات رہی ہیں۔ شہدائے بالاکوٹؒ کی تحریک، حاجی شریعت اللہؒ کی بنگال کی فرائضی تحریک، پنجاب میں سردار احمد خان کھرلؒ کی تحریک، صوبہ سرحد کے حاجی صاحب ترنگزئیؒ اور فقیر ایپیؒ کی تحریک، اور سندھ میں پیر پگاراؒ کی تحریک، یہ سب عسکری تحریکات تھیں۔ بیسیوں تحریکیں ہیں جو باقاعدہ مسلح جنگیں تھیں۔ ۱۸۵۷ء تک انگریزوں کے خلاف آزادی کی جو جنگیں لڑی گئیں ان کا ایک پورا تسلسل ہے۔ لیکن سیاسی تحریک کہ ہتھیار اٹھائے بغیر عوامی قوت اور اجتماعات کے ساتھ، اسٹریٹ پاور کے ساتھ انگریزوں کا مقابلہ اور ان سے نکلنے کا تقاضا کرنا، یہ تحریکِ خلافت تھی جو پہلی سیاسی تحریک تھی۔
برصغیر میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی ہے لیکن خلافت کے نام سے نہیں بلکہ سلطنت کے نام سے کی ہے۔ یہاں مسلمان حکمران حکومت کرتے رہے غزنوی سے لے کر لودھی، غوری، شیر شاہ سوری، شمس الدین التمش، قطب الدین ایبک اور بہادر شاہ ظفر تک، یہ سب سلطان تھے۔ اور عنوان اگرچہ بادشاہت رہا ہے مگر تقریباً بارہ سو سال یہاں قانون شریعت کا ہی رہا ہے۔ عدالتوں میں قرآن و سنت کے مطابق اور فقہ اسلامی کے مطابق فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ عدالتوں میں شریعت کا قانون ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے آ کر منسوخ کیا تھا، اس سے پہلے تک حکومت جس کی بھی رہی قانون شریعت کا رہا ۔ سوال یہ ہے کہ جب برصغیر میں خلافت تھی ہی نہیں تو یہاں تحریکِ خلافت کا کیا مقصد تھا؟ یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارا خلافت کی تاریخ کا تسلسل یہ ہے کہ پہلا دور خلافتِ راشدہ کا ہے جو تیس سال رہی۔ اس کے بعد حضرت معاویہؓ سے خلافتِ بنو امیہ کا آغاز ہوا جو تقریباً ایک صدی رہی۔ پھر بنو عباس کی خلافتِ عباسیہ قائم ہوئی جس کا دارالحکومت بغداد تھا۔ اس کے خاتمہ کے بعد پھر ترکوں نے خلافت سنبھالی، سلطان عثمان اول پہلے ترک خلیفہ تھے، اور خلافت کے عنوان کے ساتھ یہ کئی صدیاں عالم اسلام پر حکومت کرتے رہے۔ اس میں مشرقی یورپ شامل تھا، خود ترکی کا ایک حصہ مشرقی یورپ میں ہے، اس میں ایشیا اور افریقہ کے ممالک بھی شامل تھے، سلطنتِ عثمانیہ تین براعظموں کے ممالک پر مشتمل تھی۔ جس طرح آج کل دنیا کی تمام حکومتوں میں سب سے زیادہ مضبوط حکومت امریکا کی ہے اور دنیا کے سب سے بڑے طاقتور گھر کا نام وائٹ ہاؤس ہے۔ اسی طرح استنبول میں بابِ عالی نے دنیا پر کئی صدیاں حکومت کی ہے۔
استنبول خلافت عثمانیہ کا دارالخلافہ تھا جو اس وقت قسطنطنیہ کہلاتا تھا اور عثمانی خلفاء چلتے آ رہے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے خلاف یورپین قوتوں نے سازش کی کہ اس کو کسی طریقے سے ختم کیا جائے۔ لمبی داستان ہے، انہیں ایک سو سال لگے۔ یورپی حکومتیں برطانیہ، اٹلی اور فرانس سارے مل کر خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت ختم ہو کیونکہ کئی مسلمان ملکوں اور ریاستوں کو اس نے اکٹھا کر رکھا ہے۔ جنگ عظیم اول ۱۹۱۴ء کے عشرے میں لڑی گئی۔ جرمنی کے ساتھ روس، برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی لڑائی تھی۔ ایک طرف جرمنی تھا اور دوسری طرف یہ یورپی قوتیں تھیں۔ بین الاقوامی جنگ تھی، تباہی مچی ہوئی تھی، بہت خون ریزی ہوئی، لاکھوں کی تعداد میں لوگ مرے۔ خلافت عثمانیہ اس جنگ میں جرمنی کے ساتھ تھی۔ اس جنگ میں جرمنی کو شکست ہو گئی۔ جب جرمنی کو شکست ہوئی تو ظاہر بات ہے کہ خلافت عثمانیہ کو بھی شکست ہو گئی۔ روس، برطانیہ، اٹلی اور فرانس نے غلبہ پا لیا تو ان میں سے جس کا جہاں داؤ لگا وہ وہاں گھس گیا۔ کچھ ملکوں میں روس گھس گیا، کچھ ملکوں میں برطانیہ گھس گیا، کچھ ملکوں میں فرانس گھس گیا، اور کچھ ملکوں میں اٹلی گھس گیا۔ فاتح ایسے ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے مسلمان ملک آپس میں تقسیم کر لیے، جیسے دسترخوان پر بوٹیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ فلسطین اسی وقت برطانیہ کے قبضہ میں آیا۔ جب خلافت عثمانیہ جنگ عظیم اول میں شکست کھا چکی، اس کے بہت سے علاقوں پر برطانیہ، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ نے قبضہ کر لیا، اور ترکی میں بھی فوجیں داخل ہو گئیں تو اس وقت یورپی ملکوں کا مطالبہ یہ تھا کہ ترکی خلافت ختم کرنے کا اعلان کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خلافت کا عنوان قبول نہیں کریں گے، ہاں اگر جمہوری حکومت بناتے ہیں تو بنا لیں۔
جب ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے خطرات نظر آئے تو ہندوستان کے تقریباً تمام قوم پرست اکٹھے ہو گئے کہ ترکی کی خلافت کو بچانا چاہیے۔ تحریکِ خلافت ہندوستان میں خلافت قائم کرنے کے لیے نہیں تھی بلکہ ترکی کی خلافت کو بچانے کے لیے تھی۔ چونکہ ہم تاجِ برطانیہ کی رعایا تھے اور حکومتِ برطانیہ ہی خلافت ختم کرنے کے درپے تھی تو ہمارے علماء نے ضروری سمجھا کہ ہم آواز اٹھائیں، تحریک چلائیں اور حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کریں کہ خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کی پالیسی ترک کی جائے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، ، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار انصاری رحمہم اللہ تعالیٰ اس وقت کی قومی لیڈر شپ تھی، جو اکٹھے ہوئے اور انہوں نے حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ خلافت ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، اس کا خاتمہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ یہ تھا تحریکِ خلافت کا پس منظر۔
اس مطالبہ پر بہت بڑی تحریک منظم ہوئی جس میں جلسے، جلوس، مظاہرے، اور گرفتاریاں ہوئیں۔ پورا ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اس تحریک کا دائرہ تھا۔ مولانا محمد علی جوہرؒ اس تحریک کے رہنما تھے، انگریزی کے بہت اچھے رائٹر تھے، ان کا رسالہ نکلتا تھا ’’کامریڈ‘‘ جسے انگریز بھی پڑھتے تھے۔ مولانا جوہرؒ اتر پردیش (یوپی) کے تھے لیکن انگلش میں مسلم صحافت کا آغاز کامریڈ سے ہوا تھا۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ لکھنؤ کے تھے لیکن اتنی اچھی عربی بولتے تھے کہ عرب سننے آتے تھے۔ مولانا جوہر کو تو میں نے دیکھا نہیں ہے، لیکن مولانا علی میاںؒ میرے استاد بھی ہیں اور شیخ بھی۔ ایک دفعہ لندن میں مولانا ندویؒ کا بیان تھا، میں بھی وہاں تھا، وہاں ایک عرب دانشور ڈاکٹر محمد المسعری جو ہمارے دوست ہیں، ریاض یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں۔ وہ سامنے بیٹھ کر مولانا علی میاںؒ کی تقریر سن رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا شیخ! آپ کدھر؟ یہ تو برصغیر کے عالم ہیں، انہوں نے کہا کہ شیخ جب بھی آتے ہیں میں ان کی تقریر سننے اور ان کی عربی سننے کی غرض سے آتا ہوں۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ کمال کا مولوی ہے جسے عرب سننے کے لیے آتے، اور مولانا جوہرؒ کی کمال کی انگلش تھی جسے انگریز بھی پڑھا کرتے تھے۔
مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ تینوں بڑے مولانا تھے، ہم بھی ان کو مولانا ہی کہتے ہیں، مگر وہ کسی مدرسے کے فارغ نہیں تھے بلکہ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ یہ شیخ الہندؒ کی برکت تھی۔ انہوں نے خلافت کی تحریک کو مضبوطی سے سنبھالا اور آگے بڑھے۔ آج ہماری قومی لیڈر شپ میں سب سے پہلے مولانا محمد علی جوہرؒ کا نام آتا ہے۔ ایک موقع پر گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تو ان کی بوڑھی اماں میدان میں آ گئیں، وہ جلسے سے خطاب کرتی تھیں، انہوں نے پورے ملک میں دورے کیے، لوگوں کو گرمایا اور تحریک کو زندہ رکھا۔ اس زمانے کا ترانہ بڑا مشہور ہے ؎
بولی اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
تحریکِ خلافت کے زمانے میں حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، موقوف علیہ کے سال میں تھے، تعلیم چھوڑی اور تحریک میں شامل ہو گئے، بہت بڑے خطیب تھے، پھر خطابت میں ایسے بڑھے کہ جنوبی ایشیا کے اردو زبان سب سے بڑے خطیب کہلائے، اللہ پاک نے بہت بڑا ملکہ عطا فرمایا تھا۔
تحریک خلافت اس حد تک آگے بڑھی کہ انگریز حکومت نے برطانیہ میں گول میز کانفرنس منعقد کی اور مذاکرات کے لیے تحریک کے قائدین کو بلایا۔ برطانوی حکومت کے وزیر ہند کے ساتھ ان کے مذاکرات تھے۔ اس گول میز کانفرنس میں مولانا محمد علی جوہرؒ اور دوسرے لیڈر بھی گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا ہم خلافت کا تحفظ چاہتے ہیں اور اپنے ملک کی آزادی چاہتے ہیں۔ ہمارے دو ہی مطالبے ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ مولانا محمد علی جوہر ؒ نے انگریز وزیراعظم کے سامنے بیٹھے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا کہ میں غلام وطن میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ یا مجھے آزادی کا پروانہ دے کر بھیجو، یا مجھے کسی آزاد علاقے میں قبر کی جگہ دے دو۔ چنانچہ مولانا محمد علی جوہرؒ کی وفات بھی بڑی عجیب ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بات ایسی قبول کی کہ مولانا محمد علی جوہر ؒ وطن واپس نہیں پہنچ سکے، راستے میں عرب سرزمین پر فوت ہوئے اور یروشلم بیت المقدس کے قبرستان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں میں دفن ہوئے، اللہ رب العزت نے ان کو بڑی عظمت دی تھی۔
تحریک خلافت کامیاب نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ یہ تو ترکی کی خلافت کی حمایت میں اپنا کام کر رہے تھے، لیکن ترکی والے جب خود خلافت سے دستبردار ہو گئے تو یہاں بھی تحریک ختم ہو گئی۔
ترکی کیوں خلافت سے دستبردار ہوا، اس کا بھی تھوڑا سا پس منظر عرض کر دیتا ہوں۔ ترکی میں فاتحین کی فوجیں داخل ہو گئی تھیں، مصطفیٰ کمال اتاترک ترکی کے قومی لیڈر تھے۔ وہ ترکی کی آزادی کے حق میں تھے، ڈٹ گئے کہ ترکی پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے، ترکی آزاد رہے گا۔ اسی لیے وہ اتاترک کہلاتا ہے یعنی ترکوں کا باپ۔ ترکی اس کو اپنے محسن مانتے ہیں اور وہ محسن ہے بھی۔ جب ترکی کی خود مختاری کے لیے، ترکی کے تحفظ اور بقا کے لیے، اور ترکی کی حدود سے قابض فوجوں کے نکلنے کے لیے اتاترک کھڑا ہوا تو پوری قوم بھی کھڑی ہو گئی کہ خلافت تو بعد کی بات ہے، ترکی کو تو بچائیں۔ یہ نعرہ جو اَب یہاں لگایا جاتا ہے ” سب سے پہلے پاکستان“ ترکی میں یہ نعرہ سب سے پہلے اتاترک نے لگایا کہ ”سب سے پہلے ترکی“۔ چنانچہ اس کی یونان سے جنگ بھی ہوئی، اور فاتح قوتوں نے جب دیکھا کہ ترکی والے اپنا دفاع کر رہے ہیں تو جنگ کے بعد مذاکرات کی میز بچھی اور سویٹرز لینڈ کے شہر لوزان میں کانفرنس ہوئی جس کو لوزان کانفرنس کہتے ہیں۔ وہاں مذاکرات ہوئے، جیسے طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ اتاترک خلافت کو ختم کرنے کے حق میں نہیں تھے، انصاف کی بات یہی ہے، وہ برائے نام خلافت قائم رکھنا چاہتے تھے کہ جس طرح برطانیہ میں ملکہ برطانیہ ہے کہ اس کا نام اور پروٹوکول ہے لیکن اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح خلافت کا ٹائٹل باقی رہے، نظام جمہوری رہے۔ لیکن فاتحین نے نہیں مانا اور اپنی فوجیں ترکی سے نکالنے کے لیے شرطیں لگا دیں۔ کوئی گھر میں آ کر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ شرطیں مانو گے تو گھر سے نکلوں گا ورنہ نہیں نکلوں گا تو گھر والا بیچارہ کیا کرے گا۔
فاتحین نے شرطیں رکھیں کہ ہم ترکی سے تب نکلیں گے جب یہ شرطیں مانو گے۔ خلافت کے خاتمے کا اعلان کرو اور یہ لکھ کر دو کہ آئندہ کبھی خلافت کا نام نہیں لو گے۔ اور یہ کہ ترکی کا جہاں کہیں بھی قبضہ رہا ہے اپنے تمام مقبوضات سے دستبرداری لکھ کر دو، اور آئندہ اس قبضے کی بنیاد پر حق نہیں جتاؤ گے ۔ صرف خلافت کے خاتمے کا اعلان نہیں کروبلکہ موجودہ خلیفہ کو تمام جائیداد ضبط کر کے خاندان سمیت جلاوطن کرو۔ شریعت کا قانون منسوخ کرو اور لکھ کر دو کہ آئندہ کبھی شریعت کا قانون نہیں آئے گا۔
یہ شرطیں انہوں نے گردن پر گھٹنا رکھ کر گن پوائنٹ پر منوائیں۔ یہ بات میں تقریباً تیس سال سے لکھتا آ رہا ہوں کہ معاہدہ لوزان جو ۱۹۲۳ء میں ہوا تھا، وہ جبری تھا اور نمائندوں کی مرضی کے خلاف تھا۔ یہی بات طیب اردگان نے بھی پہلی بار پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے کہ یہ معاہدہ ہم پر جبراً مسلط کیا گیا تھا، ہماری مرضی کے خلاف تھا، گن پوائنٹ پر تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میں ٹھیک لکھ رہا تھا۔ لیکن میں اس حوالے سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ معاہدہ لوزان میں ترکی نے وعدہ کیا تھا کہ ہم آئندہ خلافت قائم نہیں کریں گے، شریعت نافذ نہیں کریں گے، اور اپنے سابقہ قبضے کی بنیاد پر کسی علاقے پر حق نہیں جتائیں گے۔ یہ وعدہ ترکی نے کیا تھا، جبکہ مغربی لیڈر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ترکی کا وعدہ نہیں تھا، خلافت عثمانیہ کے ٹائٹل کے ساتھ تھا وہ عالم اسلام کا نمائندہ تھا، اس لیے یہ معاہدہ ہمارے ساتھ امت مسلمہ نے کیا ہے۔ مصطفیٰ کمال اتاترک اور عصمت انونو خلیفہ کے نمائندہ تھے، انہوں نے معاہدے پر دستخط اس وقت کے موجود خلیفہ کے نمائندے کی حیثیت سے کیے تھے اور خلیفہ عالم اسلام کا تھا۔ یہ بات برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہی تھی کہ امت مسلمہ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے کہ خلافت اور شریعت کا کبھی نام نہیں لیں گے، اس لیے ہم مسلمانوں کو دنیا کے کسی حصے میں نہ خلافہ قائم کرنے دیں گے اور نہ شریعہ نافذ ہونے دیں گے۔ یہی بات امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی نے بھی چند سال پہلے کہی تھی کہ مسلمانوں کا ہمارے ساتھ وعدہ ہے اور اسی لیے نہیں کرنے دے رہے۔ دنیا میں کہیں بھی شریعت نافذ نہیں کرنے دے رہے اور نہ ہی خلافت قائم کرنے دے رہے ہیں۔ معاہدہ لوزان سو سال کے لیے تھا، ۲۰۲۳ء اس کے خاتمہ کا سال ہے اور ترکی میں خلافت عثمانیہ کی بازگشت پھر سے سنائی دینے لگی ہے