روزنامہ جنگ ۳ مئی ۲۰۰۴ء کی خبر کے مطابق کیتھولک مسیحی فرقہ کے عالمی سربراہ پوپ جان پال نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ اپنی مسیحی جڑیں دوبارہ دریافت کرے، پوپ نے یہ بات یورپی یونین میں دس نئے ملکوں کی شمولیت کے موقع پر کہی ہے، اس سے پہلے وہ اصرار کر چکے ہیں کہ یورپی یونین میں عیسائی مذہب کو شامل کیا جائے۔
یورپ میں انقلاب فرانس کے ساتھ جمہوری اور سائنسی دور شروع ہونے سے قبل ریاستوں کی اساس مذہب پر تھی، مذہبی احکام کے مطابق ملکوں کا نظام چلتا تھا، چرچ اور کلیسا کو ریاستی و حکومتی امور میں فیصلہ کن بالادستی حاصل تھی، اسی حوالہ سے صدیوں تک مسلمانوں کے خلاف مسیحی جنگیں لڑی گئی ہیں اور یورپی ملکوں میں بسنے والے یہودی طویل عرصہ تک مذہبی انتقام کا شکار رہے ہیں جس کے تحت ریاستی جبر کے ذریعہ لاکھوں یہودیوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے۔ مگر دو باتوں نے یورپ کے عوام کو مذہب کے ریاستی اور حکومتی کردار سے متنفر اور باغی کر دیا اور انہوں نے اجتماعی طور پر طے کر لیا کہ مذہب کا تعلق ہر شخص کے انفرادی معاملات سے ہے اور وہ اس میں ہر طرح سے آزاد ہے مگر سوسائٹی کے اجتماعی معاملات اور ریاستی و حکومتی امور میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔
- ایک بات یہ تھی کہ یورپ میں جب سائنسی علوم کی ترویج، سائنسی تحقیقات، کائنات کے مطالعہ اور انکشافات نیز سائنسی ایجادات کا دور شروع ہوا تو کلیسا نے اسے مذہب کے خلاف بغاوت قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں کام کرنے والوں پر الحاد کا الزام عائد کرکے انہیں سنگین سزائیں دینا شروع کر دیں اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
- اور دوسرا قصہ یہ ہوا کہ بادشاہت اور جاگیر داری نظام کے مظالم اور جبر کا شکار ہونے والے مظلوم عوام نے جب بادشاہوں اور جاگیر داروں کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا اور ان کے خلاف بغاوت کر دی تو کلیسا نے مظلوم عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہت اور جاگیردارانہ سسٹم کا تحفظ کیا اور اس کی مسلسل حمایت کی۔ اس کے نتیجے میں بادشاہت اور جاگیر داروں کے ساتھ ساتھ مذہب کے خلاف بھی عوامی بغاوت ابھری اور ریاستی معاملات میں مذہب کے کردار اور دخل اندازی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا۔
اب پوپ جان پال ریاستی معاملات میں مذہب کے کردار کو واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی مذکورہ بالا اپیل اس مہم کا حصہ ہے۔ مگر ہم پوپ جان پال سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مذہب کا وہ ریاستی کردار جس کا ہم نے مذکورہ بالا سطور میں تذکرہ کیا، اس کردار کی بحالی کی حمایت دنیا کا کوئی بھی باشعور انسان نہیں کر سکتا اور ایسا کرنا ظلم، جبر اور جہالت کے دور کو واپس لانے کے مترادف ہوگا۔ ہم مذہب کے ریاستی کردار کے حامی بلکہ داعی ہیں اور ریاست و معاشرہ کے لیے دین کو ہی درست فکری اور تہذیبی اساس سمجھتے ہیں لیکن مسیحیت اور دوسرے مذاہب میں اس کی صلاحیت موجود نہیں ہے، اس لیے کہ ان مذاہب نے اپنے کردار سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس کے لیے موزوں نہیں ہیں ۔یہ صلاحیت صرف اور صرف اسلام میں ہے جو نہ صرف علم اور سائنس کی ترقی کا علمبردار ہے اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ کسی بھی معاملہ میں ظالم کی طرفداری کی بجائے مظلوم کی حمایت کرتا ہے۔ اس لیے اگر پوپ جان پال ریاست کے مذہبی کردار کی بحالی میں سنجیدہ ہیں تو اس کے لیے اسلام کی طرف رجوع کرنا ہوگا کیونکہ مسیحیت نہ اس سے قبل یورپ کی ریاستوں کی صحیح فکری اور تہذیبی بنیاد فراہم کر سکی تھی اور نہ ہی اب اس سے اس قسم کی توقع کی جا سکتی ہے۔