اجتماعاتِ مدارس

   
۲۶ مارچ ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

گزشتہ دنوں مختلف شہروں میں دینی مدارس کے اجتماعات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔ روڈ و سلطان ضلع جھنگ میں شیخ العلماء حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی قدس اللہ سرہ العزیز کے پوتے مولانا عبید اللہ ازہر نے ’’خانقاہ بہلویہ‘‘ کے نام سے روحانی مرکز آباد کر رکھا ہے جہاں حضرت بہلویؒ کے معتقدین اور منتسبین کی آمد و رفت کی رونق قائم رہتی ہے اور ذکر و اذکار کے معمولات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مولانا موصوف کے ارشاد پر ۲۰ مارچ کو خانقاہ شریف کے سالانہ اجتماع میں حاضری اور بزرگوں کے اس سلسلہ الذھب کے بارے میں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ملا جن میں حضرت دین پوریؒ، حضرت امروٹیؒ، حضرت لاہوریؒ، حضرت ھالیجویؒ، حضرت درخواستیؒ، حضرت بہلویؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے اسماء گرامی نمایاں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میری فکری اور روحانی نشوونما انہی بزرگوں کے مسلسل تذکروں کے ماحول میں ہوئی ہے اس لیے ان میں سے کسی بزرگ کے حلقہ میں حاضری ہوتی ہے تو اس سے دل کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔

اسی روز عشاء کے بعد احمد پور سیال کی قدیمی درسگاہ جامعہ شمسیہ فخر المدارس کے سالانہ جلسہ کی ایک نشست میں سیرت نبویؐ کے موضوع پر کچھ معروضات پیش کیں جو ہمارے محترم دوست مولانا سید سلطان علی شاہؒ کی یادگار ہے اور گزشتہ نصف صدی سے یہ ادارہ علاقہ میں علوم دینیہ کی خدمات سر انجام دینے میں مصروف ہے۔ اس موقع پر اتحاد اہل سنت کے نو منتخب سیکرٹری جنرل مولانا مفتی شاہد مسعود کے ساتھ ملاقات ہوئی اور ملک میں مسلکی جدوجہد کے حوالہ سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوا۔

۲۳ مارچ اتوار کو خوشاب اور جوہر آباد میں مصروفیت رہی، اسباق سے فارغ ہو کر ظہر تک خوشاب پہنچا، حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیلؒ ہمارے پرانے بزرگوں میں سے تھے، جمعیۃ علماء اسلام میں ان کا کردار نمایاں رہا اور علاقہ کی علمی و دینی شخصیت کی حیثیت سے عوام اور علماء دونوں کا مرجع تھے۔ ان کے فرزند مولانا قاری سعید احمد ہمارے دوست اور ساتھی ہیں جبکہ اب تیسری پشت مولانا محمد جنید فاضل نصرۃ العلوم اور مولانا عبد اللہ احمد فاضل جامعہ مدنیہ لاہور تعلیمی و دینی خدمات کے کام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ میرا حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیلؒ کے دور سے اس مرکز کے ساتھ تعلق چلا آرہا ہے۔ قریب ہی ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، ایک نیک خاتون نے جگہ وقف کر کے مسجد ابوبکر صدیقؓ کے نام سے خانہ خدا تعمیر کرنے کا عزم کیا ہے، اللہ تعالیٰ قبولیت عطا فرمائیں، آمین۔

ظہر کے بعد دوسری جامع مسجد صدیق اکبرؓ میں جو حضرت مولانا محمد اسماعیلؒ کا قدیمی مرکز ہے ’’نظریہ پاکستان اور تحفظ مدارس دینیہ‘‘ کے عنوان سے کانفرنس تھی۔ اس میں تفصیل سے گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظریہ پاکستان پیش کر کے قیام پاکستان سے قبل نئے قائم ہونے والے اسلامی ملک کے لیے جس نظام و قانون کے نفاذ کے وعدے کیے گئے تھے اس نظام کی تعلیم و تدریس آج کی یونیورسٹیوں میں نہیں بلکہ دینی مدارس میں دی جا رہی ہے۔ اور وہ بھی یہ خدمت صرف اس وجہ سے سر انجام دے رہے ہیں کہ اپنے نظام و نصاب میں آزاد ہیں۔ ورنہ اگر سرکاری کنٹرول میں ہوتے تو اس کردار سے کبھی کے محروم ہو چکے ہوتے۔ اس لیے اگر ملک میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری قائم کرنا ہماری ضرورت ہے اور نظریہ پاکستان کے مطابق ملک کا نظام تشکیل دینا ضروری ہے تو ان مدارس کے نصاب و نظام اور ان کی آزادی و خود مختاری کا تحفظ بھی نظریہ پاکستان کا تقاضہ ہے۔ کانفرنس کے بعد الصراط ہائی سکول میں حاضری اور دعا میں شرکت ہوئی جس میں میٹرک کے ساتھ قرآن کریم کے مکمل ترجمہ و تفسیر اور عربی گرامر کو شامل کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔

اس کے بعد جوہر آباد حاضری ہوئی، جمعیۃ علماء اسلام کے پرانے سرگرم حضرات میں سے محترم قاری خدا بخش کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب سے ربع صدی قبل حضرت مولانا غلام ربانی صاحبؒ ، حکیم علی احمد خان صاحب، قاری خدا بخش صاحب، اور صوفی جیون صاحبؒ جمعیۃ کے محاذ پر سرگرم تھے۔ قاری صاحب مرحوم مرکزی جامع مسجد میں چالیس برس سے زیادہ عرصہ تک قرآن کریم، حفظ و ناظرہ کی تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اور ان کے شاگرد سینکڑوں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں۔ ان کے فرزند مولانا قاری فیصل احمد فاضل نصرۃ العلوم اور مولانا علی احمد فاضل دارالعلوم کراچی اب ان کی اس دینی خدمت کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قاری صاحب مرحوم کے گھر میں ان کے بیٹوں اور اہل خاندان سے تعزیت و دعا کے بعد مرکزی جامع مسجد میں مغرب کے بعد ایک تعزیتی نشست خطاب کیا اور محترم حکیم علی احمد خان کی بیمار پرسی کی سعادت حاصل کی۔

۲۴ مارچ کو جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں ہمارے پرانے دوست مولانا قاری میاں احمد صاحب کے مدرسہ جامعہ انوار القرآن کی سالانہ تقریب تھی، طلبہ کی دستار بندی کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے مختصرًا گفتگو کی اور مختلف پرانے دوستوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔

دینی مدارس تمام تر مشکلات کے باوجود دینی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے جو خدمات مسلسل سر انجام دے رہے ہیں وہ عالمی استعمار اور سیکولر قوتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ اس لیے وقفہ وقفہ سے ان کے بارے میں سرکاری پالیسیوں کے ذریعہ دباؤ بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اس لیے مدارس کے اجتماعات میں گفتگو کے دوران یہ بات عام طور پر عرض کر رہا ہوں کہ ان مشکلات سے گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ مشکلات ہماری پہچان اور ہمارے سیدھے راستے پر ہونے کی علامت ہیں۔ عالمی استعمار دنیا میں آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے نفوذ کا راستہ روکنے کے لیے جو حربے اختیار کر رہا ہے وہ بالآخر پسپا ہوں گے اور دینی مدارس نہ صرف آسمانی تعلیمات کے تحفظ اور فروغ میں کامیاب رہیں گے بلکہ سوسائٹی کے عملی نظام میں ان کی واپسی کا ذریعہ بھی ثابت ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter