آسمانی مذاہب کے درمیان مکالمہ کے لیے قرآنی اصول

   
تاریخ: 
۳ اکتوبر ۲۰۰۴ء

(۳ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو مرکزی جامع مسجد برمنگھم برطانیہ میں جمعیۃ علماء برطانیہ کی سالانہ توحید و سنت کانفرنس سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں محترم ڈاکٹر اختر الزمان غوری، مولانا قاری تصور الحق اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہوں کہ جمعیۃ علماء برطانیہ کی سالانہ توحید و سنت کانفرنس میں حاضری اور آپ دوستوں سے گفتگو کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالیٰ حاضری قبول فرمائیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق اور دین حق کی جو بات علم میں آئے اس پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مجھے توحید کی اہمیت اور اس پر ہمارے ایمان و عقیدہ کی بنیاد کے حوالہ سے کچھ عرض کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور میری اس کمزوری اور مجبوری سے آپ حضرات واقف ہیں کہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے معروضی حالات اور عالمی تناظر کو ضرور دیکھتا ہوں اور اسے سامنے رکھتے ہوئے گفتگو کی کوشش کرتا ہوں۔ آج کی دنیا میں مذاہب و ادیان کے درمیان مکالمہ اور ڈائیلاگ کی بات چل رہی ہے اور مختلف مذاہب کے دینی راہنماؤں کی مشترکہ کانفرنسیں ہو رہی ہیں، ابھی اسلام آباد میں ایک کانفرنس ہوئی ہے، کل کے اخبارات میں یہاں لندن میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کی خبر تھی، امریکہ میں سالانہ بین المذاہب کانفرنس عالمی سطح پر ہوتی ہے، اور اس بات پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے کہ مختلف ادیان و مذاہب کے مذہبی راہنما مل بیٹھیں، مکالمہ کو فروغ دیں، ڈائیلاگ کریں اور باہمی مفاہمت کی راہیں تلاش کریں، میں اس پس منظر میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

توحید میں بات تو ایک ہی ذات کی ہوتی ہے اور اس کی وحدت کی ہوتی ہے، مگر اس ذاتِ واحد اور اس کی وحدیّت کے مظاہرِ قدرت اور صفات کی جِہات اس قدر وسیع اور بے شمار ہیں کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق روئے زمین کے سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور سارے درخت قلموں کی شکل اختیار کر لیں بلکہ اتنے ہی سمندر اور درخت اور آجائیں تو بھی اس ذاتِ واحد کے سارے کلمات کو لکھا نہیں جا سکتا اور ان کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں ان بے شمار اور ان گنت پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کروں گا کہ آج کے عالمی حالات اور دنیا کی معروضی صورتحال میں مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ و مباحثہ کے پس منظر میں عقیدۂ توحید کی اہمیت کیا ہے اور اس کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا ہے؟

میں نے قرآن کریم کی جو آیتِ مقدسہ آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں بھی ایک بین المذاہب مکالمہ کا ذکر ہے، یہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۶۴ ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور نجران سے مدینہ منورہ آنے والے مسیحی علماء کے درمیان عقائد پر گفتگو ہوئی، مباحثہ ہوا اور مباہلہ کی بات بھی ہوئی، اور بالآخر ایک معاہدہ پر بات منتج ہوئی کہ دونوں اپنے اپنے عقیدہ و مذہب پر قائم رہیں گے، مگر نجران کے عیسائی جناب نبی اکرمؐ کے اقتدار اور حکومت کو تسلیم کر کے اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہیں گے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اس مکالمہ اور ڈائیلاگ کے سلسلہ میں ہدایات دی ہیں کہ:

’’اے پیغمبر ! کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض اپنے میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ کے نیچے رب نہ بنا لیں، پس اگر وہ اس بات کو قبول نہ کریں تو آپ کہہ دیں کہ گواہ رہو کہ ہم تو اس حکم کو قبول کرنے والے ہیں‘‘۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آسمانی مذاہب کے درمیان قدرِ مشترک کے طور پر دو باتوں کا ذکر کیا ہے: ایک یہ کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، اور دوسری یہ کہ انسان آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنا لیں۔ قدرِ مشترک کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ کم سے کم نکات ہیں جن پر باہمی مفاہمت ہو سکتی ہے اور اس سے ہٹ کر کسی مذہب سے گفتگو اور مکالمہ کی گنجائش نہیں ہے۔

عقیدۂ توحید تمام آسمانی مذاہب میں ہمیشہ قدرِ مشترک رہا ہے۔ اور اگرچہ یہودی اور عیسائی اس عقیدہ سے منحرف ہوگئے ہیں اور انہوں نے تورات اور انجیل میں بہت سی تحریفات کر لی ہیں، جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ہمارے ہاں گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے مسیحی ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ نے اسی سال فروری یا مارچ کے شمارے میں لاہور سے شائع ہونے والی انگلش بائبل کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ اس میں چالیس سے زیادہ آیات میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ ماہنامہ کلام حق نے ان آیات اور ان میں ہونے والے ردوبدل کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس لیے جب صرف ایک مرحلہ میں چالیس سے زیادہ آیات ردوبدل اور تحریف کا شکار ہوئی ہیں تو ہزاروں برس میں ان کتابوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا۔ مگر اس تمام تر ردوبدل اور تحریف کے باوجود آج بھی بائبل کے مروجہ نسخوں میں موجود تورات اور انجیل عقیدہ توحید کی گواہی دے رہی ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ اس موقع پر میں دو حوالے دینا چاہوں گا۔

(۱) لاہور سے شائع ہونے والی اردو بائبل کے عہد نامہ قدیم کی کتاب استثناء کے باب ۵ میں آیت ۶ سے ۲۱ تک ان احکامِ عشرہ کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور سے واپسی پر صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو دیے تھے ، وہ دس احکام بائبل کی زبان میں یوں ہیں:

’’تب اس نے کہا خداوند تیرا خدا، جو تجھے ملک مصر یعنی غلامی کے گھر سے نکال لایا، میں ہوں۔ میرے آگے تو اور معبودوں کو نہ ماننا، تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے، تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا، کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں، اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں ان کی اولاد کو تیسری اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں، اور ہزاروں پر جو مجھے سے محبت رکھتے ہیں اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں۔ تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا کیونکہ خداوند اس کو جو اس کا نام بے فائدہ لیتا ہے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا۔ تو خداوند اپنے خدا کے مطابق سبت کے دن کو یاد کر کے پاک ماننا، چھ دن تک تو محنت کر کے اپنا سارا کام کاج کرنا لیکن ساتویں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے۔ اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا بیل نہ تیرا گدھا نہ تیرا کوئی اور جانور اور نہ کوئی مسافر جو تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو، تاکہ تیرا غلام اور تیری لونڈی بھی تیری طرح آرام کریں۔ اور یاد رکھنا کہ تو ملکِ مصر میں غلام تھا اور وہاں سے خداوند تیرا خدا اپنے زور آور ہاتھ اور بلند بازو سے تجھ کو نکال لایا، اس لیے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو سبت کے دن کو ماننے کا حکم دیا، تو خون نہ کرنا، تو زنا نہ کرنا، تو چوری نہ کرنا، تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا، تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اپنے پڑوسی کے گھر یا اس کے کھیت یا غلام یا لونڈی یا اس کی کسی اور چیز کا خواہاں ہونا‘‘۔

یہ تورات کا حکم ہے جس میں عقیدۂ توحید پر کاربند رہنے اور شرک اور بت پرستی سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جبکہ بائبل کے عہد نامہ جدید یعنی انجیل میں بھی عقیدۂ توحید کا ذکر ہے اور انجیل متی کے باب ۴ میں آیات ۱ تا ۱۱ میں اس واقعہ کا تذکرہ ہے کہ روح القدس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آزمائش کے لیے جنگل میں لے گئے، یہ واقعہ انجیل متی کی زبان میں یوں ہے:

’’اس وقت روح القدس یسوع کو جنگل میں لے گیا تاکہ ابلیس سے آزمایا جائے۔ اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر اسے بھوک لگی، اور آزمانے والے نے پاس آکر اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔ اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے ہی جیتا نہیں رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔ تب ابلیس اسے مقدس شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا اور وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے، ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔ یسوع نے اس سے کہا کہ یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر۔ پھر ابلیس اسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی سب سلطنتیں اور ان کی شان و شوکت اسے دکھائی اور اس سے کہا کہ اگر تو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔ یسوع نے اس سے کہا اے شیطان! دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔ تب ابلیس اس کے پاس سے چلا گیا اور فرشتے آکر اس کی خدمت کرنے لگے۔‘‘

یہ انجیل کی شہادت ہے اس بات پر کہ اصلی اور سچی مسیحیت کی بنیاد بھی توحید پر ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کہہ کر شیطان کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حکم یہ ہے کہ صرف خدا کی عبادت کی جائے اور اسی کو سجدہ کیا جائے۔ یہاں ایک بات چلتے چلتے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابلیس نے حضرت عیسٰیؑ کو دنیا کی ساری بادشاہتوں اور ان کی شان و شوکت کا منظر دکھا کہ پیشکش کی کہ اگر وہ اسے سجدہ کر دیں تو یہ ساری بادشاہتیں انہیں مل جائیں گی مگر انہوں نے کمال بے نیازی سے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ لیکن آج کے عالمی حالات کو سامنے رکھیں تو لگتا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کا نام لینے والوں نے یہ سجدہ کر لیا ہے اور اسی کے نتیجے میں دنیا کی بادشاہتیں حاصل کر لی ہیں جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ آج کی دنیا پر حکمرانی کرنے والے مسیحی نام تو حضرت عیسٰیؑ کا لیتے ہیں مگر بائبل کی تعلیمات سے دستبردار ہو کر انہوں نے شیطانی تعلیمات کے مطابق انسانی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔ خیر بات توحید کی ہو رہی ہے کہ قرآن کریم نے عقیدۂ توحید کو آسمانی مذاہب کے درمیان قدرِ مشترک قرار دیا ہے اور آج کی تحریف شدہ تورات اور انجیل بھی اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ توحید ہی تمام آسمانی مذاہب کا اصل عقیدہ ہے اور اسی پر آسمانی تعلیمات کی بنیاد ہے۔

(۲) دوسری بات جسے قرآن کریم نے آسمانی مذاہب کے درمیان قدر مشترک قرار دیا ہے، یہ ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے سوا رب نہ بنا لیں۔ بظاہر یہ بھی توحید کے سابقہ مفہوم ہی کا جزو معلوم ہوتا ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ اس کا ایک مستقل اور الگ مفہوم بیان کیا ہے اس لیے میں اسے الگ قدرِ مشترک کے طور پر ذکر کر رہا ہوں۔ قرآن کریم نے اہلِ کتاب کے بارے میں ایک مقام پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو یعنی علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنا لیا ہے، تو حضرت عدی بن حاتمؓ نے جناب نبی اکرمؐ سے سوال کیا کہ ہم تو اپنے احبار و رہبان کو رب کا درجہ نہیں دیا کرتے تھے۔ حضرت عدیؓ دنیائے عرب کے معروف سخی حاتم طائی کے بیٹے تھے اور اسلام کو قبول کرنے سے قبل عیسائی تھے، اسی لیے انہوں نے سوال کیا کہ ہم نے تو اپنے علماء، مشائخ یا سرداروں کو ارباب نہیں بنایا تھا، قرآن کریم نے ہمارے بارے میں یہ کیسے کہہ دیا ہے؟ آنحضرتؐ نے عدیؓ سے کہا کہ کیا تمہارے ہاں احبار و رہبان کو حلال و حرام کے اختیارات حاصل نہیں تھے کہ جس چیز کو وہ حرام قرار دیں وہ حرام ہو جائے اور جس کو حلال کہہ دیں وہ حلال سمجھ لی جائے؟ عدی بن حاتمؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ایسا تو ہمارے ہاں ہوتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ رب بنانے کا یہی معنی ہے۔ یہ بخاری شریف کی روایت ہے اور اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اگر حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کے اختیارات کسی انسان کے حوالے کر دیے جائیں تو یہ اس کو رب بنا لینے کے مترادف ہے، کیونکہ حلال و حرام کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کرے اور جسے چاہے حرام قرار دے دے، کسی اور کو اس معاملہ میں دخل دینے اور خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

اس پس منظر میں آج کی دنیا کا نظام دیکھیں تو انسانوں کی ایک بڑی اکثریت نے حلال اور حرام کے اختیارات انسانوں کے لیے مختص کر رکھے ہیں اور جائز اور ناجائز کے فیصلے انسانوں ہی کے سپرد کر دیے ہیں۔ یہ فیصلے کوئی فرد کرے، جماعت کرے یا پارلیمنٹ کرے سب کا نتیجہ ایک ہے۔ اور سب صورتوں میں کسی چیز کو حلال یا حرام کرنے، کسی کام کو جائز یا ناجائز کرنے، کسی چیز کو ضروری قرار دینے اور کسی کو ممنوع کا درجہ دینے کے اختیارات انسانوں ہی کے پاس ہیں۔ اور مذکورہ بالا روایت کی روشنی میں جناب رسول اکرمؐ کے نزدیک انسانوں کو انسانوں پر رب بنانے کا یہی معنٰی ہے۔

جبکہ توحید کے ساتھ ساتھ حلال و حرام کے اختیارات میں خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کو بھی قرآن کریم نے آسمانی مذاہب کے درمیان قدرِ مشترک قرار دیا ہے اور قرآن کریم نے ان دو اصولوں کو صرف قدرِ مشترک قرار دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی صاف ہدایت دی ہے کہ ’’فان تولوا فقولوا اشہدوا باَنا مسلمون‘‘ اگر اہل کتاب اس اصول سے پھر جائیں تو آپ واضح طور پر اعلان کر دیں کہ اے اہلِ کتاب! تم گواہ رہو کہ ہم انہی اصولوں پر قائم ہیں۔ گویا قرآن کریم نے اس بات کی صراحت کر دی کہ اہلِ کتاب سے بات صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ وہ ان دو اصولوں کو تسلیم کریں اور آسمانی مذاہب کی ان مشترک اقدار کا اعتراف کریں، اس کے بغیر ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ یہ وہ تاریخی حقیقت ہے کہ نجران کے مسیحیوں کے ساتھ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکالمہ اور ڈائیلاگ اسی نکتہ پر منقطع ہوگیا تھا۔ اس لیے آج بھی ہمارے لیے قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ مذاہب کے درمیان مکالمہ اور ڈائیلاگ سے انکار نہیں ہے لیکن یہ مکالمہ جب بھی ہوگا انہی اصولوں پر ہوگا اس کے سوا کسی اور اصول مذہبی پر بات کرنے کی مسلمانوں کو اجازت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اصولوں پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter