حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی حسین یادیں

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۲۰۱۶ء / ۲۰۱۷ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی قدس اللہ سرہ العزیز ان بزرگوں میں سے ہیں جن کے ساتھ میری زندگی بھر تحریکی، مسلکی اور دینی رفاقت رہی۔ جن چند بزرگوں کے ساتھ میری رفاقت مسلسل رہی اور ایک دوسرے پر اعتماد بھی الحمد للہ ہمیشہ رہا، ان میں ایک مولانا چنیوٹیؒ ہیں۔ آپؒ چنیوٹ کے رہنے والے تھے، ان کے والد محترم سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان کی زیارت بھی کی ہے، ان کے گھر کئی دفعہ گیا ہوں۔ چنیوٹ میں فرنیچر کا کام بہت مشہور ہے، فرنیچر پر نقش و نگار میں چنیوٹ سب سے فائق ہے۔ حضرت چنیوٹیؒ کے والد محترم فرنیچر کا کام کرتے تھے، پیشے کے اعتبار سے ترکھان تھے۔ انہیں شوق ہوا کہ میں اپنے بیٹے کو پڑھاؤں، چنانچہ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کو دین کی تعلیم کے لیے وقف کیا۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم چنیوٹ سے ہی حاصل کی اور دورۂ حدیث ٹنڈو الہیار میں کیا ہے۔

قیامِ پاکستان کے زمانے کی بات ہے کہ ایک بہت بڑا دارالعلوم ٹنڈو الہیار (سندھ) میں قائم ہوا تھا۔ اس تصور سے قائم ہوا تھا کہ یہ پاکستان میں دارالعلوم دیوبند کا ثانی ہو گا۔ بڑے بڑے علماء کرام مثلاً مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ وغیرہ اس وقت کی چوٹی کی قیادت وہاں جمع ہو گئی تھی۔ یہ بڑے بڑے اکابر وہاں جا کر بیٹھے اور چند سال تک دورۂ حدیث مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور مولانا بدر عالم میرٹھیؒ نے پڑھایا۔ اگر وہ مدرسہ اسی معیار پر چلتا رہتا تو اپنی شخصیات اور اپنے کام کے آغاز کے اعتبار سے واقعتاً پاکستان کا دارالعلوم دیوبند ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ آپس کے تعلقات نہیں نبھ سکے تو وہ بکھر گیا، مولانا بدر عالم میرٹھیؒ ہجرت کر کے حجاز چلے گئے، مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے کراچی میں مدرسہ بنا لیا اور وہاں صرف مولانا ظفر احمد عثمانیؒ رہ گئے۔ وہ دارالعلوم اب بھی موجود ہے، میرا وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا، لیکن اب وہ نارمل سا حفظ اور ابتدائی کتابوں کا مدرسہ ہے۔ تاہم مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے اس دور میں پاکستان کے قیام کے لگ بھگ وہاں دورۂ حدیث کیا ہے۔ آپ کے حدیث کے استاد مولانا بدر عالم میرٹھیؒ ہیں جو اپنے وقت کے بڑے محدثین میں سے تھے اور حضرت مولانا محمد انور شاہ کاشمیریؒ کے معتمد ترین شاگردوں میں سے تھے۔

مولانا چنیوٹیؒ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے تو ان کا علاقہ چنیوٹ اس وقت ضلع جھنگ کی تحصیل تھی۔ جھنگ کا علاقہ شیعہ سنی کشمکش کا علاقہ تھا اور اب بھی ہے۔ ان کا ذوق تھا کہ میں یہاں شیعہ سنی محاذ پر کام کروں گا۔ مولانا عبد الشکور لکھنویؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ اور مولانا دوست محمد قریشیؒ وغیرہ حضرات نے ملتان میں تنظیم اہل سنت کا مرکز بنایا تھا اور سنی عقائد اور سنی مسلک پر تربیت دیا کرتے تھے۔ حضرت چنیوٹیؒ نے وہاں شیعہ سنی محاذ کے مناظرہ کا فن سیکھا، علم حاصل کیا، اہل علم اور اہل فن سے تربیت حاصل کی۔ اصلاً آپؒ مناظر تھے، لیکن جب واپس چنیوٹ پہنچے تو وہاں کا ماحول بدلا ہوا تھا۔

پاکستان بننے سے پہلے قادیانیوں کا مرکز گورداسپور میں قادیان تھا۔ گورداس پور شکر گڑھ سے آگے ہے، بلکہ شکرگڑھ خود گورداسپور کی تحصیل تھی۔ جب پاکستان بنا اور آبادی ادھر ادھر منتقل ہوئی تو قادیانیوں نے بھی مشرقی پنجاب چھوڑ دیا اور یہاں مغربی پنجاب آ گئے۔ اس زمانے میں پنجاب کے انگریز گورنر سر موڈی تھے (ابھی تک انگریزوں کی باقیات باقی تھیں) ان سے قادیانیوں نے ساز باز کر کے دریائے چناب کے کنارے وسیع رقبہ لیز پر حاصل کیا۔ اس نے چند ٹکوں کے عوض پورا رقبہ ان کو دے دیا اور انہوں نے وہاں ربوہ کے نام سے اپنا مرکز بنا لیا، اپنا ہیڈ کوارٹر ربوہ مقرر کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان بھی وہاں منتقل ہو گیا۔ اس وقت قادیانیوں کے سربراہ مرزا غلام احمد کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود تھے۔ قادیانیوں نے ربوہ کے نام سے نیا شہر بسا لیا اور مرزا غلام احمد کا پورا خاندان اور مرزائیوں کا ہیڈ کوارٹر قادیان سے یہاں منتقل ہو گیا۔ ربوہ اور چنیوٹ کے درمیان صرف دریائے چناب ہے، ایک طرف چنیوٹ ہے اور دوسری طرف ربوہ۔

مولانا چنیوٹیؒ فرماتے ہیں کہ میں شیعیت کے محاذ پر کام کرنے کے لیے اپنے علاقے میں آیا تھا، لیکن جب یہاں آ کر دیکھا کہ قادیانیوں کا بہت بڑا مرکز اور ہیڈ کوارٹر بن گیا ہے جو پورے علاقے پر اثر انداز ہو گا تو سوچا کہ ان کا مقابلہ چنیوٹ سے کرنا چاہیے۔ اس پر انہوں نے اپنا چینل بدل لیا کہ اب میں اُس چینل پر نہیں، بلکہ اس چینل پر کام کروں گا اور قادیانیوں کا مقابلہ انہوں نے اپنا مشن اور زندگی کا ہدف بنا لیا۔ اور پھر زندگی بھر چنیوٹ میں، ملک بھر میں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی قادیانیوں کے مقابلے پر کام کرتے رہے اور یہ بات خود قادیانی تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں بڑے بڑے حضرات سے مقابلہ کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن وہ اپنا سب سے زیادہ خطرناک حریف مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کو سمجھتے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یوں مولانا چنیوٹیؒ کی لائن اُس محاذ سے اِس محاذ کی طرف منتقل ہوئی اور اس محاذ پر آپؒ جیسی باہمت شخصیت کی ضرورت بھی تھی، جو ہر بات کو سمجھے اور مقابلہ کرے۔ اس کے بعد آپؒ نے زندگی کی آخری سانس تک قادیانیوں کا مقابلہ کیا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے قادیانیت کے مقابلے کے چار پانچ میدان تھے۔

ایک پبلک جلسے کا میدان تھا۔ آپؒ بڑے نڈر خطیب تھے، چار چار گھنٹے بے تکان بولتے تھے۔ میں نے ان کی جوانی کے زمانے کی تقاریر سنی ہیں، جب کلہاڑی ہاتھ میں ہوتی تھی، چار چار پانچ پانچ گھنٹے حوالوں پر حوالے دیتے چلے جاتے تھے اور قادیانیوں کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کیا کرتے تھے۔ آپ کا ایک محاذ یہ تھا۔

آپؒ کا دوسرا محاذ مناظرہ تھا۔ آپؒ اپنے وقت کے بڑے مناظر تھے۔ آپ کے قادیانیوں سے بہت مناظرے ہوئے اور کامیاب ہوئے۔ مناظرے کے لیے بہرحال لٹریچر اور کتابیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قادیانیوں کے لٹریچر اور کتابوں پر نظر رکھنے والے مولانا محمد حیاتؒ، مولانا چنیوٹیؒ اور مولانا عبد الرحیم اشعرؒ ٹاپ کے تین بزرگ تھے، جن کی قادیانیوں کے پورے لٹریچر پر گہری نظر تھی اور ہر وقت ان کی یادداشت میں ہوتا تھا کہ کہاں کس نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے کتابوں میں گھس کر پورا کھنگالا ہوا تھا۔ آج اس محاذ پر اور قادیانیت پر گہری نظر رکھنے والے دو ہی آدمی ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایک مولانا علامہ خالد محمود صاحب دامت برکاتہم جو کہ ٹاپ پر ہیں اور پہلی صف کے اکابر میں سے ہیں، جب کہ دوسرے مولانا اللہ وسایا صاحب ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھیں۔ یہ دو آدمی ہیں جن کی اس طرز پر قادیانی لٹریچر پر نظر ہے اور جب بھی موقع بنتا ہے تو یہی رہنمائی کرتے ہیں کہ یہاں کیا کرنا چاہیے۔ قادیانی لٹریچر پر گہری نظر اور کتابچوں اور کتابوں کے ذریعے ان کی نشاندہی مولانا چنیوٹیؒ کا دوسرا محاذ تھا۔

آپؒ کا تیسرا میدان تھا ”علماء کی تربیت“ اس مقصد کے لیے انہوں نے چنیوٹ میں ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد قائم کیا، جہاں ہر سال علماء کرام کو ٹریننگ دیا کرتے تھے، انہیں پڑھاتے تھے، قادیانیت کورس کرواتے تھے اور جو ہمارے اور قادیانیوں کے اختلافی مسائل ہیں مثلاً حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رفع و نزول کا مسئلہ، اجراءِ نبوت کہ نبوت جاری ہے یا نہیں، مرزا غلام احمد کا صدق و کذب، اور انبیاء کرامؑ کی جو مرزا نے توہین کی۔ اس طرح کے بنیادی پانچ سات موضوعات پر باقاعدہ تیاری کرواتے تھے۔ ہزاروں لوگوں نے مولانا چنیوٹیؒ سے استفادہ کیا او رقادیانیت پر عبور حاصل کیا۔ آج آپؒ کے شاگرد دنیا کے مختلف خطوں میں قادیانیت کے خلاف اور ختم نبوت کی تحریک کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ آپؒ کا تیسرا محاذ تھا۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی کا چوتھا محاذ لابنگ تھا۔ یہ آپؒ کی اور مولانا احسان احمد شجاع آبادیؒ کی ایک خاص تکنیک تھی۔ ایک ہوتا ہے جلسہ اور تقریر، اور دوسرا ہے متعلقہ لوگوں سے مل کر ذہن سازی کرنا۔ کسی بھی حوالے سے سب سے زیادہ مؤثر کام ذہن سازی کرنا ہوتا ہے۔ جو بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں ان کو ان مسائل کا پتہ نہیں ہوتا مثلاً جو ملک کے بڑے بڑے لیڈر ہیں ان کو کیا پتہ کہ قادیانیت کیا ہے؟ کوئی جا کر بتائے گا تو انہیں پتہ چلے گا۔ کتابیں تو وہ پڑھتے نہیں ہیں اور نہ ہماری تقریریں سنتے ہیں۔ انہیں کیا ضرورت ہے ہماری تقریریں سننے کی؟ اس لیے انہیں ایسے مسائل کا علم نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ جن سے خیر کی توقع ہو کہ اگر ان کو بات سمجھائی جائے تو یہ صحیح کام کریں گے ان کی ذہن سازی کرنا لابنگ کہلاتی ہے۔

مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ جو امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر بنے، ان کا یہی ذوق تھا۔ آپؒ بڑے نفیس الطبع بزرگ تھے، بڑے بڑے لوگوں کے پاس جاتے تھے، وزیرخارجہ، وزیراعظم اور گورنر وغیرہ کے پاس باقاعدہ ان سے وقت لے کر جاتے، کتابیں ساتھ لے جاتے، انہیں حوالے دکھاتے کہ مرزا نے یہ یہ لکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سلیقے کے ساتھ ایک گھنٹے کی بریفنگ دس سال کی محنت سے زیادہ کام کرتی ہے۔ یہ لوگ سمجھدار تو ہوتے ہیں، بات کو سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ بیٹھ کر لڑائی کے انداز میں نہیں، بلکہ پیار محبت سے بات کی جائے کہ دیکھیں یہ کیا ہو رہا ہے، اور آپ کو اس حوالے سے یہ کرنا چاہیے تو وہ بات سمجھتے اور مانتے ہیں۔

مولانا احسان احمد شجاع آبادیؒ کے بعد یہ ذوق مولانا چنیوٹیؒ میں کمال کا تھا۔ آپؒ متعلقہ لوگوں کے پاس پہنچتے، ان سے بات کرتے، حوالے دکھاتے اور بات سمجھاتے تھے۔ پھر ان کو کام بتاتے تھے کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے۔ چنانچہ پھر وہ لوگ کام کرتے بھی تھے۔ یہ کام آپؒ ملکی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر کیا کرتے تھے۔

مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے اس ذوق کا اندازہ کیجیے کہ ہمارے ہاں ایک پیچیدہ مسئلہ حیاتِ عیسٰیؑ اور رفع عیسٰیؑ کا ہے۔ شیخ الازہر روایتی طور پر اور بالخصوص عرب دنیا میں عالم اسلام کی بڑی علمی شخصیات کے طور پر شمار ہوتے ہیں۔ آج بھی جیسے امام کعبہ کوئی بھی ہوں وہ دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، اسی طرح شیخ ازہر کو امامِ اکبر کہتے ہیں۔ عرب دنیا میں سب سے بلند علمی شخصیت شیخ ازہر کی سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت شیخ الازہر شیخ محمود شلتوت تھے انہوں نے کہیں فتوٰی دے دیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات کا عقیدہ ضروری نہیں ہے۔ اس پر مولانا چنیوٹیؒ یہاں سے گئے، عرب دنیا میں علماء سے ملاقاتیں کیں، رابطے قائم کیے، انہیں بریفنگ دی کہ حیاتِ عیسیٰ کا عقیدہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپؒ جامعہ ازہر میں گئے اور جب تک چیدہ چیدہ بڑے بڑے علماء سے حیاتِ عیسٰی کے عقیدہ کے بنیادی عقیدہ ہونے پر دستخط نہیں لے لیے، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے۔ مولانا چنیوٹیؒ نے یہ ساری داستان چھاپی ہے کہ کیسے شیخ ابن باز اور دوسرے شیوخ سے رابطے کیے۔

میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے کام کا انداز ذکر کر رہا ہوں کہ صرف یہ نہیں کہ فتوٰی ٹھونس دیا، بلکہ ان سے بات کر کے، انہیں سمجھا کر قائل کیا اور ان کی غلط فہمی دور کر دی۔ اس کو آج کی اصطلاح میں ”لابنگ کرنا“ کہتے ہیں یعنی خاموشی کے ساتھ متعلقہ لوگوں کے پاس جانا، انہیں بات سمجھانا اور ان کو کہنا کہ آپ کا متعلقہ کام یہ ہے۔ جو مخالف نہ ہو، خالی الذہن ہو، وہ بات سنتا ہے اور سمجھ آ جائے تو مانتا بھی ہے۔ ہم جنہیں اپنا مخالف سمجھتے ہیں ان کی اکثریت خالی الذہن لوگوں کی ہوتی ہے۔ اگر انہیں سمجھایا جائے تو بات سمجھ جاتے ہیں اور سمجھنے کے بعد اپنے دائرے میں تعاون بھی کرتے ہیں۔ جب کہ ہم نے یہ محاذ چھوڑا ہوا ہے۔ ہم سب کو اپنا مخالف سمجھ لیتے ہیں۔ ہماری یہ بھی نفسیات ہے کہ جو بھی سرکاری افسر ہے وہ ہمارا مخالف ہے اور ہم ہر ایک سے بازو چڑھا کر بات کرتے ہیں، جبکہ یہ طرز عمل درست نہیں ہے۔

بہرحال مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کا چوتھا محاذ یہ تھا کہ لابنگ میں بہت ماسٹر تھے۔ آپؒ بازو بھی چڑھاتے تھے، نعرے بھی لگاتے تھے، فتوے بھی دیتے تھے، لیکن متعلقہ لوگوں کے پاس پہنچ کر انہیں سمجھاتے بھی تھے۔ یہ ان کا بہت بڑا محاذ تھا۔

حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کا پانچواں محاذ ”عوام کی خدمت“ تھا۔ دینی کاموں میں پبلک حمایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ اگر آپ اکیلے کھڑے ہوں، آپ کے ساتھ چند آدمی آپ کے حامی نہ ہوں تو آپ کی بات چاہے کتنی وزنی کیوں نہ ہو، بے وزن ہو جائے گی۔ آپ کی بات کا وزن تب بنے گا جب آپ کے ساتھ کچھ آدمی آپ کی حمایت میں کھڑے ہوں۔ آج کی دنیا کی سب سے بڑی دلیل یہ سمجھی جاتی ہے کہ لوگ کس کے ساتھ ہیں، رائے عامہ کیا کہتی ہے، پبلک کا رجحان کیا ہے۔ اس کے لیے مولانا چنیوٹیؒ نے علاقائی سیاست کا میدان منتخب کیا اور تین دفعہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے لیے بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہو۔ جو لوگوں کے تھانے کچہری کے کام کرتا ہو گا اسے ووٹ ملے گا، جو یہ کام نہیں کرے گا اسے ووٹ نہیں ملے گا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا بزرگ کیوں نہ ہو۔ پبلک ووٹ بزرگی کی بنیاد پر نہیں ملتا اور نہ ہی علم کی بنیاد پر ملتا ہے۔ ہم اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ بڑی شخصیت کو کھڑا کر دیں گے تو ووٹ مل جائیں گے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا، بلکہ لوگ اس دن ظہر کی نماز اِس بزرگ کے پیچھے پڑھیں گے اور اسی وقت ووٹ کسی اور کو جا کر دیں گے، اِس بزرگ کو ووٹ نہیں دیں گے۔

اگر لطیفہ نہ سمجھا جائے تو یہ بات بھی ہے کہ ہمارے پنجاب کا مزاج یہ ہے کہ مولوی کہیں سے بھی آ جائے سرائیکی ہو، بلوچی ہو، پٹھان ہو یا سندھی ہو، محلے والے اسے سنبھالیں گے، مسجد میں رکھیں گے، مسجد بنا کر دیں گے، اس کی خدمت کریں گے، کھلائیں پلائیں گے، مدرسہ بنانا چاہے گا تو وہ بھی بنا دیں گے، کہیں مسجد مدرسے کی لڑائی ہو تو مولوی کے ساتھ کھڑے ہوں گے، لڑائی لڑیں گے، بلکہ مولوی کو رشتہ بھی دے دیں گے، لیکن پکی بات ہے کہ ووٹ اسے نہیں دیں گے۔ کیونکہ ووٹ ملتا ہے پبلک کاموں پر، تھانے، کچہری کے کام کرنے پر اور لوگوں کے جھگڑے نمٹانے پر۔

میں نے مولانا چنیوٹیؒ کو پبلک کے کام کرتے اور تھانے، کچہری سے ڈیل کرتے دیکھا ہے۔ انہوں نے اتنا اچھا ماحول بنایا کہ تین دفعہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ دو دفعہ ان کے بیٹے مولانا الیاس چنیوٹی منتخب ہوچکے ہیں اور میونسپل کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ چنیوٹ کی سیاست میں ایک مستقل ”مولوی گروپ“ کہلاتا ہے، جو بلدیاتی الیکشن اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑتے ہیں اور قومی اسمبلی میں کسی کو سپورٹ کر دیتے ہیں۔ جھنگ میں بھی عام طور پر ایسے ہی ہوتا ہے۔ جھنگ شہر میں مولانا حق نواز شہیدؒ نے بھی یہی کام کیا۔ انہوں نے شیعہ سنی محاذ کے ساتھ سیاست کو جوڑا، جبکہ مولانا چنیوٹیؒ نے قادیانی محاذ کے ساتھ سیاست کو جوڑا۔ دونوں اسمبلی کے الیکشن لڑتے رہے۔ اب ان کا بیٹا بھی اسمبلی میں گیا ہے، اللہ پاک سلامت رکھے اور حفاظت فرمائے۔ چنیوٹ میں بڑے بڑے جاگیرداروں اور بڑے بڑے چوہدریوں سے الیکشن میں مقابلہ مولانا چنیوٹیؒ کا ذوق تھا۔ ان کی محنت اور خلوص پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ کامیابی عطا فرمائی۔ پنجاب اسمبلی میں اپنے علاقے کے لوگوں کی نمائندگی بھی کرتے تھے اور اپنے دین و مذہب اور ختمِ نبوت کی نمائندگی بھی کرتے تھے۔

حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے بڑے کارناموں میں ربوہ کا نام تبدیل کروانا بھی ہے۔ قادیانیوں نے جو اپنے نئے مرکز کا نام ربوہ رکھا تو یہ ان کا دجل تھا۔ کیونکہ مرزا غلام احمد نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ میں عیسٰی ابن مریم ہوں اور حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں قرآن مجید میں آتا ہے "وَاٰوینٰھما الٰی ربوۃ ذاتِ قرار وَمَعین" ہم نے ٹھکانہ دیا عیسٰی ابن مریم اور مریم کو ربوہ میں۔

قرآن مجید میں ربوہ کا ذکر حضرت مریم اور حضرت عیسٰیؑ کے حوالے سے ہے، لیکن وہ ربوہ ٹیلے کے معنی میں ہے۔ جن لوگوں کو اس کا علم ہے ان کا معاملہ تو ٹھیک ہے، لیکن جنہیں پتہ نہیں وہ اس سے دھوکا کھائیں گے۔ اس بنیاد پر قادیانیوں نے اپنے ہیڈ کوارٹر کا نام ربوہ رکھا اور یہ دھوکا دینا چاہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ مولانا چنیوٹیؒ کہتے ہیں مجھے پہلی دفعہ تب احساس ہوا جب میں افریقہ کے کسی ملک میں تھا۔ وہاں کسی موقع پر قادیانیوں کے بارے میں بات کی تو ایک نوجوان لڑ پڑا کہ تم احمدیوں کے خلاف بات کرتے ہو، حالانکہ ان کے ربوہ کا ذکر تو قرآن پاک میں ہے اور اس نے یہ آیت پڑھی وَاٰوینٰھماالٰی ربوۃ ذاتِ قرار وَمَعین۔ مولانا کہتے ہیں مجھے تب احساس ہوا کہ یہ تو بہت بڑی بے ایمانی اور دجل ہے۔ چنانچہ انہوں نے وطن واپس آ کر اسے اپنا مشن بنا لیا اور ربوہ کا نام تبدیل کروانے کے لیے بہت کوششیں کیں، کبھی اسپیکر کو مل رہے ہیں، کبھی گورنر اور کبھی وزیر اعلیٰ سے مل رہے ہیں۔ کبھی صدر کے پاس جا رہے ہیں تو کبھی چیف جسٹس کے پاس جا رہے ہیں۔ اسمبلی کی محنت الگ اور ان کی شخصی محنت الگ، جس میں دیگر دینی و سیاسی جماعتوں نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی کہ ربوہ کا نام تبدیل کروانے میں کامیاب ہوئے۔ الحمد للہ میں بھی اس تحریک میں ان کے ساتھ تھا۔

مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی محنت کا انداز اپنا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں جب قومی اسمبلی میں قادیانیوں کا مسئلہ درپیش تھا کہ انہیں کافر قرار دیا جائے یا نہیں۔ جب یہاں یہ بحث ہو رہی تھی تو مولانا چنیوٹیؒ یہاں نہیں تھے۔ آپ مکہ مکرمہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں کیا کام کر رہے تھے؟ مولانا چنیوٹیؒ خود کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ جب تک عالم اسلام کی طرف سے اجتماعی حمایت نہیں آئے گی، اس وقت تک پاکستانی حکومت نہیں مانے گی۔ رابطہ عالم اسلامی بڑی نمائندہ تنظیم ہے، شیخ عبداللہ ابن السبیلؒ امام کعبہ تھے۔ مولانا چنیوٹیؒ ان کے پاس گئے اور کہا کہ حضرت! ہمیں پاکستان میں قومی اسمبلی سے یہ فیصلہ لینے کے لیے رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد چاہیے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاکہ ہم اپنی اسمبلی کے ارکان کو قائل کر سکیں، ورنہ تو یہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہو گا۔ ہمیں یہاں کا فیصلہ چاہیے تاکہ ہم دکھا سکیں کہ یہ پوری ملت اسلامیہ کا فیصلہ ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ چنانچہ آپؒ نے وہاں دو مہینے محنت اور لابنگ کر کے اور لوگوں سے مل ملا کر رابطہ عالم اسلامی سے یہ فیصلہ حاصل کیا۔ اس تحریک میں مولانا چنیوٹیؒ کا یہ کردار ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے جو بنیادی عوامل ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس تحریک کے دوران رابطہ عالم اسلامی نے پورے عالم اسلام کی طرف سے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔

دوسری بات یہ ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن بھٹو مرحوم کو یہ فیصلہ کرنے کا کہنے والوں میں شاہ فیصل شہیدؒ بھی تھے، شاہ فیصلؒ کو کہنے والے شیخ السبیلؒ تھے اور شیخ السبیلؒ کو تیار کرنے والے مولانا چنیوٹیؒ تھے۔ یہ ہوتا ہے بیک ڈور کام کرنا۔ ایسے لوگ سامنے نظر نہیں آتے، بلکہ بسا اوقات پیچھے رہنے والے لوگ زیادہ کام کر جاتے ہیں۔

مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ قادیانیت کے محاذ پر مختلف شعبوں میں مصروف عمل تھے۔ آپ کو رات کو خواب بھی قادیانیوں کے بارے میں آتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے دل لگی کے طور پر کہا کہ آپ خواب میں بھی یہی سوچتے ہوں گے کہ اس کو کیسے گرانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ ان کا موضوع ہی قادیانیت تھا۔ جہاں بھی موقع ملتا قادیانیت پر بات کرتے۔ اگر انہیں سورہ اخلاص کی تفسیر کرنے کو کہا جائے تو وہاں بھی قادیانیت ہی بیان کریں گے۔

ہماری رفاقت کافی عرصہ رہی ہے۔ میرا ان سے تعلق الحمد للہ پینتیس چالیس سال رہا اور ایسا تعلق تھا کہ جیسا شاید دو حقیقی بھائیوں میں نہ ہو۔ وہ کوئی کام مجھ سے پوچھے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اگر علمی کام ہوتا تھا تو مولانا ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب مدظلہ سے اور تحریکی کام ہوتا تھا تو مجھ سے پوچھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کوئی علمی و تحریکی کام کیا ہو اور ہم دونوں میں سے کسی سے پوچھا نہ ہو۔ ہم جہاں رکنے کا کہتے، وہاں رک جایا کرتے تھے۔ مولانا چنیوٹیؒ بڑے لوگوں میں سے تھے، لیکن بڑا پن یہ بھی تھا کہ اگر انہوں نے کسی موضوع پر ایک صفحہ بھی لکھا ہے تو علمی کام ہوتا تو بیٹے کو لاہور بھیجتے کہ علامہ صاحب کو دکھا کر لاؤ۔ اور اگر تحریکی و سیاسی معاملات ہوتے تو بیٹے کو میرے پاس بھیجتے کہ جا کر چچا جان کو دکھا کر لاؤ، تاکہ وہ اسے دیکھ کر بتائیں کہ صحیح ہے یا نہیں۔ ہمارا زندگی بھر باہمی اعتماد کا یہ عالم رہا۔

حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی یہ عظمت تھی کہ اسمبلی میں کسی خاص موضوع پر بات کرنی ہوتی تھی تو مجھ سے رابطہ کر کے پوچھتے تھے کہ یہ مسئلہ ہے میں کیا کہوں؟ میں لکھ کر دیتا تھا، آپ ویسے ہی بات کرتے تھے، بہت دفعہ ایسا ہوا ہے۔

مولانا منظور احمد چنیوٹی اور میری بیرونی رفاقت بھی کافی رہی ہے۔ ہم نے سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کے بہت سے سفر اکٹھے کیے ہیں۔ بین الاقوامی محاذ پر بھی ہم ایک دوسرے کے دست و بازو تھے۔ اصل وہ تھے میں ان کا معاون تھا۔ میں لندن برطانیہ ساؤتھ آل کے علاقے میں بہت رہا ہوں، مولانا چنیوٹیؒ جب بھی وہاں تشریف لاتے میرے ہاں ہی ٹھہرتے تھے۔ ساؤتھ آل میں زیادہ آبادی سکھوں کی ہے۔ ایک دفعہ خالصتان کے ایک سکھ پروفیسر میرے پاس آئے۔ میں اس وقت مسجد ابوبکر میں تھا۔ کہنے لگے ہم نے ۱۴ اگست کو پاکستان ڈے پر جلسہ کرنا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بڑے مولوی صاحب کو دعوت دیں۔ سکھوں کا جلسہ تھا انہوں نے مجھے مہمانِ خصوصی بننے کو کہا۔ میں نے کہا کہ میں حاضر ہوں، البتہ مجھ سے بھی بڑے ایک مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں، اسمبلی کے ممبر بھی ہیں۔ اگر وہ آپ کے پاس آ جائیں تو کیسا رہے گا؟ وہ کہنے لگا ”پھر تے گل بن گئی“ ان کا نام لکھوائیں۔ میں نے مولانا چنیوٹیؒ کا نام بتایا۔ خالصتان کے صدرجگ جیت سنگھ چوہان صدرِ جلسہ تھے اور مولانا چنیوٹی ؒمہمانِ خصوصی تھے، میں بھی ساتھ سٹیج پر بیٹھا تھا۔ چاروں طرف سکھ ہی سکھ تھے۔ اردگرد تین چار سو سکھ بیٹھے ہوئے دیکھ کر مولانا چنیوٹیؒ مجھ سے کہنے لگے یہ مجھے کہاں لے آئے ہو؟ میں نے کہا اپنے پنجابی بھائیوں میں۔ مجھ سے پوچھنے لگے یہاں کیا کہنا ہے؟ میں نے کہا یہاں بھی مرزا طاہر کے پیچھے نہ پڑ جائیے گا، یہاں کوئی اور بات کہیے گا۔ آپؒ نے وہاں بڑے مزے سے باتیں کیں اور بڑی تالیاں بجیں۔

حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور میں ایران کے دورے میں بھی اکٹھے تھے۔ ایرانی انقلاب کے بعد ایرانی راہنما مجھے بار بار دعوت دیتے تھے کہ یہاں کا دورہ کریں۔ میں اس وقت پاکستان قومی اتحاد اور جمعیت علماء اسلام کے سیاسی لیڈروں میں اہم سیاسی لیڈر شمار ہوتا تھا۔ میں نے ان کے سامنے دو شرطیں رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ میں اکیلے نہیں آؤں گا، میری مرضی کا ایک اور شخص میرے ساتھ ہوگا۔ وفد میں باقی جتنے بھی افراد ہوں، لیکن ایک آدمی میری مرضی کا ہو گا۔ میں نے دوسری شرط یہ رکھی کہ ایران میں جہاں آپ لے جانا چاہیں گے میں جاؤں گا، لیکن جہاں میں جانا چاہوں گا آپ مجھے وہاں جانے سے نہیں روکیں گے، بلکہ وہاں لے کر جائیں گے۔

انہوں نے شرطیں منظور کر لیں۔ میں نے مولانا چنیوٹیؒ کا نام لیا کہ وہ میرے ساتھ ہوں گے۔ مولانا چنیوٹیؒ کو کچھ تردد تھا کہ کہاں لے کر جا رہے ہو، لیکن کہنے لگے آپ کہتے ہیں تو ساتھ چلتا ہوں۔ وہاں کے بیسیوں لطائف ہیں، جن میں سے دو ذکر کر دیتا ہوں۔

تہران میں ایک ہی جگہ جمعہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس یا صدر مملکت جمعہ پڑھاتا ہے۔ جمعہ میں بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ کم از کم تین چار لاکھ کا اجتماع ہوتا ہے۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ان کا جمعہ کیسے ہوتا ہے اور یہ وہاں کیا کرتے ہیں، یہ میرا ذوق ہے۔ ہم نے کہا ہم جمعہ آپ کے ساتھ پڑھیں گے۔ میں نے وہاں پہلی دفعہ دیکھا کہ، ان کا بڑا امام تو غار میں ہے ہی، ان کا جمعہ کا امام بھی غار میں کھڑے ہو کر نماز پڑھاتا ہے۔ زمین میں جگہ کھدی ہوئی ہوتی ہے، امام سکیورٹی کے نکتہ نظر سے وہاں کھڑا ہوتا ہے، اوپر سے نظر نہیں آتا۔ ہم چونکہ سرکاری مہمان تھے تو ہمیں پہلی صف میں جگہ دی گئی۔ امام نے خطبہ دیا، جب نماز کا وقت آیا تو امام غائب تھا۔ آواز آ رہی تھی مگر امام نظر نہیں آ رہا تھا تو حضرت چنیوٹیؒ مجھے کہنی مار کر پوچھنے لگے ارے امام کدھر ہے؟ میں نے کہا مجھے کیا پتہ، میں خود پریشان تھا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ ہمارے سامنے ہی تھے لیکن تہہ خانے میں تھے۔

ایک لطیفہ اور ہوا۔ شاہ ایران دنیا کے بڑے لوگوں میں سے تھا، اس کا کمال کا خوبصورت اور وسیع محل پہاڑی کی چوٹی پر تھا۔ ایرانیوں نے اسے میوزیم قراردے دیا اور باہر سے آنے والوں کو دکھاتے ہیں۔ ان کے بڑے علماء کی زندگی ہمارے علماء کی طرز پر بالکل سادہ ہے۔ یہ دکھانے کے لیے کہ ہمارے بادشاہ کتنے عیاش ہوتے تھے اور جن سے ہم نے ملک لیا ہے ان کا حال کیا تھا، اس محل میں ملکہ کا بیڈ روم بھی دکھایا گیا۔ مولانا چنیوٹیؒ اور میں اکٹھے ہی تھے۔ مولانا چنیوٹیؒ کہنے لگے کہ میں اس پر ذرا لیٹ کر دیکھوں۔ میں نے کہا لیٹ جائیں۔ چنانچہ مولانا چنیوٹیؒ ملکہ کے بیڈ پر لیٹ گئے اور پوچھنے لگے میں کیسا لگ رہا ہوں؟ میں نے کہا اکیلے ہی ہیں آپ۔

ایران میں ہم گیارہ دن اکٹھے رہے۔ وہاں بڑے بڑے لطیفے ہوتے تھے۔ ایک لطیفہ اور سنا کر بات سمیٹتا ہوں، ورنہ یہ تو ’’لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘‘ والا معاملہ ہے، ان کی باتیں تو کرتے رہنے کو جی چاہتا ہے۔

جب ہم ایران کے دورے سے واپس آئے، سترہ افراد کا وفد تھا۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے دورہ کے تاثرات کی نشست رکھی تھی۔ میں، مولانا چنیوٹیؒ اور شہر کے علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ پہلے میں نے اپنے تاثرات بیان کیے، پھر مولانا چنیوٹیؒ نے اپنے تاثرات بیان کیے۔ ایران میں ہم نے دیکھا تھا کہ ان کی عورتیں پردہ کرتی ہیں۔ جو ان کے ہاں پردہ ہے تمام عورتیں اس کا اہتمام کرتی ہیں۔ چہرہ ان کے ہاں پردے میں شامل نہیں ہے، ان کا باقی سارا جسم ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔ کسی چھوٹی بچی کو بھی میں نے بغیر عبا کے نہیں دیکھا، بلکہ میں نے ان کے اخبارات میں ننگے سر والی تصویر بھی نہیں دیکھی۔ لطیفہ یہ ہوا کہ مولانا چنیوٹیؒ اپنے تاثرات میں باتوں باتوں میں کہنے لگے وہاں عورتیں میک اپ بھی نہیں کرتیں، سادہ رہتی ہیں۔ پھر مجھ سے کہنے لگے کیوں بھئی زاہد! ایسے ہی ہے ناں؟ میں نے کہا ”میں نے اتنا غور سے نہیں دیکھا۔ میں صرف کپڑے وغیرہ ہی دیکھتا رہا۔“ بعد میں کہنے لگے ارے چپ ہی رہتا تو اچھا تھا۔

یہ ہماری دوستی، بے تکلفی، تعلق، اعتماد اور محبت الحمد للہ زندگی بھر قائم رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بڑی خدمت لی ہے، بڑا کام لیا ہے اور بڑی عزت سے نوازا ہے۔ آپؒ کا پاکستان میں تو عظیم مقام تھا ہی، عرب دنیا میں بھی حضرت چنیوٹیؒ کا نام سند سمجھا جاتا تھا۔ عرب علماء کہتے تھے ”شیخ جنیوتی، شیخ جنیوتی۔“ میں نے مولانا چنیوٹیؒ کی محنت، خلوص اور قربانیوں کی وجہ سے عرب علماء کو ان کا بہت احترام کرتے دیکھا ہے۔

کئی لوگ میں نے مولانا چنیوٹیؒ کے دانت کے نیچے سے نکالے ہیں۔ آپؒ کسی عرب حکومت کو لکھ دیتے کہ فلاں بندہ آپ کی حکومت میں قادیانی ہے تو وہ تحقیق نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کا سامان اٹھا کر ایئر پورٹ پر پہنچا دیتے تھے کہ چلو نکلو یہاں سے۔ میں نے بعض لوگ مولانا کے ہاتھوں نکلتے ہوئے بچائے ہیں کہ یہ قادیانی نہیں ہیں۔ گکھڑ کے شعبان اپل میرے دوست اور پڑوسی تھے، ان کے بارے میں مولانا چنیوٹیؒ نے ایک فائل مجھے دکھائی کہ یہ شخص غالباً بحرین کے پاکستانی سفارت خانے میں افسر ہے اور قادیانی ہے۔ میں نے کہا مولانا! آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ تو میرا ساتھی ہے، میں اسے جانتا ہوں اور آپ اسے قادیانی قرار دے کر وہاں سے نکلوا رہے ہیں۔ مولانا چنیوٹی فرمانے لگے کہ اچھا ہوا میں نے تم سے پوچھ لیا ورنہ میں بحرین کی حکومت اور پاکستان کی حکومت دونوں کو باضابطہ خط لکھنے والا تھا کہ اس افسر کو بحرین کے پاکستانی سفارت خانے سے واپس کیا جائے۔

۱۹۸۴ء میں حج کے سفر میں مولانا چنیوٹیؒ اور میں اکٹھے تھے۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ مدینہ منورہ کے آثار کے بہت بڑے حافظ تھے۔ انہیں علم تھا فلاں جگہ فلاں کا مکان تھا، فلاں جگہ فلاں مقام تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ کی برکت سے میں نے حضرت سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کا مکان اصلی حالت میں دیکھا ہے، جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ قبا میں حضرت اسعد بن زرارہؓ کا اصل مکان جہاں حضورؐ نے قیام کیا تھا، میں نے دیکھا ہے۔ بہت سی چیزیں مولانا کی برکت سے دیکھی ہیں۔ جب روضۂ اطہر پر حاضری ہوتی ہے تو وہاں ہر آدمی کا جی چاہتا ہے کہ جالی کے اندر جھانک کر اندر کا منظر دیکھوں۔ ہم روضۂ رسولؐ پر حاضر ہوئے۔ اب انہوں نے جالی کے اندر پردے لگا دیے ہیں، اس وقت پردے نہیں لگے ہوئے تھے۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ جالیوں کے پاس جاؤں اور اندر کا منظر دیکھوں، لیکن وہاں شرطے ڈنڈا پکڑے کھڑے ہوتے ہیں، جو آگے ہونے کی کوشش کرتا ہے، اسے روکتے ہیں۔ لیکن ہماری خوش قسمتی کہ اس وقت جو شرطہ وہاں کھڑا تھا وہ مولانا چنیوٹیؒ کا شاگرد تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ کبھی کبھی مدینہ یونیورسٹی میں ایک ماہ کا قادیانیت کورس کروایا کرتے تھے۔ اس نے مولانا چنیوٹیؒ سے کورس کیا ہوا تھا۔ اس نے مولانا کو پہچان لیا اور آ کر ان سے چمٹ گیا۔ پھر اس نے اپنی جگہ جا کر جان بوجھ کر دھیان دوسری طرف کر لیا۔ مولانا چنیوٹیؒ مجھے فرمانے لگے ارے! دیکھ لو، اس نے دھیان ہٹا لیا ہے۔ میں نے الحمد للہ جالیوں کے ساتھ ہاتھ لگا کر تقریباً دو منٹ اندر کا منظر دیکھا۔ مجھے وہ منظر ابھی تک یاد ہے۔

ہماری رفاقت کافی عرصہ رہی، بالآخر مولانا چنیوٹیؒ ہم سے بچھڑ گئے۔ جس دن آپؒ فوت ہوئے، میں امریکہ میں تھا۔ مجھے زندگی بھر حسرت رہے گی کہ میں ان کا جنازہ نہیں پڑھ سکا۔ یہ میں نے چند باتیں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے بارے میں عرض کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کی نیکیوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter