حضرت مولانا مفتی عبد الستارؒ سمندری، فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دل میں علم دین کے حصول کا شوق ڈالا تو خاندانی ماحول اور روایات کے علی الرغم گھر سے دینی تعلیم کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ذہانت اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرما رکھی تھی اس کے ساتھ شوق اور محنت کا جوڑ ہوا تو توفیقِ خداوندی نے چند سالوں میں رسمی اور دینی تعلیم کے حصول کے مراحل طے کرا کے جامعہ خیر المدارس ملتان کے دارالافتاء تک پہنچا دیا۔ اور پھر کم و بیش پینتیس برس تک اس مسند پر بیٹھ کر صرف عوام کی دینی رہنمائی اور انہیں شریعت کے احکام و مسائل سے آگاہ کرنے کا فریضہ ہی سر انجام نہیں دیا بلکہ دینی علوم بالخصوص تفقہ و افتاء میں علماء کرام اور مفتیان عظام کی رہنمائی و رہبری بھی فرماتے رہے۔ وہ ملک کے ان چند گنے چنے بزرگ مفتیان کرام میں سے تھے جن سے اہل علم رجوع کرتے تھے اور اہل افتاء اپنے فتاویٰ میں ان کی توثیق کا اشارہ پا کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ ہم سے مسئلہ بتانے اور فتویٰ دینے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی۔
گزشتہ روز دارالعلوم رحیمیہ ملتان کے جلسہ تقسیم اسناد کے لیے حاضری کے موقع پر مولانا مفتی عبد الستارؒ کی تعزیت کے لیے جامعہ خیر المدارس میں گیا اور جامعہ کے مہتمم برادرم قاری محمد حنیف جالندھری کے ساتھ مفتی صاحبؒ کے فرزند مولانا مفتی محمد عبد اللہ سے بھی ملاقات ہوئی تو یہ دیکھ کر دل کو بے حد خوشی اور تسلی ہوئی کہ اسلاف کی روایات کا تسلسل ابھی قائم ہے اور وہ اگلی نسل تک بھی منتقل ہو رہا ہے۔ میں نے اس موقع پر عرض کیا کہ حضرت مفتی صاحب کی وفات سے سب سے زیادہ اہل علم کو نقصان ہوا ہے اور وہ ایک شفیق، مربی اور رہبر سے محروم ہو گئے ہیں۔ اور اس دور میں جبکہ ملک بھر میں مفتی صاحبان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، مفتیوں کے مفتی دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یعنی ایسے ثقہ عالم جن سے رجوع کر کے اہل علم اطمینان کی منزل حاصل کر سکیں، ان کا دائرہ سمٹ رہا ہے۔
اس موقع پر ایک واقعہ یاد آگیا جس کا حوالہ اس وقت ذہن میں نہیں ہے مگر غالباً اپنے کسی استاد محترم سے سنا تھا کہ جب حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ کا انتقال ہوا تو بہت سے علماء کرام صدمہ میں رو رہے تھے۔ سنا ہے کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمدؒ عثمانی نے علماء کرام سے خطاب کر کے فرمایا کہ آپ لوگ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ آپ لوگوں کے لیے تو ہم موجود ہیں، اصل نقصان تو ہمارا ہوا ہے کہ ہمارے لیے کوئی موجود نہیں رہا۔ مجھے مولانا مفتی عبد الستارؒ کی وفات پر اسی قسم کی صورتحال محسوس ہو رہی ہے کہ ملک میں علماء کرام اور علمی حلقوں کو جب کسی مسئلہ میں الجھن ہوتی تو اس کے حل کے لیے جن اصحاب علم کی طرف رجوع کا خیال ذہنوں میں آتا تھا ان میں ایک بزرگ حضرت مفتی عبد الستار صاحبؒ بھی ہوتے تھے مگر آج وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں۔
مجھے حضرت مفتی صاحبؒ سے باقاعدہ تلمذ کا شرف حاصل نہیں ہوا مگر میں انہیں اپنے اساتذہ کی صف میں ہی شمار کرتا ہوں۔ وہ بھی ہمیشہ شفقت فرماتے اور نصائح اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔ اس حوالے سے میں ان کی وفات کو اپنا ذاتی نقصان بھی تصور کرتا ہوں کہ ایک مشفق اور دعا گو بزرگ کے سائے سے محروم ہوگیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے فرزند و جانشین مولانا مفتی محمد عبد اللہ کو اپنے نیک صفت اور صاحب دل والد کی روایات کا صحیح جانشین و امین بنائے، آمین یا رب العالمین۔